Getty Images
ڈین میڈوکروفٹ ایک چھوٹی سی مارکیٹنگ کمپنی میں کاپی رائٹر تھے۔ ان کے کام میں پریس ریلیز لکھنا، سوشل میڈیا پوسٹ بنانا اور کمپنی کے لیے تحریری مواد تیار کرنا شامل ہوا کرتا تھا لیکن پھر گزشتہ سال ان کی کمپنی نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔
ڈین بتاتے ہیں کہ اس وقت یہ خیال تھا کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کاپی رائٹر کو اپنا کام جلدی کرنے میں مدد ملے گی تاہم وہ مصنوعی ذہانت کے کام سے زیادہ متاثر نہیں تھے۔
جو مواد مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیا جاتا اس کی نظر ثانی سٹاف کرتا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ مواد کہیں اور استعمال تو نہیں کیا جا چکا۔
ڈین کا کہنا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار مواد میں کچھ منفرد نہیں تھا‘ لیکن مصنوعی ذہانت میں جو بات منفرد تھی وہ اس کی کام کرنے کی رفتار تھی۔
جو کام کاپی رائٹر 60 سے 90 منٹ میں کرتا تھا، مصنوعی ذہانت کی مدد سے وہی کام 10 منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں ہو جاتا تھا۔
مصنوعی ذہانت متعارف ہونے کے چار ماہ بعد ڈین سمیت چار افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
ڈین یہ بات مکمل یقین سے نہیں کہہ سکتے لیکن ان کا خیال ہے مصنوعی ذہانت نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے میں اس بات پر ہنستا تھا کہ مصنوعی ذہانت مصنفوں کا متبادل ہو سکتی ہے یا اس کی وجہ سے میری ملازمت متاثر ہو سکتی ہے لیکن پھر ایسا ہی ہوا۔‘
مصنوعی ذہانت کی تازہ لہر اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سال اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی ریلیز کیا۔
مائیکروسافٹ کا یہ پروگرام ہر قسم کے سوال کے جواب دے سکتا ہے اور منٹوں میں مضامین، تقاریر حتیٰ کہ کھانے کی تراکیب تک آپ کو فراہم کر سکتا ہے۔
اس کے بعد دیگر بڑی کمپنیوں نے بھی اپنے اپنے پروگرام متعارف کروائے۔ گوگل نے مارچ میں بارڈ کو لانچ کیا۔
اس وقت یہ پروگرام اپنی بہترین حالت میں نہیں لیکن یہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے سمندر میں سے جس طریقے سے کوئی بھی مطلوبہ چیز نکال سکتے ہیں وہ انسانوں کی ایک ٹیم کے بس کی بھی بات نہیں۔
مصنوعی ذہانت کی اس خصوصیت کی وجہ سے بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کون سی نوکریاں خطرے میں ہیں۔
اس سال کے آغاز میں گولڈ مین سیچس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر 30 کروڑ لوگوں کی نوکریاں ختم کر سکتی ہے۔
Getty Images
اس رپورٹ کے مطابق انتظامی شعبوں کے 46 فیصد اور قانونی شعبے کے 44 فیصد کام آٹومیٹڈ ہو سکتے ہیں لیکن تعمیرات کے شعبے میں صرف چھ فیصد کام آٹومیٹ کیے جا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مصنوعی ذہانت متعارف ہونے سے پیداوار بڑھے گی اور ترقی کی وجہ سے نئِ نوکریاں پیدا ہوں گے۔
اس کے شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں۔
رواں ماہ آئیکیا کمپنی نے کہا کہ 2021 سے اب تک وہ ساڑے آٹھ ہزار ملازمین کو بطور ڈیزائن کنسلٹنٹ تربیت دے چکی ہے جو پہلے کال سینٹرز میں کام کرتے تھے کیونکہ اب 47 فیصد فون کالز مصنوعی ذہانت کا پروگرام ’بلی‘ وصول کرتا ہے۔
اگرچہ آئیکیا کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی میں کسی ملازم کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا لیکن بہت سے لوگ پریشان ہیں۔
بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے 12 ہزار افراد کے ایک سروے کے مطابق تقریبا ایک تہائی فکرمند تھے کہ مصنوعی ذہانت ان کی جگہ چھین لے گی۔ ان میں اکثریت نچلی سطح پر کام کرنے والوں کی ہے۔
Getty Images
گروپ کی جیسیکا اپوتھیکر کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک انجان چیز کا خوف بھی ہے۔ جب آپ مینیجرز کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے 80 فیصد ہفتے میں کم از کم ایک بار مصنوعی ذہانت ک استعمال کرتے ہیں لیکن نچلی سطح پر کام کرنے والوں میں یہ ہندسہ 20 فیصد تک گر جاتا ہے اس لیے اس ٹیکنالوجی سے واقفیت نہ ہونا بھی پریشانی کی ایک وجہ ہے۔‘
لیکن شاید یہ پریشانی بے سبب نہیں۔ گزشتہ سال الیہاندرو نے تین ماہ تک ایک مشہور یوٹیوب چینل کے لیے ڈبنگ کا کام کیا۔ یہ ایک اچھا کام تھا جس میں وہ انگریزی یوٹیوب چینل سے مواد کا ہسپانوی میں ترجمہ کرتے تھے۔
سال کے اختتام پر وہ اس اعتماد کے ساتھ چھٹیوں پر گئے کہ جب وہ واپس آئیں گے تو مزید کام موجود ہو گا۔
’میں اسی کمائی پر گزر بسر کرتا تھا۔ میری دو بیٹیاں ہیں تو مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔‘
ابھی ان کی چھٹی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک دن اس یوٹیوب چینل نے ہسپانوی زبان میں ایک نئی ویڈیو لگائی جس پر انھوں نے کام نہیں کیا تھا۔
’جب میں نے وہ ویڈیو کھولی تو یہ میری آواز نہیں تھی بلکہ مصنوعی ذہانت والے سسٹم کی آواز تھی۔ یہ بہت بری تھی اور میں نے سوچا کہ یہ کیا ہے، کیا میرے ساتھ کام کرنے کے لیے کسی اور کو رکھ لیا گیا ہے یا پھر یہ میری جگہ لے گا؟‘
سٹوڈیو فون کرنے کے بعد ان کو علم ہوا کہ ان کے صارف نے مصنوعی ذہانت کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ سستا اور تیز رفتار طریقہ ہے لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ چینل کے ناظرین نے شکایت کی کہ آواز کا معیار اچھا نہیں۔
الیہاندرو کی پریشانی ابھی دور نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی بہتر ہو گی تو ان جیسے آرٹسٹ کہاں جائیں گے جو اپنی آواز کے بل بوتے پر کام کرتے ہیں۔
’اگر یہ ہر جگہ ہونا شروع ہو گیا تو میں کیا کروں گا؟ کیا میں کاشت کاری شروع کر دوں؟ میں نہیں جانتا۔ آپ کو ایسی کون سی نوکری کا پتا ہے جس کی ضرورت مصنوعی ذہانت مستقبل میں ختم نہیں کرے گی؟ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔‘
مصنوعی ذہانت آپ کا مکمل متبادل ثابت نہ ہو تب بھی آپ کی معاون ضرور ہو گی۔
چند ماہ تک فری لانسگ کے بعد ڈین نے ایک نئی سمت کا رخ کیا۔ اب وہ ایک ایک کمپنی میں کام کرنے والوں کو ذہنی صحت سے متعلق مشورے دیتے ہیں اور مصنوعی ذہانت ان کی مددگار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل یہی ہونا چاہیے کہ انسانوں کو مواد تک تیز رسائی فراہم کرے نہ کہ مکمل طور پر ان کی جگہ چھین لے۔‘