BBCاے ایس پی شہربانو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس پالیسی کو بدلیں گی اور اس کے لیے جتنی تگ و دو کرنی پڑی وہ کریں گی
’یہ سست کیوں پڑ گیا ہے، کوئی رسپانس بھی نہیں دے رہا؟ اس کے بالوں کو کبھی کنگھی بھی کر دیا کرو دیکھو اس کے بال اس کے جسم کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔‘
پولیس کے تربیت یافتہ کتے ریٹا کی حالتِ زار دیکھ کر اسسٹنٹ سپریٹنڈٹ پولیس (اے ایس پی) سیدہ شہربانو نے ہینڈلر کو یہ ہدایت دی تھی۔
یہ رواں سال فروری کی بات ہے، جب سیدہ شہربانو اے ایس پی گلبرگ تعینات ہوئیں اور ان کی حدود میں لاہور کا قذافی کرکٹ سٹیڈیم بھی آتا ہے۔
قذافی سٹیڈیم میں اس وقت پاکستان سپر لیگ کے میچز ہو رہے تھے اور سیدہ شہربانو اپنے عملے کے ساتھ سکیورٹی ڈیوٹی پر سٹیڈیم کے مرکزی گیٹ کے باہر موجود تھیں جہاں پولیس کے تربیت یافتہ کتے بھی ڈیوٹی پر موجود تھے۔
ریٹا کے ہینڈلر نے پنجابی میں جواب دیا ’چھوڑیں سر! یہ اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ پھر اس نے مر جانا ہے۔‘
یہ بات سن کر سیدہ شہربانو چونک سی گئیں۔ پولیس میں بھرتی کے بعد اپنی دوسری فیلڈ پوسٹنگ پر تعینات اے ایس پی نے ہینڈلر سے پوچھا کہ ’آپ کو کیسے پتا ہے کہ ریٹا بس اب کچھ روز ہی کا مہمان ہے؟‘
ہینڈلر نے جواب دیا ’میڈم اس کی عمر پوری ہوچکی اور اب یہ ریٹائر ہوجائے گا جس کے بعد اسے انجیکشن لگا کر مار دیا جائے گا۔ یہ پالیسی پاکستان بننے سے پہلے سے چلی آ رہی ہے۔‘
ریٹا کے ہینڈلر کی یہ بات سن کر جانوروں سے پیار کرنے والی نوجوان پولیس افسر اور زیادہ افسردہ ہو گئیں کہ جن کی کلیئرنس کے بغیر ڈیوٹی نہیں لگ سکتی یا کسی مقام پر کوئی اہم موومنٹ نہیں ہو سکتی ان جانوروں کی ’دیکھ بھال کی بجائے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟‘
BBC
اے ایس پی اس بات پر بھی حیران تھیں کہ معمول کی چار، چار گھنٹے کی ڈیوٹی سے ہٹ کر ان سنیفر ڈاگز سے زیادہ کام لیا جا رہا تھا۔
سیدہ شہربانو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس پالیسی کو بدلیں گی اور اس کے لیے جتنی تگ و دو کرنی پڑی وہ کریں گی۔
اس بات سے انجان کہ یہ نشاندہی پولیس کے محکمہ میں تربیت یافتہ کتوں کے حوالے سے پالیسی میں کیا تبدیلیاں لائے گی، سیدہ شہربانو اس کھوج میں لگ گئیں کہ پتا کروایا جائے کہ پولیس کے ان تربیت یافتہ کتوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے اور اس کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوجوان پولیس افسر سیدہ شہربانو نے بتایا کہ سب سے پہلے انھوں نے اس قانون کو ڈھونڈنا شروع کیا جس کے تحت پولیس کے تربیت یافتہ کتے ریٹائرمنٹ کے بعد مار دیے جاتے ہیں۔
سیدہ شہربانو کے مطابق پنجاب پولیس کا ادارہ سپیشل برانچ سکیورٹی مقاصد کے لیے کتے پالتا ہے، ان کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے اور ان کی مدد سے مشکوک ساز و سامان، دھماکہ خیز مواد اور دیگر ایسی چیزوں کا پتا لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جدید تحقیق کے مطابق سرچ اینڈ سویپنگ بذریعہ سینفر ڈاگ سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
BBCکتوں کو انجیکشن دے کر کیوں مارا جا رہا تھا؟
بی بی سی کے سپیشل برانچ پنجاب کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرنے پر بھی یہ واضح نہ ہوسکا کہ پنجاب پولیس کب سے اپنے تربیت یافتہ کتوں کو انجیکشن لگا کر ’ٹھکانے لگا رہی ہے۔‘
بی بی سی کو دستیاب سپیشل برانچ کے 2011 کے ایک سٹینڈنگ آرڈر کے مطابق سینفر ڈاگ کی قوت شامہ انسان سے 99000 گنا زیادہ ہے۔ جہاں پر کوئی الیکٹرک آلہ کام نہیں کرتا وہاں سنیفر ڈاگ کام کرتا ہے۔
سٹینڈنگ آرڈر کے مطابق سپیشل برانچ پنجاب تکنیکی آلات کے ساتھ ساتھ اہم جگہوں، مذہبی مقامات، وی آئی پی، وی وی آئی پی شخصیات کے دوروں کے دوران مقامات، دفاتر کی سرچ سوپینگ بذریعہ سینفر ڈاگ کروائی جاتی ہے۔
یہ کتے ہوا سے سونگھ کر مشکوک چیز کے متعلق بتا دیتا ہے کہ اس مقام پر بارود، اسلحہ، پیٹرول، یا وہ چیز جس کی تربیت دی گئی ہے، تلاش کر لیتا ہے اور اپنے مالک کو بتا دیتا ہے۔
دستاویزات کے مطابق تربیت کے لیے کتا ایک سال سے کم عمر نہیں ہوسکتا۔
خریدتے وقت کتے کا موروثی ریکارڈ دیکھا جاتا ہے، والدین کا پتا کیا جاتا ہے کہ کہیں کسی بیماری سے تو نہیں مرے۔ کتے سے تین گھنٹے موسم سرما اور دو گھنٹے موسم گرما میں ڈیوٹی لی جاسکتی ہے۔
اس کے تحت اگر ڈیوٹی کی زیادہ مجبوری ہو تو کتے کو دو گھنٹے آرام دیا جائے گا۔
BBC
سپیشل برانچ کے اس سٹینڈنگ آرڈر میں کل 26 نکات لکھے گئے ہیں جہاں کتے کو خریدنے سے لے کر اس کی تربیت، بیماری، خوراک، رہائش اور سروس کے دوران کسی بھی وجہ سے موت کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم تک شامل ہے لیکن اس آرڈر میں ریٹائرڈ کتوں کو ٹھکانے لگانے کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔
سپیشل برانچ پنجاب کے ریکارڈ کے مطابق 28 مارچ 2019 کو سپیشل برانچ کے اس وقت کے سربراہ کی طرف سے یونیورسٹی آف ویٹرنی اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کو خط لکھا گیا کہ یہ بتایا جائے کہ ریٹائرڈ کتوں کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔
جوابی خط میں یونیورسٹی کے پیٹ سینٹر کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر عاصم خالد محمود نے لکھا کہ پولیس کے تربیت یافتہ کتوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد دیکھ بھال خاصہ مشکل کام ہے کیونکہ وہ بوڑھے ہوچکے ہوتے ہیں اور ان کو کئی طرح کے طبی مسائل بھی شروع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے انھیں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عاصم خالد محمود نے مزید لکھا کہ ان سب حالات کی وجہ سے بہتر ہے کہ ریٹائرڈ کتوں کو بغیر تکلیف والی موت دے دی جائے۔
سپیشل برانچ پنجاب کے اعلیٰ حکام کے مطابق انجیکشن سے ریٹائرڈ کتوں کو مارنے کا عمل تب سے جاری ہے جب سے سپیشل برانچ میں کتے رکھنے کا عمل شروع ہوا لیکن اس حوالے سے کوئی سرکاری ریکارڈ شیئر نہیں کیا گیا کہ پولیس نے اب تک کتنی تعداد میں تربیت یافتہ کتے انجیکشن لگا کر مار دیے ہیں۔
BBCاے ایس پی شہربانو کے مطابق جب انھوں نے یہ سارا معاملہ آئی جی پنجاب کو بتایا تو انھوں نے فورا اس پر ایکشن لیاپولیس کی ڈیوٹی سے ریٹائر ہونے والے کتے اب کہاں جائیں گے؟
سیدہ شہربانو یہ سارا معاملہ تحریری طور پر موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، جو کہ کچھ عرصہ قبل سپیشل برانچ پنجاب کے سربراہ بھی رہے ہیں، کے نوٹس میں لے آئیں۔ یہ بات تربیت یافتہ ریٹائرڈ کتوں سے متعلق پالیسی میں بڑی تبدیلی کی بنیاد بنی۔
سیدہ شہربانو کے مطابق جب انھوں نے یہ سارا معاملہ آئی جی پنجاب کو بتایا تو انھوں نے فورا اس پر ایکشن لیا اور انھیں کہا کہ وہ کسی ایسی تنظیم کو ڈھونڈیں جو ایسے جانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہو تاکہ ان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔
سیدہ شہربانو کی تلاش انھیں انوشے ضوفشاں تک لے گئی جو لاہور میں جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ’جے ایف کے اینیمل ریسکیو اینڈ شیلٹر‘ سنٹر چلا رہی ہیں۔
انوشے ضوفشاں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جے ایف کے کا مطلب ہی ’جسٹس فار کیکی‘ ہے جو میری ایک پیٹ ڈاگ تھی جسے میں نے سڑک سے ریسکیو کر کے گود لیا تھا۔ اسے آوارہ کتے مارنے والے سکواڈ نے گولی مار دی تھی۔
BBCانوشے ضوفشاں لاہور میں جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ’جے ایف کے اینیمل ریسکیو اینڈ شیلٹر‘ سنٹر چلا رہی ہیں
کیکی کو ریسکیو کرنے کے ساتھ ہی ان کا جانوروں کو ریسکیو کرنے کا مشن جاری ہوا اور آہستہ آہستہ بڑھتا گیا جس کے لیے اب ایک شیلٹر سینٹر بھی بنا دیا گیا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میری اپنی ایمبولینس ہیں، ڈاکٹرز ہیں اور ایک درجن کے قریب سٹاف ہے جو تمام جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کے علاج معالجہ اور کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ جانور اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں، ہمیں ان پہ رحم کرنا چاہیے۔‘
انوشے ضوفشاں کے مطابق اس معاملے میں پولیس نے خود سے رجوع کیا اور ان سے مشورہ مانگا اور اب انھوں نے پولیس کے ساتھ ایک ایم او یو سائن کر لیا ہے جس کے تحت اب جو بھی کتے ریٹائر ہوں گے انھیں خاص شرائط کے بعد ہی کسی خواہشمند کے حوالے کیا جائے گا۔
انوشے ضوفشاں اور اے ایس پی سیدہ شہربانو کی کاوشوں کی بدولت سپیشل برانچ پنجاب نے چند روز قبل پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تقریب منعقد کی۔
اس میں ریٹائر ہونے والے تین تربیت یافتہ کتوں کی نیلامی سے پہلے ان کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ تقریب میں آئی جی پنجاب بھی شریک ہوئے۔
تقریب میں ریٹائر ہونے والے کتوں کو پولیس کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں سرٹیفیکیٹس اور دیگر اعزازات بھی دیے گئے جس کے بعد انھیں تین مختلف خاندانوں نے گود لے لیا۔
سیدہ شہربانو کے مطابق پنجاب کے بعد یہ سلسلہ پورے ملک تک پھیلنا چاہیے تاکہ ’ہمارے لیے خدمات انجام دینے والے جانوروں کو ایسے مارنے سے بچایا جائے۔‘
نوجوان پولیس افسر کے مطابق وہ پوری کوشش کریں گی کہ ’وزیر اعظم ہاؤس میں ڈیوٹی پر معمور کتوں کو بھی بچائیں تاکہ انھیں بھی کوئی انجیکشن لگا کر مار نہ دے۔‘
انوشے ضوفشاں کے مطابق پولیس کے یہ تربیت یافتہ کتے کیسے پالتو بنیں گے، اس کے لیے پولیس نے ان کتوں کے متعلقہ ہینڈلرز کے نمبرز بھی دے دیے ہیں جو ضرورت پڑنے پر متعلقہ لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ جب پولیس کے تربیت یافتہ کتے ریٹائر ہوتے تھے تو انھیں انجیکشن لگا کر ماردیا جاتا تھا اور یہ روایت ’پرانی چلی آ رہی تھی۔‘
آئی جی پنجاب کے مطابق سنیفر ڈاگ عام طور پر دو اقسام کے ہوتے ہیں: جرمن شیفرڈ اور لیبریڈر۔ ’اس وقت سپیشل برانچ کے پاس تقریبا 70 کتے ہیں جو سکیورٹی کے لیے اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق ان کتوں کی مدد سے کئی خدشات دور کیے جاتے ہیں اور یہ ایک ’قومی اثاثہ‘ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک پالتو کتے کی قیمت تقریباً دو سے تین لاکھ روپے تک ہوتی ہے جن کی خوراک، دواؤں اور دیکھ بھال پر ماہانہ تقریبا 10 لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ایک کتا آٹھ سال تک سپیشل برانچ میں کام کرتا ہے جس کے بعد اس کی بڑھتی عمر کی وجہ سے اسے ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔
’اب ہم نے پوری پالیسی بدل دی ہے۔ اب کوئی بھی کتا ریٹائرمنٹ کے بعد انجیکشن کے ذریعے مارا نہیں جائے گا بلکہ اس کی قانونی طور پر بولی لگے گی اور کچھ شرائط کے ساتھ متعلقہ لوگوں کو دے دیا جائے گا۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایسے کتوں کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہ آئے اور ان کی خوراک اور دوائی کا پورا خیال رکھا جائے۔‘
پنجاب پولیس کے سربراہ کے مطابق اس تمام تر کاوش کا کریڈٹ اے ایس پی سیدہ شہربانو کو جاتا ہے جنھوں نے اس بات کو نوٹس لیا جس کے بعد یہ تمام تبدیلیاں کی گئیں۔