نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی کی رفتار بہت کم ہے مگر ’توقع ہے آئندہ چند گھنٹوں میں وہ کیمپ ٹو تک پہنچ جائیں گے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 05, 2023

خونی پہاڑ کے نام سے مشہور نانگا پربتپر پھنسے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی نے بدھ کے روز تین بجے آذربائیجان کے کوہ پیما اسفرافی کے ہمراہ کیمپ تھری سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، ان کے قریبی دوست اور کوہ پیما ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق ’ڈاکٹر آصف بھٹی کی رفتار انتہائیکم ہے جس وجہ سے سفر بہت آہستہ ہورہا ہے۔ ہم توقع کررہے ہیں کہ آئندہ چند گھنٹوں میں وہ کیمپ ٹو تک پہنچ چائیں گے۔‘

ڈاکٹر سعید بادشاہ جو اس وقت امدادی سرگرمیوں کی نگرانیبھی کررہے ہیں، کے مطابق جب ڈاکٹر آصف بھٹی کیمپ فورپر سنو بلائینڈنیس کا شکار ہوئے اس وقت ہی وہ فراسٹبائیٹ کا بھیشکار ہو چکے تھے۔ جس کے اثرات اب مرتب ہورہے ہیں۔

ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ’ڈاکٹر آصف بھٹی کا نظر بھی کم آرہا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں استعمال کرنے میں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آذربائیجان کے کوہ پیما اسفرافی اشرلی ان کی مدد کر رہے ہیں اور وہ ان کے ہمراہ ہیں۔‘

ڈاکٹر سعید بادشاہ کےمطابق اسفرافی بہت ہمت سے کام کر رہے ہیں مگر بہت زیادہ بلندی پر اور ایک اور شخص کی مکمل مدد بہت مشکل کام ہے۔ اسفرافی کی ہمت اور جرات کی داد دینی چاہیے۔ بدھ کے روز اسفرافی اور ڈاکٹر آصف بھٹی کی مدد کے لیے دو پاکستانی کوہ پیما یونس اور فضل کو بیس کیمپ سے روانہ کیا گیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں شام پانچ بجے کیمپ ٹو میں پہنچ گئے تھے۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر آصف بھٹی اور اسفرافی کو ملنے کے لیے کیمپ ٹو سے اوپر روزانہ ہو چکے ہیں جبکہ دوسرا وہاں پر کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کررہے ہیں۔‘

’اس وقت نانگا پربت پر موسم خراب ہے مگر اس کے باوجود امید ہے کہ ڈاکٹر آصف بھٹی اور اسفرافی چند گھنٹوں میں کیمپ ٹو پر پہنچ سکیں گے‘۔

ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق ’ہمیں لگ رہا ہے کہ کیمپ ٹو پر پہنچنے کے بعد بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی کیونکہکیمپ ٹو سے انھیں زیادہ مدد کی ضرورت پڑے گئی۔ اگر موسمی حالات اجازت دیں تو ہیلی کاپیٹر کی مدد سب سے بہتر ہے ورنہ اس بات کی ضرورت ہے کہبیس کیمپ سے مزید مدد روانہ کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان کے خاندان اور تمام دوستوں اور چاہنے والوں کے ایما پر اپیل کرتا ہوں کہ اگر ہیلی کاپیٹر کی مدد میسر نہیں ہے تو ہمارے پاکستانی کوہ پیما جس میں شمشال، نگر، اوشو، سدپارہ والےماہر کوہ پیما مدد کو پہنچیں۔ یہبہت ماہر اور تگڑے کوہ پیما ہیں اور یہ اس وقت ڈاکٹر آصف بھٹیکی مدد کرسکتے ہیں۔‘

یاد رہے آصف بھٹی نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے بلند مقام پر پھنس گئے تھے اور منگل کی صبح انھوں نے دوسرے کوہپیماؤں کی مدد سے نیچے اترنے کا سفر شروع کیا تھا۔

یاد رہے اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر آصف بھٹی نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش میں کیمپ فور پر سنو بلائینڈنیس کا شکار ہو چکے ہیں جس کے بعد ان کے لیے آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تقریباً 45 سالہ آصف بھٹیپیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سےاسلام آباد کی نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور مہم جوئی کے شوقین ہیں۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق آذربائیجان کے کوہ پیما اسفرافی، آصف بھٹی کو نیچے اترنے کے سفر میں مدد کر رہے ہیں۔

کرار حیدری کے مطابق ’آصف بھٹی کو نیچے اترنے میں قدم قدم پر مدد اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مدد اور سہارا اسفرافی فراہم کررہے ہیں، جس کی بدولت ڈاکٹر آصف بھٹی کسی حد تک خطرے سے باہر نکلے ہیں۔‘

ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کرنے والے آزربائیجاں کے کوہ پیما اسفرافی54 سالہ ہیں۔ اسفرافی نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ چوٹیاں فتح کررکھی ہیں۔ وہ نانگا پربت کو فتح کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ کیمپ فور میں انھوں نے ڈاکٹر آصف بھٹی کی مدد کا فیصلہ کیا تھا۔

بیس کیمپ میں موجود لوگوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق آصف بھٹی نے اسفرافی کی مدد سے نیچے کا سفر صبح سویرے شروع کر دیا تھا۔ ان کا یہ سفر بہت آہستہ اور احتیاط سے ہو رہا ہے۔ اس وقت تک وہ کیمپ تھری میں نہیں پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیس کیمپ پر بھی رضا کار ان کی مدد کے لیے موجود ہیں۔

بدھ کے روز بی بی سی کو کئی کوہ پیماؤں اور بیس کیمپ پر موجود کوہ پیماؤں نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں کے مطابق آصف بھٹی کی مدد کے لیے آج کا دن بہت اہم ہے اور بہت کچھ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ کیمپ ٹو تک کیسے پہنچ پاتے ہیں۔

کرار حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی کی مدد کے لیے ہیلی کاپٹر تیار ہے اور صرف اس بات کا انتظار ہے کہ وہ کسی طرح کیمپ ٹو تک پہنچ جائیں تو ان کو مدد فراہم کی جائے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق ایک دوسرے واقعے میں پولش کوہ پیما پاولٹو ماسز الٹیٹیوٹ سیکنیس یا اونچائی کی بیماری کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اس سے قبل ڈاکٹر آصف بھٹی نے براڈ پیک کیآٹھ ہزار میٹر سے زائد چوٹی بھی سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی جبکہ اس سے پہلے یہ سات ہزار سے بلندسپانٹک کی چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ پانچ اور چھ ہزار میٹر کے کئی پہاڑ سر کر چکے ہیں۔

’آصف بھٹی جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اور ان کا حوصلہ بھی بلند ہے‘

قراقرم ایکپیٹیشن سے تعلق رکھنے والے اور ممتاز کوہ پیما محبوب علی نے بتایا تھا کہ’اب تک مجھے ملنے والیاطلاعات کے مطابق آصف بھٹی اس وقت جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اور ان کا حوصلہ بھی بلند ہے۔ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپسے ایک ٹیم منگل کے روز کیمپ فور کی طرف روانہ ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میری اطلاعات کے مطابق آصف بھٹی کیمپ فور پر موجود دوسرے کوہ پیماؤں کی مدد سے منگل کے روز نیچے اترنے کی کوشش کریں گے۔ یہہی سب سے بہتر طریقہ ہے انھیں اس موقع پر ہمت کرنا ہو گی کیونکہ اس وقت وہ سات ہزار میٹر سے زیادہ کی اونچائی پر موجود ہیں۔‘

محبوب علی کے مطابق ’اگر وہ اس طرح کسی بھی طریقے سےساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے کیمپٹو تک پہنچ جائیں تو وہاں سے انھیں ہیلی کاپیٹر کی مدد مل سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کیمپ فور جو کہ سات ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر واقع ہے اور کیمپ تھری جو کہ چھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر ہے وہاں پر ہیلی کاپیٹر کی پرواز آساننہیں ہوتی اور اس میں خطرات بھی موجود ہوتے ہیں۔

محبوب علی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ’آنے والے ایک دو دونوں میں نانگا پربت پر برفباریاور تیز ہواؤں کی پیش گوئی بھی موجود ہے۔‘

کرار حیدری کے مطابق ’اس وقت کوشش کی جا رہی ہے اور ایک منصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر آصف بھٹی کواس مقام پر لے آیا جائے جہاں پر آسانی سے ان کو ہیلی کاپیٹر کے ذریعے سے لفٹ کیا جا سکے۔ اس کے لیے بیس کیمپ سے کچھ کوہ پیما بھی روانہ ہوں گے اور اس کے علاوہ نانگا پربت کو سر کرنے والے کوہ پیما جو کہ اس وقت کیمپ فور میں ہیں وہ بھی مدد فراہم کریں گے۔‘

AFPسنو بلائینڈنیس کیا ہے؟

محبوب علی کے مطابق نانگا پربت جیسےبلند پہاڑوں پر سنو بلائینڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کے بہت اچھے چشمے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو روشنی اور دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ری فلیشکن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا ہے۔‘

محبوب علی کے مطابق ’وقتی طور پر اس سے مسائل ہوتے ہیں بالخصوص اتنی بلندی پر تو بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب اتنی بلندی پر آنکھیں کھولنا ممکن ہی نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹروں کے مطابق سنو بلائینڈنیس فوٹو کیریٹائٹسائر کی ایک شکل ہےجو برف اور برف سے منعکس یا ری فلیکشن سے ہونے والی الٹر اوائلٹشعاعوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے اور اکثر وقتیہوتی ہے۔

یاد رہے نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس چوٹی کو فتح کرنے کی خواہش میں اب تک 86 کوہ پیما زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس پر ہلاکتوں کی شرح 21 فیصد ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More