’لوگوں نے کہا میں بُنائی کرتا ہوں تو میں مرد نہیں، اب وہی لوگ کاروبار کو سراہتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 28, 2023

BBC

رنگ برنگی اُون سے بنے ہرن کا سر ایک دیوار پر لگا ہے اور اس کے اِرد گرد خوبصورت وال ہینگنگز ہیں۔ فرش پر دلکش رنگوں کے دھاگے، اون کی گیندیں اور مختلف سائز کے کروشے اور سلائیاں پڑی ہیں۔

اسی جگہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے 24 سالہ نذر ناصر ہیں جو کروشے سے ایک ڈیکوریشن پیس بنا رہے ہیں۔

نذر کو اپنے اس تخلیقی جنون کی خاطر گھر کے اندر اور باہر بہت کچھ سہنا اور سُننا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے تو گھر میں ہی سب نے کہا کہ تیرا مسئلہ کیا ہے، لڑکیوں کا کام کیوں کرتے ہو، پھر پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے بھی مذاق اُڑایا لیکن میں پیچھے نہیں ہٹا کیونکہ مجھے کروشے کی بُنائی سے سکون ملتا ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سرینگر کے رہنے والے نذر ناصر اب کروشے بُنائی کو اپنا مستقل روزگار بنا چکے ہیں اور ان کی بنائی چیزیں آن لائن پورے انڈیا میں فروخت ہورہی ہیں۔

’ٹائم پاس کے لیے یہ کام شرع کیا، اب کسی اور چیز کے لیے وقت نہیں‘

2016 میں کشمیر کی شدت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے مقبول کمانڈر برہان وانی ایک جھڑپ میں مارے گئے تو وادی بھر میں احتجاجی تحریک شروع ہو گئی، جسے دبانے کے لیے نہ صرف کئی ماہ تک کرفیو اور ہڑتال رہی بلکہ حکام نے طویل عرصے تک انٹرنیٹ اور موبائل فون سہولیات کو بھی معطل کر دیا۔ سب لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔

بوریت سے بچنے کے لیے نذر نے اپنی ماسی سے کہا کہ وہ اُنھیں کروشے پر بُنائی سِکھائیں۔

’سکول بند تھے اور کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ماسی کو کروشے سے بُنتے دیکھا، تو میں نے کہا مجھے سِکھا دیں۔ سوچا ٹائم پاس ہوجائے گا لیکن اب اس میں اتنا مصروف ہوں کہ کسی اور چیز کے لیے ٹائم ہی نہیں۔‘

جب حالات بہتر ہو گئے اور انٹرنیٹ بحال ہو گیا تو نذر نے کروشے اور نارمل بُنائی کے مزید گُر انٹرنیٹ سے سیکھے۔

وہ اس وقت انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہے ہیں لیکن اب کروشے آرٹ ہی اُن کا کیریئر بن گیا ہے۔

’تعلیم تو مکمل کروں گا لیکن اب اسی فن کو آگے بڑھاوٴں گا کیونکہ اچھی خاصی کمائی بھی ہوتی ہے اور دل کو سکون بھی ملتا ہے۔‘

BBC’تخلیقی کام سے ڈپریشن دُور ہوتا ہے‘

نذر کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے سے اُن کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ’میری ذاتی زندگی میں ایک مسئلہ تھا، میں بہت پریشان رہتا تھا لیکن جوں ہی میں نے کروشے پر بُنائی شروع کی تو میں ٹھیک ہوگیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ذہنی تناوٴ کو تخلیقی مصروفیت سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔‘

نوزائیدہ بچوں کے لیے موزے اور سویٹر، گھریلو آرائیش کی چیزیں، میز پوش، پھول دان، کھلونے، مفلر، سکارف اور بہت ساری چیزیں ہیں، جنھیں نذر نہایت خوبصورت اور باریک ڈیزائن کے ساتھبناتے ہیں۔

ہمارے ساتھ بات کرتے وقت وہ ایک نوزائیدہ بچے کی سویٹر بنا رہے تھے، جس کے لیے آرڈر گجرات کے دارالحکومت احمد آباد سے آیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی میری ویب سائٹ نہیں۔ انسٹاگرام پر لوگ مجھے آرڈر دیتے ہیں اور میں چیزیں تیار کر کے ڈیلیور کرتا ہوں۔‘

’کوئی کام مرد یا عورت کے لیے خاص نہیں‘

حالانکہ خواتین کے کپڑوں اور شال وغیرہ پر طلہ دوزی کا کام صدیوں سے مرد ہی کرتے ہیں لیکن کشمیر میں بُنائی کو صرف خواتین سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔

’بہت سارے لڑکوں کو میں جانتا ہوں، جو مجھے دیکھ کر اب ہمت کرتے ہیں اور یہ کام سیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک نیٹ ورک بنایا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ کوئی کام مرد یا عورت کے لیے خاص نہیں۔‘

نذر ناصر سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہو گئے ہیں اور ان کا کاروبار چل پڑا ہے۔ اب والدین سمیت وہ سب لوگ بھی ان کی تعریف کرتے ہیں جنھوں نے چند برس قبل ان کا مذاق اُڑایا تھا۔

’سوشل میڈیا پر اچھے کمنٹس بھی ملتے ہیں اور بُرے بھی۔ کچھ لوگوں نے میرے صنف کو بھی چیلنج کیا، ان کا مطلب تھا کہ اگر میں کروشے سے بُنائی کرتا ہوں تو اس کا مطلب میں مرد نہیں ہوں۔ صدیوں کی غلط سوچ کا نتیجہ دیکھیے کہ صرف ایک کام کی وجہ سے لوگ کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔‘

تاہم نذر کا کہنا ہے کہ انڈیا بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے ان کے کام کو سراہا ہے اور بعض لوگوں نے ان کی مدد بھی کی ہے۔

’بڑا مسلہ دھاگے اور اون کا ہے۔ پہلے تو میں یہیں دکان سے خریدتا تھا لیکن کوالٹی کا مسئلہ رہتا ہے۔ اس لیے میں اب آن لائن خریداری کرتا ہوں۔‘

نذر کی بنائی چیزوں کا مانگ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک کارخانہ لگائیں جہاں کروشے آرٹسٹوں کی ٹیم ہو اور آرڈر کم وقت میں مکمل ہوسکیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More