BBC
بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر جنسی تشدد کرنے والے افراد یعنی پیڈوفائلز مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن مواد بناتے اور فروخت کرتے ہیں۔
کچھ صارفین ایسی ویب سائٹس، جیسے ’پیٹریان‘ جو اس طرح کا مواد شیئر کرتی ہے، کو پیسے دے کر ایسی تصاویر اور ویڈیوز تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔
پیٹریان کا کہنا ہے کہ ان کی سائٹ پر اس طرح کی تصاویر سے متعلق ’زیرو ٹالرنس‘ پالیسی ہے۔ پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ مضحکہ خیز ہے کہ کچھ پلیٹ فارمز بڑی کمائی کر رہے ہیں مگر اپنی اخلاقی ذمہ داری نہیں نبھاتے۔
اس طرح کی تصاویر بنانے والے اپنے ایسے مذموم مقاصد کے لیے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر ’سٹیبل ڈِفیوژن‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سافٹ ویئر کا بنیادی مقصد ایسی تصاویر تیار کرنا تھا جو گرافک ڈیزائن کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت کمپیوٹرز کو اس طرح کے کام سونپتے ہیں جن کے لیے عام طور پر انسانی اٹیلیجنس کی ضرورت ہوتی ہے۔
سٹیبل ڈفیوژن نامی سافٹ ویئر صارفین کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جلد اپنی من مرضی کی تصویر حاصل کر سکیں۔
مگر بی بی سی کو ایک تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ یہ سافٹ ویئر بچوں پر جنسی تشدد کی تصاویر بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تصاویر میں چھوٹے بچوں کے ریپ جیسی تصاویر بھی شامل ہیں۔
آن لائن بچوں پر تشدد کی تحقیقات کرنے والی برطانوی پولیس کے ٹیموں کا کہنا ہے کہ انھیں ایسی تصاویر ملی ہیں۔
BBC
محقق اور صحافی اوکتاویا شیپ شینک اس معاملے کی کئی ماہ تک تحقیق کر رہی ہیں۔ انھوں نے اپنی تحقیق سے متعلق بتانے کے لیے بچوں کے خیراتی ادارے این ایس پی سی سی کے ذریعے بی بی سی سے رابطہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب سے مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کردہ تصاویر ممکن ہوئیں تب سے آن لائن اس کا ایک سیلاب دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ معاملہ صرف نوجوان لڑکیوں سے متعلق ہی نہیںبلکہ پیڈوفائلز کے ذریعے اب یہ دودھ پیتے بچوں تک پہنچ گیا ہے۔‘
ایک فرضی تصویر کمپیوٹر کے ذریعے بچوں پر تشددد ظاہر کرتی ہے۔ وہ تصویر ایسی دکھائی دیتی ہے جیسے وہ اصلی ہو۔ برطانیہ میں ایسی تصاویر رکھنا، انھیں شائع کرنا یا انھیں آگے بھیجنا غیرقانونی عمل ہے۔
نیشل پولیس چیفس کونسل، جو بچوں کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے، کی ایان کرچلے کا کہنا ہے کہ یہ دلیل دینا غلط ہوگا کہ چونکہ ان تصاویر میں کوئی بھی حقیقی بچہ نہیں دکھایا گیا، اس لیے اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
انھوں نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی تصویر سے بھی ایک بچے کے ساتھ تشدد کی نوبت آسکتی ہے۔
یہ تشدد والی تصاویر تین مراحل میں شیئر کی جاتی ہیں:
پیڈوفائلز مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر کو استعمال کرتے ہوئے تصاویر تیار کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تصاویر کو مختلف پلیٹ فارمز پر پروموٹ کرتے ہیں، جیسے جاپان کی ویب سائٹ ’پیکسیو‘یہ اکاؤنٹس صارفین کو ان کی زیادہ واضح تصاویر کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہیں، جنھیں یہ صارفین پیٹریان جیسی سائٹس پر دیکھنے کے لیے ادائیگی کر سکتے ہیں
کچھ لوگ ان تصاویر کو پیکسیو پر شیئر کرتے ہیں جو کہ آرٹسٹ ’مانگا‘ یعنی جاپان کی فنون لطیفہ والی کتب اور ’اینیمی‘ یعنی ’اینیمیشن‘ شیئر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
چونکہ یہ سائٹ جاپان سے چلائی جاتی ہے جہاں بچوں کے جنسی نوعیت والے کارٹون اور ڈرائنگز شیئر کرنے پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں ہے تو ایسے میں لوگ یہ تصاویر مختلف گروپس میں شیئر کرتے ہیں اور چیدہ چیدہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے ہیش ٹیگ کے ذریعے یہ سب کرتے ہیں۔
جاپانی سائٹ پیکسیو کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے 31 مئی کو کہا تھا کہ سائٹ نے ایسے مواد، جس میں بچوں سے متعلق تصاویر ہوں، پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
جاپانی کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ وہ فعال طریقے سے اپنے مانیٹرنگ سسٹم کو مضبوط بنا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے خاطر خواہ وسائل بھی مختص کر رہی ہے تاکہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ہونے والی پیشرفت کے درمیان ایسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
صحافی اوکتاویا نے بی بی سی کو اپنی تحقیق سے متعلق بتاتے ہوئے کہا ہے کہ صارفین اب بچوں پر جنسی تشدد کی ان تصاویر کو صنعتی پیمانے پر بنا رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسی تصاویر بڑے پیمانے پر بنائی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ان تصاویر کو بنانے والے کہتے ہیں کہ وہ مہینے میں کم از کم ایسی ہزار تصاویر بناتے ہیں۔
پیکسیو کی انفرادی تصاویر پر صارفین کے تبصروں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں میں جنسی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کچھ صارفین نے ایسی تصاویر اور ویڈیوز فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے جو کہ حقیقی ہیں۔
وہ اس پلیٹ فارم پر موجود کچھ گروپس کو مانیٹر کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان گروپوں کے اندر، جن کے 100 ممبر ہوں گے، لوگ یہ اس طرح شیئر کر رہے ہوں گے کہ ’اوہ یہ ہے لنک ایسی حقیقی تصاویر کا۔‘
ان کے مطابق سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ وہ اس طرح کے ’دی ڈسکرپشن‘ جیسے الفاظ بھی موجود ہیں، یعنی بظاہر اسے حقیقت سے جوڑا جاتا ہے۔
ماہانہ فیس مواد کی نوعیت کے مطابق
پیکسیو پر متعدد اکاؤنٹس ایسے ہیں جہاں ان کی ’سوانح عمری‘ کے لنکس شامل ہوتے ہیں، جو صارفین کو ان کے ’غیر سینسر شدہ مواد‘ تک لے جاتے ہیں یعنی اس سے پیٹریان کے غیر سینسرشپ والے مواد تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔
پیٹریان کی قیمت تقریباً چار بلین ڈالر بنتی ہے۔ اور اس سائٹ کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ ڈھائی لاکھ سے زائد کریئٹرز (تخلیق کاروں) کے اکاؤنٹس ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اکاؤنٹس قانونی اعتبار سے درست ہیں جن میں مشہور شخصیات، صحافی اور مصنفین شامل ہیں۔
صارفین ماہانہ تقریباً چار ڈالر تک ادا کر کے ان بلاگز، پوڈکاسٹ، ویڈیوز اور تصاویر تک رسائی حاصل کر سکتےہیں۔
بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیٹریان کے اکاؤنٹس مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد، حقیقت پسندانہ بچوں کی فحش تصاویر مختلف قیمت پر فروخت کے لیے آفر کرتے ہیں۔ قیمت کا تعین مواد کی نوعیت کے حساب سے کیا جاتا ہے۔
ایک صارف نے اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’میں اپنی لڑکیوں کو اپنے کمپیوٹر پر تربیت دیتا ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ بالکل کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرتی ہیں۔ ایسے مواد تک رسائی کے لیے ماہانہ 8.30 ڈالر فیس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بی بی سی نے ایسے ایک اکاؤنٹ کی تفصیل پیٹریان کو بھیجی تو کمپنی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس اکاؤنٹ پر مواد کمپنی کی پالیسی کے خلاف تھا، جس وجہ سے اس اکاؤنٹ کو سائٹ سے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔
پیٹریان نے مزید کہا کہ ان کی اس حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔ کمپنی کے مطابق ’کریئٹرز ایسے مواد کے لیے فنڈ نہیں دے سکتے جو نابالغوں پر مشتمل جنسی موضوعات کے لیے وقف ہو۔‘
کمپنی نے کہا کہ انٹرنیٹ پر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ نقصان دہ مواد میں اضافہ ’حقیقی اور پریشان کن‘ ہے۔ پیٹریان نے مزید کہا کہ انھوں نے اس طرح کے مواد کے حجم کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ اسے سائٹ سے بھی ہٹا دیا ہے۔
کمپنی کے مطابق ’ہم پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ بچوں کے استحصال پر مبنی مواد پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔‘
پیٹریان کے مطابق وہ اس طرح کے مواد کو ہٹانے کے لیے بہت فعال ہے، بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی اور شراکت کے ساتھ کمپنی کی مخصوص ٹیمیں ایسے مواد کی نگرانی کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مصنوعی ذہانت: روبوٹ کے لیے آسان کام مشکل اور مشکل کام آسان کیوں ہوتا ہے؟
مصنوعی ذہانت انسانوں کی معدومیت کا باعث بن سکتی ہے: ماہرین کا انتباہ
مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟
BBC
واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت سے مواد تیار کرنے والا سافٹ ویئر سٹیبل ڈیفیوژن ماہرین تعلیم اور متعدد کمپنیوں کے درمیان عالمی تعاون کے طور پر بنایا گیا تھا، جس کی قیادت برطانوی کمپنی ’سٹیبیلٹی اے آئی‘ کر رہی تھی۔
کوڈ میں لکھی گئی پابندیوں کے ساتھ کئی ورژن جاری کیے گئے ہیں جو مواد کی قسم کو کنٹرول کرتے ہیں جو بنایا جا سکتا ہے۔
لیکن گذشتہ سال یہ کوڈ اوپن سورس کیا گیا، یعنی عوام تک اس کی رسائی ممکن ہوگئی۔ اس نے صارفین کو کسی بھی فلٹر کو ہٹانے اور اسے غیر قانونی تصویر سمیت کسی بھی تصویر کو تیار کرنے کی تربیت دینے کی اجازت دی تھی۔
’سٹیبیلٹی اے آئی‘ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پلیٹ فارمز کو غیر قانونی یا غیر اخلاقی مقاصد کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔ ہماری پالیسیاں واضح ہیں کہ اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ممانعت ہے۔‘
کمپنی کے مطابق ’ہم ان لوگوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، جو ہماری مصنوعات کو غیر قانونی یا مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
جیسا کہ مصنوعی ذہانت کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے، مستقبل کے خطرات کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں، جو اس سے لوگوں کی رازداری، انسانی حقوق یا تحفظ کو لاحق ہو سکتے ہیں۔
ایان کرچلی کے مطابق انھیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ حقیقت پسندانہ مصنوعی ذہانت بدسلوکی کے اصل کیسز پر تحقیقات کے عمل کو روک سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ پولیسنگ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے اضافی طلب پیدا کرتا ہے تاکہ اس بات کی نشاندہی کی جا سکے کہ ایک حقیقی بچہ، دنیا میں کہیں بھی ہو، مصنوعی یا مصنوعی بچے کے مقابلے میں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔‘
ایان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرے کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔
ان کے مطابق ’ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی نوجوانوں کو شاندار مواقع فراہم کریتا ہے۔ یا یہ بہت زیادہ نقصان دہ جگہ بن سکتی ہے۔‘