Getty Imagesبیروت اس لیے یاد آیا کہ مزاحمت کا استعارہ شہر جسے کوئی نہ جیت سکا مگر تقسیم اور معاشی ناہمواری، سیاسی عدم استحکام حاوی ہوا تو خوشبوؤں کے شہر میں بارود کی بو پھیل گئی
جولائی 2006 میں لبنان اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنا، جیو ٹیلی ویژن کی جانب سے جنگ کی کوریج کے لیے سامان سفر باندھا تو آنکھوں کے سامنے فیض صاحب کی بیروت کی یاد میں لکھی نظمیں گھوم گئیں۔
بیروت نگار بزم جہاں
بیروت بدیل باغ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئینے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رخشاں ہے ارض لبناں
بیروت نگار بزم جہاں
ضیا دور میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے فیض صاحب کو بیروت نے اپنی پناہ میں لیا۔ بیروت کے ساحل پر نیلے سبز بحیرہ روم کی رنگت جیسی آنکھوں والے لوگ بے کراں محبتوں کو دلوں میں سمائے ظلم سے نبرد آزما رہے۔ صحن میں تسلط کی آرزو لیے ملحق پڑوسی یعنی جارح اسرائیل آئے دن سرحدوں کی پامالی کو اپنا حق سمجھتا رہا۔
بیروت کی فضاؤں میں ہمیشہ بسنے والی مزاحمت نہ لبنان کو جھکنے دیتی ہے اور نہ ہی عوام کو۔ نہ جانے بیروت کی ہواؤں میں کیسا سحر ہے جو مزاحمت والوں کے لیے پناہ اور بے آسرا وں کے لیے آسرا بن جاتا ہے۔
جولائی 2006 کا ذکر یوں آیا کہ اسرائیل کی جانب سے مسلسل حملے نہ تو شہر کی روشنیوں کو گُل کر سکے اور نہ ہی عوام کے حوصلے توڑ سکے۔ ملک کی مسیحی، شیعہ، سُنی اور دروزی آبادی ایک جھنڈے تلے جمع رہی۔
جس حزب اللہ کی عسکری قوت پر اعتراض کیا جاتا بوقت ضرورت اُسی حزب اللہ کو فوج کا دائیاں بازو قرار دیا جاتا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈوبتی شام کے منظر میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے لبنان کی فتح کے گیت گاتے اور صبح صادق فتح مبین کی دعائیں کرتے۔
شہر میں سکوت تھا مگر دشمن بھی مبہوت تھا۔ صبحیں خوف کے بغیر طلوع ہوتیں اور شام کو قحبہ خانوں میں زندگی جگمگانے لگتی۔ جنگ مسلط تھی مگر امن کے خواب بھی تھے۔ لبنان جیت رہا تھا تو فقط اُمید پر۔۔۔ فتح کے گیتوں کی گُنگناہٹ تھی، آس تھی اور خواب تھے۔
آج بیروت اس لیے یاد آیا کہ مزاحمت کا استعارہ شہر جسے کوئی نہ جیت سکا مگر تقسیم اور معاشی ناہمواری، سیاسی عدم استحکام حاوی ہوا تو خوشبوؤں کے شہر میں بارود کی بو پھیل گئی۔
بیرونی جارحیت سے متحد لڑنے والا ملک آپس کی تقسیم کا شکارا ہوا۔ آج بھی منقسم لبنان کو بیرونی جارحیت گوند کی طرح جوڑ دیتی ہے مگر معاشی افراتفری یکجہتی کے لیے خطرہ بھی بن چکی۔
Getty Imagesآج بھی منقسم لبنان کو بیرونی جارحیت گوند کی طرح جوڑ دیتی ہے مگر معاشی افراتفری یکجہتی کے لیے خطرہ بھی بن چکی
یہی حال شام کا تھا۔ دمشق رنگ و روشنی کا مینارہ تھا، موسیقی اور خوشبو کا گہوارہ تھا، 2006 کی ہی بات ہے، شام اور پاکستان کی معیشت کم وبیش ایک جیسی تھی، ڈالر کی قدر میں بھی مقابلتا کوئی خاص فرق نہ تھا۔
کسی طور شام خوشحال ممالک میں آتا تھا۔ نیلے سمندر کے کنارے تاریخی حلب شہر بھی صلاح الدین ایوبی کے قلعے کی آب و تاب کے ساتھ سر اُٹھائے کھڑا تھا مگر فقط پانچ برس میں اندرونی خلفشار اور بیرونی حملوں نے حلب کو کھنڈرات اور دمشق کو قبرستان غریباں (دمشق میں ایک قبرستان کا نام) میں تبدیل کر دیا۔ شام اندرونی طور پر کمزور نا ہوتا تو بیرونی حملہ آور ہمیشہ کی طرح ناکام ہوتے۔
دمشق جہاں فقیر سڑکوں پر نہ ہونے کے برابر تھے صرف پانچ برس کے عرصے میں اُس کی بڑی آبادی سڑکوں پر آ گئی۔ معیشت، معاشرت برباد ہو گئی اور دمشق ماضی کے ابواب میں کہیں پچھلے صفحوں پر آ کھڑا ہوا۔
2014 سے ہر سال عراق جانے کا اتفاق رہا ہے۔ نجف کی گلیوں کا سرور اور کربلا میں احساس کا جادو یوں اپنی جانب کھینچتا ہے جیسے زندگی سانس کو۔ 2014 کا نسبتاً تباہ شدہ عراق اب یکسر تبدیل ہو چکا ہے، آمریت، سیاسی رسہ کشی اورپھر داعش کے گہرے سایے میں لپٹا عراق طویل سیاہ دور سے نکل رہا ہے، دہشت گردی کو یکجہتی اور معاشی بدحالی کو بہتر مواقع، خطے کے ممالک سے بہتر مراسم اور آزاد خارجہ پالیسی نے عراق کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
گذشتہ نو برس میں عراق نے پایا ہی پایا ہے، عراق واحد ملک ہے جسے ڈوبنے کے بعد ایک بار پھر ابھرتے دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ کئی سال میں بغداد سے کربلا اور نجف سے موصل تک ایک تبدیلی ہے اور مسلسل آ رہی ہے،وہ ہے ترقی کا سفر جو عراق کو تخریب سے تعمیر کی جانب لے گیا ہے۔
لیبیا، افریقی ریاستیں، یمن اور حال ہی میں سری لنکا جیسی ریاستیں معاشی بحران سے معاشرتی بگاڑ تک آ پہنچیں۔ ناکام ریاستیں نہیں ہوتیں ناکام عوام اور مملکتیں ہوتی ہیں۔ مانا کہ پاکستان نہ تو شام ہے اور نہ ہی لبنان، نہ ہی لیبیا اور سری لنکا مگر مملکت کے اندر لگائی جانے والی بارودی سُرنگیں ملتی جلتی ہیں۔
ملک کو تقسیم کی نہیں اتحاد کی، نفاق کی نہیں اتفاق کی اور تفریق کی نہیں تنظیم کی ضرورت ہے۔ نظریہ ضرورت کی نہیں جمہوریت کی ضرورت ہے۔ استحکام کی ضرورت ہے اور استحکام کے لیے عوام کو ترجیح بنانا ہو گا۔
اُمید اچھی چیز ہے مگر اُمید کا دامن تنگ پڑ جائے تو جھولی میں فقط نا امیدی کے پتھر رہ جاتے ہیں۔ ہمیں آگے دیکھنا ہے، مواقع تلاش کرنا ہے، تعمیر کے راستے ڈھونڈنا ہیں یاد رہے کہ ہم آئین اور جمہوریت پسند قوم ہیں اور یہی پہچان ہمیں دُنیا سے الگ کرتی ہے۔
آئین اور جمہوریت ہماری بقا اور ہماری یکجہتی کی علامت ہیں۔ پانی پر خاکے بنانے کی بجائے اب ہمیں زمین پر پاؤں جمانا ہوں گے اور ایسا ناممکن تو نہیں۔