تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے 1876 میں جنوری کی ایک سرد رات تھی، دہلی کے سبزی منڈی علاقے میں دو تھکے ہوئے راہگیروں نے محمد خان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔انڈیا کے دارالحکومت کا یہ علاقہ تنگ گلیوں سے بھرا ہوا ہے۔ دونوں مسافروں نے محمد خان سے رات گذارنےکے لیے پناہ مانگی۔
خان نے مہمانوں کو اپنےگھر کے ایک کمرے میں سونے کی اجازت دی۔ لیکن جب صبح اٹھ کر دیکھا کہ انہوں نے مہمان تو وہاں تھے نہیں ساتھ ہی انہیں سونے کے لیے جو گدا دیا تھا وہ بھی غائب ہے۔ خان کو احساس ہوا کہ ان کے ہاں چوری ہوئی ہے۔
اس واقعے کو تقریباً ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں، محمد خان کی یہکہانی حال ہی میں جاری کی گئی دہلی کی سب سے پرانی جرائم کی فہرست میں سامنے آئی ہے - جو ریکارڈ دہلی پولیس نے گزشتہ ماہ اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا تھا۔
ان ’قدیمی ایف آئی آرز‘ میں اس طرح کے مزید 29 واقعات کی تفصیل دی گئی ہے، جو شہر کے پانچ بڑے پولیس سٹیشنوں میں درج کیے گئے تھے۔ یہ پولیس اسٹیشن ہیں، سبزی منڈی، مہرولی، کوٹیالی، صدر بازار اور نانگلوئی۔
یہ ایف آئی آر 1861 سے 1900 کے درمیان درج کی گئی تھیں۔
خان کے کیس میں، پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا اور انہیں چوری کے الزام میں تین ماہ کے لیے جیل بھیجا گیا تھا۔
یہ ایف آئی آر ہاتھ سے لکھی گئی ہیں، خالص اردو رسم الخط میں تھی جس میں عربی اور فارسی کے بہت سارے الفاظ ہیں۔ دہلی پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر راجندر سنگھ کالکل کی قیادت میں ایک ٹیم نے ان ایف آئی آرز کا ترجمہ کیا۔ ہر منظر کی عکاسی خود راجندر سنگھ نے کی ہے۔
راجندر سنگھ کالکل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ریکارڈز اپنی ہی زبان بول رہے تھےکیونکہ ان ریکارڈز نے ایک ایسے شہر میں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں ایک دلچسپ معلومات فراہم کی جو مسلسل بدل رہا تھا اور پھیل رہا تھا۔
انہوں نے کہا’یہ فائلیں ماضی کے ساتھ ساتھ حال کی بھی کھڑکی ہیں‘۔ تاہم، زیادہ تر شکایات چھوٹی موٹی چوری جیسے جرائم کے بارے میں ہیں۔ سنتری، بیڈ شیٹ یا آئس کریم کی چوری، جسے ایک مذاق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک بار ایک ہجوم نے ایک چرواہے پر حملہ کیا، اسے تھپڑ مارا اور اس کی 110 بکریاں لے گئے۔ ایک اور نے ایک بیڈ شیٹ چوری کی لیکن وہ پکڑا گیا۔
ایک بار پھر چاٹ بیگ کے مالک درشن کو بد قسمتی سے غنڈوں نے مارا پیٹا اور وہ اس کے ایک کوٹ اور جوتوں کے ساتھ فرار ہو گئے۔
لیکن جو لوگ ہندوستانی تاریخ کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ قدرے حیران کن ہو سکتا ہے، خاص طور پر 1860 کی دہائی دہلی کی تاریخ میں بڑے جوش و خروش کا دور ہے۔
کچھ سال پہلے، انگریزوں نے مغل حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا جسے بہت سے لوگ 1857 میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کہتے ہیں۔ دہلی شہر ، مغل شاہی یادگاروں، فن، صوفی فلسفے اور خوشنما باغات سے بھرا ہوا اور اس وقت لاوارث اور لوٹ مار کا شہر تھا۔
آرٹسٹ اور مورخ محمود فاروقی کا خیال ہے کہ اس وقت سنگین جرائم نہ ہونے کی ایک ممکنہ وجہ یہ تھی کہ لوگ انگریزوں کی سخت حکمرانی سے خوفزدہ تھے۔
انگریزوں نے خاص طور پر بغاوت کے بعد کے سالوں میں بہت سخت حکومت برقرار رکھی۔ عورتوں، مردوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ، بہت سے لوگوں کو دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور آس پاس کے دیہاتوں میں لوگوں کو انتہائی غربت کی زندگی گزارنی پڑی۔
اور شہر میں رہنے والے چند لوگ گولی لگنے یا پھانسی کے تختے پر جانے کے خوف میں رہتے تھے۔
’یہ خوفناک سفاکیت کا وقت تھا۔ لوگ خوفزدہ تھے اور جس ظلم و بربریت کا وہ سامنا کر رہے تھے اس نے انہیں برسوں تک ستایا تھا۔
فاروقی نے یہ بھی کہا کہ کولکتہ جیسے دوسرے شہروں میں پہلے سے ہی جدید پولیس ڈھانچہ موجود ہے۔لیکن دہلی نے مغل دور کے پولیسنگ کے زیادہ تر 'پرانے' نظام کو جاری رکھا، جسے مکمل طور پر ختم یا تبدیل کرنا مشکل تھا۔لہذا، ریکارڈ میں تضادات یا خلاء کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔‘
یہ ریکارڈ، جو اب دہلی پولیس میوزیم میں محفوظ ہیں، پچھلے سال دریافت ہوئے تھے۔ کالکل، جو اس عجائب گھر کے آثار قدیمہ کی تحقیق اور تحفظ کے سربراہ ہیں، انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک دن پرانے آرکائیوز کی تلاش کے دوران انہیں دریافت کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہاں سینکڑوں ایف آئی آرز پڑی دیکھیں ، جب میں نے انہیں پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ 200 سالوں میں اس فارمیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
Getty Imagesہندوستانی فوجیوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تھی
کالکل نے کہا کہ وہ جرم کی معصوم نوعیت سے سب سے زیادہ حیران ہیں۔ وہ وقت جب سگریٹ یا پاجامہ جیسی چیزیں چوری کرنا جرم کے زمرے میں آتا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام معمولی جرائم کی پولیس کو اطلاع دی گئی تھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس وقت دیگر، زیادہ سنگین جرائم نہیں ہو رہے تھے۔تاریخی طور پر، پہلا قتل 1861 میں ہوا ہو گا، جب انگریزوں کے ماتحت پولیس نظام کو انڈین پولیس ایکٹ کے ذریعے باقاعدہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ قتل کے کیس کا پتہ لگانا ہماری تحقیق کا مقصد نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ یہیں کہیں ہے۔بہت سے معاملات میں کیس کا نتیجہ کچھ نہیں نکالا گیا جس کا مطلب ہے کہ مجرم پکڑا نہیں گیا ہے۔
لیکن بہت سے دوسرے معاملات جیسے محمد خان کے کیس میں کوڑے مارنے سے لے کر ہفتوں یا مہینوں کی جیل تک کے لیے فوری سزا کی ضمانت دی گئی۔
ایک بار 1897 میں شہر کے سب سے باوقار علاقے میں واقع 233 کمروں والے ہوٹل امپیریل میں ایک جرم کیا گیا تھا۔
ہوٹل کا باورچی سبزی منڈی تھانے میں ’انگریزی میں لکھی ہوئی شکایت‘ لے کر آیا۔ جس میں لکھا تھا کہ چوروں کا
ایک گروہ ہوٹل کے ایک کمرے سے شراب کی بوتل اور سگریٹ کا ایک پیکٹ ناقابل یقین طریقے سے لے گیا۔
ہوٹل حکام نے اسے بچانے کے لیے 10 روپے کے پرکشش انعام کا اعلان بھی کیا۔ لیکن یہ کیس حل نہیں ہوا۔
’آج کل جرائم اتنے پیچیدہ ہو چکے ہیں کہ ان کو حل کرنے میں مہینوں یا سال بھی لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت زندگی بہت سادہ تھی، یا تو آپ نے کوئی کیس حل کیا یا آپ نے ایسا نہیں کیا جیسا کہ صورتحال تھی۔
کالکل کی ٹیم اسے مرتب کرنے پر بہت خوش تھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے ترجمے کا ابتدائی عمل اتنا اچھا نہیں تھا۔ اردو شکستھ کے رسم الخط پڑھتے اور ان کے معنی نکالتے ہوئے انہیں کئی بار پریشانی کا سامنا رہا اس لیے ان کی ٹیم میں پورے شہر سے اردو اور فارسی علماء کو بھرتی کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا ’لیکن ہم ہمیشہ جانتے تھے کہ محنت کا پھل سامنے آیِے گا‘۔
وہ ایک پولیس افسر کی تفتیش کے بارے میں بیان سے بہت لطف اندوز ہوئے جہاں وہ چوری کی تفتیش کے دوران اپنے گھوڑے کو تپتی دھوپ میں کھڑا رکھنے پر سختناراض تھا۔
’یہ تفصیلی وضاحتیں آپ کو حیران کر دیتی ہیں کہ ہم کتنی دور آ چکے ہیں‘۔