Getty Imagesپاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں سنہ 1970 اور 1977 میں تلوار کے نشان پر عام انتخابات میں حصہ لے چکی ہے
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیر حسین بخاری نے انتخابی نشان تلوار جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے تیر کے انتخابی نشان کے لیے الیکشن کمیشن میں درخوست جمع کروا دی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے یکم جولائی کو سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات کے حصول کے لیے 19 جولائی تک درخواست جمع کروانے کی ہدایت کی تھی جس کے جواب میں بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی نشانات الاٹ کروانے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا ہے۔
مگر آپ کے ذہن میں یہ بات ضرور آ رہی ہو گی کہ پیپلز پارٹی تیر کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیتی ہے تو اسے تلوار کے نشان کی کیا ضرورت ہے؟
ذیل میں لکھی گئی تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی کے صفحات پر 30 مئی 2018 کو اس وقت شائع ہوئی تھی جب عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کو انتخابی نشان تلوار جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کو انتخابی نشان تیر الاٹ کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس رپورٹ کو آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
جس طرح فوج کے کسی کیڈٹ کو جب 'سورڈآف آنر' ملتی ہے تو وہ پھولا نہیں سماتا بالکل اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر بھی انتخابی نشان تلوار ملنے پر اتنے ہی خوش نظر آ رہے ہیں۔
سینیٹر تاج حیدر کا شمار پیپلز پارٹی کے سینیئر ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ پارٹی کے بنیادی کارکنوں میں شامل رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں سنہ 1970 اور 1977 میں تلوار کے نشان پر عام انتخابات میں حصہ لے چکی ہے۔
تلوار نشان کیسے آیا؟
تاج حیدر کا کہنا ہے کہ پارٹی کے بانی کا نام ذوالفقارعلی بھٹو تھا اور ذوالفقار چوتھے خلیفہ حضرت علی کی تلوار تھی، لہذا اس وقت دستیاب نشانات میں مناسب نشان تلوار ہی تھا۔ ہم جب بھی اپنے بینروں اور پوسٹروں پر تلوار کا نشان بناتے تھے تو اس پر یہ مصرع لکھتے تھے ’لافتی الا علی، لا سیف الا ذوالفقار‘ لیکن بعد میں یہ تلوار ہم پر ہی چلائی گئی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق ذوالفقار پیغمبر اسلام کی تلوار تھی جو انھوں نے جنگ احد کے موقعے پر حضرت علی کو تحفے میں دی تھی۔
تاج حیدر کے مطابق پیپلز پارٹی نے سنہ 1970 اور 1977 کے انتخابات تلوار کے نشان پر ہی لڑے لیکن جب جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کیا اور سنہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو انتحابی نشانات کی فہرست سے تلوار کا نشان ہی ہٹا دیا گیا۔
تیر اور ترانہAFPبینظیر بھٹو کی قیادت میں یہ پہلے انتخابات تھے جس میں پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان پر انتخاب لڑا
پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا الحق کی 17 اگست 1988 کو فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ بینظیر بھٹو کی قیادت میں یہ پہلے انتخابات تھے جس میں پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان پر انتخاب لڑا۔
سینیٹر تاج حیدر کے مطابق سنہ 1988 کے انتخابات میں بھی انتخابی نشانات کی جو فہرست آئی اس میں تلوار شامل نہیں تھی جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اس سے ملتے جلتے تیر کے نشان کا انتخاب کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا ترانہ ’دلاں تیر بجا دشمناں تئی‘ متعارف کرایا گیا تاکہ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ اب ہمارا نشان تلوار نہیں تیر ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا قیام Getty Imagesپاکستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین سابق صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں موجود ہیں اور دونوں کے تنظیمی ڈھانچے الگ الگ ہیں
پاکستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین سابق صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں موجود ہیں اور دونوں کے تنظیمی ڈھانچے الگ الگ ہیں۔
سنہ 1999 میں نواز شریف کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کو جسٹس ملک محمد قیوم کی سربراہی میں احتساب عدالت نے نااہل قرار دیا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا قیام عمل میں لایا گیا۔
سینیٹر تاج حیدر کے مطابق بینظیر بھٹو نے احتساب بیورو کے اس وقت کے سربراہ سیف الرحمان، جسٹس ملک محمد قیوم اور شہباز شریف کے درمیان بات چیت کی ٹیپس سپریم کورٹ میں پیش کیں جس کے بعد اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا۔
’یہ سزا سنائی جا چکی تھی کہ بینظیر بھٹو انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں، وہ پارٹی کی سربراہ تھیں اس لیے پارٹی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تب پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم تھے۔ اس جماعت نے پھر تیر کا نشان حاصل کر کے انتخابات میں حصہ لیا، سزا کالعدم ہونے کے بعد بینظیر بھٹو بھی انتخابات میں شریک ہوئیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی پھر بھی بحال نہیں ہوئی۔‘
AFPپیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والی ناہید عباسی نے بھی الیکشن کمیشن میں درخواست تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا نام اور تیر نشان انھیں دیا جائے
بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو نے پاکستان کے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انھیں پارٹی کے نام کے ساتھ تلوار کا نشان الاٹ کیا جائے۔
پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والی ناہید عباسی نے بھی ماضی میں الیکشن کمیشن میں درخواست دی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا نام اور تیر نشان انھیں دیا جائے تاہم الیکشن کمیشن نے یہ دعوے مسترد کرکے تقریباً 41 سالوں کے بعد یہ نشان بلاول بھٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کو دیکر پارٹی کو بحال کر دیا ہے۔
تلوار یا تیر
پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بینظیر بھٹو نے تمام انتخابات تیر کے ہی اتنخابی نشان پر لڑے جبکہ بعد میں آصف علی زرداری کی قیادت میں بھی تیر کے نشان پر ہی ووٹ لیے گئے لیکن اب آصف زرداری کی سربراہی میں پارٹی کے پاس تیر جبکہ بلاول بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کے پاس انتخابی نشان تلوار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینملک میں ہونے والے عام انتخابات تیر کے نشان پر ہی لڑے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں جماعتیں اور نشانات کو رکھنا ضروری کیوں ہے؟
سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ خطرات ہمیشہ رہتے ہیں۔ سنہ 2013 میں یہ خدشہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کو ہی کہیں کالعدم قرار نہ دے دیا جائے، خطرات اب بھی ہیں کہ الیکشن کمیشن یا جو کام کرنے والے ہیں ان کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی مقدمہ یا ایسی کوئی چیز آ جائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پھر انتخابات سے دور رکھا جائے اس لیے پارٹی نے دونوں انتخابی نشانات اپنے پاس رکھے ہیں۔