Getty Images
برطانوی اخبار ’دی سن‘ کے مطابق ایک نوجوان کو بی بی سی کے ایک پیش کار کی جانب سے عریاں تصاویر کے لیے 35 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کے معاملے میں نوجوان کا خاندان بی بی سی کے ردعمل سے مطمئن نہیں ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ اسے رواں برس مئی میں پہلی مرتبہ اس شکایت کا علم ہوا جبکہ جمعرات چھ جولائی کو ’نئے الزامات‘ کے بارے میں ادارے کو معلومات ملیں۔
تاہم مذکورہ نوجوان کے خاندان کا الزام ہے کہ ’ابتدائی شکایت کے بعد بی بی سی کی جانب سے کسی نے ان سے باقاعدہ انٹرویو کے لیے رابطہ نہیں کیا تھا۔‘
بی بی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس پیش کار پر یہ الزامات عائد کیے گئے ہیں اسے معطل کر دیا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق وہ حقائق کے تعین کے لیے حتی المقدور تیزی سے کام کر رہا ہے اور پیر کو ادارہ اس معاملے پر لندن کی میٹروپولیٹن پولیس سے بھی ملاقات کرے گا۔
برطانوی وزیرِ انصاف ایلکس چالک نے بی بی سی سے کہا ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرے اور ان الزامات کی فوری تحقیقات کرے تاکہ معصوم لوگوں کی ساکھ متاثر ہونے سے بچا جا سکے۔
بی بی سی بریک فاسٹ پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بروقت کارروائی ضروری ہے کیونکہ یہ نہ تو متاثرین کے ساتھ صحیح ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ جو معاملے میں ملوث ہو سکتے ہیں اور نہ ہی بی بی سی کے ساتھ جو ایک اہم کام کرتا ہے۔‘
اتوار کو دی سن میں شائع ہونے والی ایک نئی خبر کے مطابق اس نوجوان کا خاندان بی بی سی کی جانب سے اتوار کو دیے گئے بیان کی تحریر سے خوش نہیں۔
خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جمعے کو دی سن میں ابتدائی خبر سامنے آنے کے بعد بی بی سی کے پیش کار نے اس فرد کو دو مرتبہ فون کال بھی کی جس میں مبینہ طور پر پیش کار نے اس سے کہا کہ ’یہ تم نے کیا کر دیا ہے؟‘۔ خبر کے مطابق مبینہ طور پر پیش کار نے اس فرد سے اس کی والدہ کو فون کر کے ’تحقیقات کا عمل رکوانے‘ کو بھی کہا۔
بی بی سی ان دعووں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
برطانوی اخبار دی سن میں جمعے کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بی بی سی کے ایک مرد پریزینٹرپر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے ایک نوجوان کو عریاں تصاویر کے لیے 35 ہزار پونڈ ادا کیے۔
الزامات کے مطابق انھوں نے یہ رقم اس وقت ادا کرنا شروع کی جب اس فرد کی عمر 17 برس تھی۔
دی سن کے مطابق اس نوجوان کے اہل خانہ نے رواں برس 19 مئی کو بی بی سی سے شکایت کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کے اہل خانہ اس بات پر مایوس ہو گئے تھے کہ پیش کار ان کی شکایت کے بعد بھی آن ایئر رہا جس پر متاثرہ خاندان نے اخبار سے رابطہ کیا لیکن کہا کہ وہ اس کہانی کے لیے کوئی ادائیگی نہیں چاہتے ہیں۔
متاثرہ فرد کی والدہ نے اخبار کو بتایا کہ اس گمنام فرد کی عمر اب 20 سال ہے اور اس نے بی بی سی کے پیش کار سے ملنے والی رقم کوکین کی عادت کے لیے استعمال کی تھی۔
انھوں نے اخبار کو بتایا کہ کس طرح وہ فرد تین برس میں'خوش باش نوجوان سے نشے کا عادی' بنا۔
بی بی سی نے کہا ہے کہ ان معلومات پر 'مناسب طریقے سے کارروائی' کی جائے گی۔ ادارے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ہم کسی بھی الزام کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار موجود ہے۔ اس کے ایک حصے کے طور پر، اگر ہمیں ایسی معلومات ملتی ہیں جس کے لیے مزید تحقیقات یا جانچ کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم ایسا کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ اس میں ان لوگوں سے بات کرنا شامل ہے جنھوں نے صورتحال کی مزید تفصیل اور تفتیش کے لیے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ '
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اگر ہمیں ہماری کوششوں کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے یا مزید ایسا کوئی رابطہ نہیں ملتا ہے جس سے معاملات آگے بڑھ سکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری تفتیش رک جائے گی۔ اگر کسی بھی موقع پر نئی معلومات سامنے آتی ہیں یا اخبارات کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں تو اس پر داخلی عمل کے مطابق مناسب طریقے سے کارروائی کی جائے گی۔'
بی بی سی کی کلچر ایڈیٹر کیٹی ریزل کا کہنا ہے کہ بہت سے سوالات کا جواب ابھی تک نہیں ملا ہے، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ کارپوریشن نے خاندان کی شکایت کی تحقیقات کیسے کی ہیں اور کیا یہ مناسب تھا کہ پریزنٹر، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے، کو سنگین الزامات کے بعد آن ایئر کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بی بی سی کے بیان سے لگتا ہے کہ خاندان کی جانب سے کوئی ردعمل نہ ملنے کی وجہ سے اس کی ابتدائی تحقیقات متاثر ہوئی ہیں۔