’ماں مجھے چائے دو پھر میں کھیلنے جاتا ہوں۔‘ ماں نے کہا خیال رکھا کرو، کہیں تمھیں گیند نہ لگ جائے۔ ’نہیں ماں میں ان سے دور کھیلتا ہوں۔‘
شایان اپنی ماں کو یہ جواب دینے کے بعد چائے پی کر کھیلنے چلا گیا۔ پھر اس کی میت گھر پہنچی۔ شایان کو گیند تو نہیں لگی لیکن وہ ریت کے اس ٹیلے کی نیچے دب گیا تھا جو کھیل کے میدان کے ساتھ ہی تھا۔
یہ ذکر ہے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے قریب تحصیل مارتونگ کے کز کلی کا جہاں جمعرات کو اچانک ریت کا ایک پہاڑ قریب ہی کھیلنے والے بچوں پر گر گیا تھا۔
ان بچوں اور ان کے خاندان پر گزرنے والی آفت کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں جن میں ایک گھر کے چھ بچوں، سات بہنوں کے ایک اکلوتے بھائی اور شایان کا ذکر شامل ہے، لیکن پہلے جانتے ہیں کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔
ہوا کیا تھا؟
مارتونگ میں پولیس انسپکٹر اجمل خان نے بتایا کہ شام کے وقت بچے اس میدان میں کھیلنے آتے ہیں۔
’کوئی کرکٹ کھیلتا ہے، تو کوئی یہاں ریت کے ٹیلے پر چڑھ کر کھیلتا ہے۔ اس پسماندہ علاقے میں بچوں کے لیے یہ ایک قسم کا تفریحی مقام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں واقع ریت کے ٹیلے سے لوگ ریت بھی نکالتے ہیں۔ چند روز سے یہاں ہونے والی بارش ریت کے ٹیلے کی تہہ میں دھنس رہی تھی۔ جمعرات کی شام قریباً چھ بجکر 15 منٹ پر اچانک ریت کا یہ ٹیلہ پھسل کر بچوں پر گر گیا۔ یہ ٹیلہ لگ بھگ 25 فٹ اونچا تھا۔‘
واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے مساجد میں اعلانات کیے کہ سب لوگ میدان میں پہنچیں۔
پہلے بیلچوں اور چھوٹےاوزاروں سے ریت ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے کام نہیں بنا تو اس علاقے کے یونین کونسل کے چیئرمین افتخار نے بھاری مشینری منگوانے کی کوششیں شروع کیں۔
افتخار نے بتایا کہ وہ خود قریبی پہاڑ سے شاول لے کر آئے۔ ’یہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے تھے تاہم رات ساڑھے دس بجے تک آٹھ بچوں کی میتیں ہم نے نکال لی تھیں۔‘
شانگلہ کے ضلعی پولیس افسر سجاد احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے میں ایک بچہ زندہ بچ گیا ہے جسے مقامی لوگوں نے فوری طور پر نکال لیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بچے کا جسم تو ریت میں دھنسا ہوا تھا لیکن سر باہر تھا۔ ’اس لیے اسے سانس لینے میں مشکل نہیں تھی باقی بچے مکمل دھنس گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں ان دنوں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔ ’کل رات جب یہ واقعہ ہوا تو اس کے بعد بھی شدید بارش شروع ہو گئی تھی۔‘ عام طور پر یہ علاقہ خشک اور گرم رہتا ہے اور یہاں بارشیں کم ہی ہوتی ہیں۔
BBCایک ہی خاندان کے چھ بچے
اس میدان میں گاؤں کے بچے روزانہ عصر کے بعد کھیلنے جاتے تھے۔ اس حادثہ میں دو خاندانوں کے بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
ان میں ایک ہی خاندان کے چھ بچے بھی شامل ہیں۔ اس خاندان کے ایک بزرگ عمر کریم نے بتایا کہ وہ ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہیں۔
’ہم پانچ بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور پھر ان پانچ بھائیوں کے بیٹے ہیں اور پھر ان کے بیٹوں کے بھی بچے ہیں جو سب ایک ہی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ میں خود ٹیکسی چلاتا ہوں، باقی بھائی کوئی مزدوری کرتا ہے اور کوئی مقامی سطح پر حجام کا کام کرتا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا حادثہ ہو سکتا ہے۔
’مائیں بچوں کو بار بار تلقین کرتی ہیں کہ باہر جاتے ہو تو اپنا خیال رکھو، بچے یہی کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ماں یہ سامنے ہی تو کھیل رہے ہیں۔‘
عمر کریم نے بتایا کہ ان کو فون پر علم ہوا کہ ان کے گھر کے بچے بھی حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ ’ان بچوں کی عمریں نو سال سے 12 سال کے درمیان تھیں۔‘
’ہم موقع پر پہنچے تو وہاں صورتحال بہت خراب تھی۔ ریت کے ٹیلے سے بچوں کو نکالنا انتہائی مشکل تھا۔ پھر ضلعی سطح پر فون کیے گئے، ریسکیو کے اہلکاروں سے رابطہ کیا گیا لیکن ان کے پہنچتے پہنچتے بہت وقت گزر چکا تھا۔‘
’مقامی لوگوں نے بیلچوں اور کدالوں سے ریت ہٹانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ رات دیر سے جب میشنری پہنچی تو بچوں کو نکالا گیا۔ ایک بچے کا سر اور بازو بھاری مشینری کی زد میں آ گیا جس سے اس کا چہرہ مسخ ہوگیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد ہمارے گھر میں ایک کہرام تھا، خواتین بے ہوش ہو گئی تھیں۔ انھیں ہوش میں لانے کے لیے ڈاکٹروں کو بلایا گیا۔ بچوں کی لاشیں گھر بھی نہیں لے جا سکتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کی مائیں اب بھی اپنے مکمل ہوش و حواس میں نہیں ہیں۔
شایان اور چائے کا ایک کپ
اس حادثے میں محسن شاہ کے دو پوتے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان میں نو سالہ شایان اور 13 سالہ رضا شامل ہیں۔
محسن شاہ نے بتایا کہ جمعرات کو بچے ماں سےکہنے لگے کہ ’جلدی ہمیں چائے دو پھر ہم کھیلنے جاتے ہیں۔‘
ماں شایان سے بار بار یہی کہتی رہی کہ ’خیال کیا کرو، تم چھوٹے ہو۔ وہاں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں کہیں تم گیند نہ لگ جائے۔‘
’شایان نے ماں سے کہا کہ نہیں ماں، ہم تو ان سے دور ایک سائیڈ پر کھیلتے ہیں۔ اچھا ماں، جلدی سے چائے دو ناں دیر ہو رہی ہے۔ سب بچے وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔‘
’ماں نے اسے چائے دی اور وہ روانہ ہوگیا۔‘
شایان کے ساتھ ان کا بڑا بھائی رضا بھی کھیلنے گیا تھا۔ رضا کی عمر 13 برس کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔
محسن شاہ نے بتایا کہ بچوں کے والد حفیظ اللہ سعودیہ میں کام کرتے ہیں اور ان دنوں عید کی وجہ سے پاکستان میں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا واقعہ ان کی زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ ’پورا گاؤں سوگوار ہے۔ بہن اور بھائیوں کو شایان کی باتیں یاد آتی ہیں تو رونے لگ جاتے ہیں۔ وہ چھوٹا تھا اور سب کا لاڈلا تھا۔‘
سات بہنوں کا اکلوتا بھائی
’عظمت اللہ کو تو ماں گھر سے باہر ہی نکلنے نہیں دیتی تھی۔ وہ سب کا لاڈلا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے وہ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور سب سے چھوٹا تھا۔‘
عمر کریم نے بتایا کہ ان کے بھائی شاہد کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ شاہد خود لاہور میں ایک تندور پر کام کرتے ہیں۔
’اس سے پہلے ایک بیٹا بیمار ہوگیا تھا۔ اسے لاہور لے گئے تھے لیکن اس کی بیماری کے دوران وفات ہو گئی۔‘
’اب اس کی سات بیٹیاں اور ایک ہی بیٹا رہ گیا تھا اور یہ بیٹا انھیں بہت پیارا تھا۔ بہنیں اور والدین عظمت اللہ کو گھر سے باہر بھی نہیں جانے دیتے تھے اور وہ یہی کہتا کہ ماں یہ گھر کے سامنے ہی تو کھیلنے جاتا ہوں میں کون سا دور چلا جاتا ہوں۔‘
عمر کریم نے بتایا کہ ’میدان ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے اور یہاں علاقے کے بچے کرکٹ اور دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔ چھوٹے بچے تو ریت کے ٹیلیوں کے اوپر چڑھ کر اور پھر اس سے سلائیڈ لیتے ہیں اور اس سے خوش ہوتے ہیں۔ بارش کی وجہ سے کسی نے یہ خیال نہیں کیا کہ ریت نیچے دھنس رہی ہے اور بچوں کا یہاں کھیلنا خطرناک ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں تو سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہسپتال میں آکسیجن ہوتی ہے اور ناہی دوسری سہولیات۔ اگر کوئی واقعہ ہو جائے تو شانگلہ یا سوات اور بونیر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔‘
یہ علاقہ شانگلہ کی تحصیل الپوری سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہاں بیشتر لوگ مزدوری کرتے ہیں اور ایک بڑی تعداد میں لوگ دیگر شہروں میں جا کر کام کرتے ہیں۔