دورۂ امریکہ کے بعد انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی آج کل دو روزہ دورے پر مصر میں موجود ہیں جہاں انھوں نے صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی اور پھر قاہرہ کی تاریخی ’مسجد الحاكم بأمر الله‘ کا دورہ کیا۔
مصر کی مسجد الحاكم بأمر الله 11ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی مگر اس کی بحالی کا کام تین ماہ قبل مکمل ہوا اور بحالی کے اس کام کے لیے عطیہ انڈیا کی داؤدی بوہرہ برادری نے فراہم کیا ہے۔
مسجد پہنچنے پر مودی نے دیواروں اور دروازوں پر بنے نقش و نگار کا معائنہ کیا اور وہاں موجود لوگوں سے خطاب کیا۔
سنہ 1979 میں میں یونیسکو نے اس مسجد کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
مودی نے اس کے علاوہ وہاں جنگ کی یادگار ہیلیوپولس کامن ویلتھ وار وار سمیٹری کا بھی دورہ کیا۔ انھوں نے ان ہندوستانی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جنھوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران مصر کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
یہ مودی کا مصر کا پہلا دورہ ہے اور سنہ 1997 کے بعد بھی یہ کسی انڈین وزیر اعظم کا مصر کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔
مصر کا دارالحکومت قاہرہ اپنے اسلامی فن تعمیر کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں مختلف ادوار کی اسلامی عمارتیں اور مساجد موجود ہیں اور انھیں میں سے ایک مسجد الحاکم ہے۔
پروفیسر ڈورس بہرنس ابوسیف نے اپنی کتاب ’اسلامک آرکیٹیکچر ان قاہرہ: ایک تعارف‘ میں مسجد الحاکم کے بارے میں لکھا کہ یہ غیر معمولی حالات میں تعمیر کی گئی۔
مسجد کی تعمیر دسویں صدی کے آخر میں فاطمی خلافت کے پانچویں خلیفہ العزیز نے شروع کی تھی۔
خلافت فاطمی کے حکمران عرب نسل سے تعلق رکھتے تھے اور خود کو پیغمبر اسلام کی نسل میں سے قرار دیتے تھے۔
تعمیر شروع ہونے کے ایک سال بعد پہلی نماز مسجد میں ادا کی گئی تاہم عمارت ابھی تک مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوئی تھی۔
مؤرخین کا خیال ہے کہ اس وقت تک مسجد میں صرف نماز کا کمرہ بنایا گیا تھا۔
اس نامکمل مسجد میں تقریباً 12 سال تک مسلسل نمازیں ہوتی رہیں۔ امریکی مؤرخ جوناتھن ایم بلوم نے اپنی کتاب ’دی ماسک آف الحاکم ان قاہرہ‘ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔
مسجد دس سال بعد 1013 میں مکمل ہوئی۔ اس وقت مسجد کی لمبائی 120 میٹر اور چوڑائی 113 میٹر تھی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 45 ہزار دینار تھی۔
اس وقت مسجد قاہرہ شہر کی دیواروں سے باہر تھی۔ لیکن 1087 میں آبادی میں اضافے اور مکانوں کی تعمیر کے باعث مسجد شہر کی حدود میں پہنچ گئی۔
یہ کام فاطمی خلافت کے آٹھویں خلیفہ المستنصر کے وزیر بدر الجمالی نے کیا۔ بدر الجمالی نے قاہرہ شہر کی شمالی دیوار کو مسجد تک بڑھا دیا۔
Getty Imagesجب مسجد کو نقصان پہنچا
مصر میں 13ویں صدی کے وسط میں مملوک سلطنت کی حکمرانی قائم ہوئی۔ سنہ 1303 میں مصر میں زلزلہ آیا جس کی وجہ سے اہرام غزہ کے ساتھ کئی مساجد کو بھی نقصان پہنچا۔ مسجد الحاکم تباہ ہونے والی مساجد میں سے ایک تھی۔
اس کے بعد مملوک سلطان ابو الفتح نے اس کی مرمت کروائی۔ اس وقت مسجد اسلامی تعلیم کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔
مصنفہ کیرولین ولیمز اپنی کتاب ’اسلامک مونومینٹس ان قاہرہ: ایک عملی گائیڈ‘ میں کہتی ہیں کہ ’مسجد کے کمپلیکس کو مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا گیا۔‘
اس مسجد کو مسیحیوں کی صلیبی جنگوں کے دوران جیل کے طور پر استعمال کیا، ایوبی سلطنت کے صلاح الدین کے دور میں یہ بطور اصطبل استعمال ہوئی، 1890 کی دہائی میں اسلامی آرٹ میوزیم کے طور پر، نپولین کے دور میں قلعے کے طور پر، اور پھر 20ویں صدی میں لڑکوں کے سکول کے طور پر استعمال کیا گیا۔
Getty Imagesداؤدی بوہرہ برادری کی امداد
سنہ 1970 کی دہائی کے آخر میں مسجد کی تزئین و آرائش کا کام دوبارہ شروع ہوا۔
داؤدی بوہرہ برادری کے 52ویں مذہبی رہنما محمد برہان الدین نے تعمیراتی کام کی ذمہ داری سنبھالی۔ محمد برہان الدین کا تعلق انڈیا سے ہے اور حکومت ہند نے انھیں سماجی شعبے میں ان کی شراکت کے لیے بعد از مرگ سرکاری اعزاز پدم شری سے نوازا تھا۔
مسجد الحاکم کی تعمیر نو میں سفید سنگ مرمر اور سونے کی سجاوٹ کا استعمال کیا گیا۔ تعمیر نو کے کام میں 27 ماہ لگے۔
اس کے بعد مسجد کا باقاعدہ افتتاح 24 نومبر 1980 کو ہوا۔ مسجد کے افتتاح کے لیے شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب میں مصر کے اس وقت کے صدر انور سادات، مذہبی رہنما محمد برہان الدین، اعلیٰ سرکاری افسران اور جامعہ الازہر سے وابستہ مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔
سنہ 2017 میں تقریباً چار دہائیوں کے بعد داؤدی بوہرہ کمیونٹی اور مصر کی وزارت سیاحت اور نوادرات نے مسجد کے حوالے سے ایک مشترکہ اقدام شروع کیا۔
اس کے تحت مسجد کی عمارت کی تعمیر نو اور مسجد کی دیواروں کو نمی سے بچانے کے لیے کام شروع کیا گیا اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے گئے۔
یہ منصوبہ 2017 میں شروع کیا گیا تھا اور 2023 تک جاری رہے گا۔ اس منصوبے پر گذشتہ چھ سالوں میں 20 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوئے۔
مصر کی چوتھی قدیم اور دوسری بڑی مسجد الحاکم کو رواں سال فروری میں سیاحوں کے لیے کھولا گیا تھا۔
Getty Imagesداؤدی بوہرہ برادری مودی کے دورۂ مصر کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟
بی بی سی نے وزیراعظم کے مسجد الحاکم کے دورے اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے داؤدی بوہرہ برادری کے افراد سے بات کی ہے۔
ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے والے ڈاکٹر طالب یوسف نے کہا کہ یہ داؤدی بوہرہ برادری کے ساتھ ساتھ پورے انڈیا کے لیے قابل فخر لمحہ ہے۔
داؤدی بوہرہ انڈیا میں ایک چھوٹی سی برادری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم مودی کو مسجدِ الحاکم کا دورہ کرتے ہوئے دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کو ملک کے اتحاد اور سالمیت کا پیغام جائے گا۔‘
ڈاکٹر طالب نے مسجد کے بارے میں کہا کہ ’مصر کی تاریخی مسجد الحاکم داؤدی بوہرہ کمیونٹی کے لیے خاص ہے جو پوری دنیا میں آباد ہیں۔ مذہب اسلام کی پیروی کرنے والے تمام کمیونٹیز کے لوگ یہاں آتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔‘
وزیر اعظم مودی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بوہرہ برادری کے ایک اور شخص نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کو بوہرہ برادری سے اس وقت سے لگاؤ ہے، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
Getty Images
’جب وزیر اعظم مودی بیرون ملک سفر کرتے ہیں، اگر وہ وہاں داؤدی بوہرہ کمیونٹی کے لوگوں کو دیکھتے ہیں، تو وہ ان سے ملتے ہیں اور ان کے ساتھ بڑے پیار سے بات چیت کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کا تعلق گجرات سے ہے۔ گجرات میں داؤدی بوہروں کی خاصی تعداد ہے۔ یہ باہمی محبت ہے۔‘
اس مسجد کا رقبہ اب 13 ہزار 560 مربع میٹر پر محیط ہے۔ اس کے وسط میں پانچ ہزار مربع میٹر کا ایک بڑا صحن ہے۔ صحن کے چاروں طرف بڑے بڑے ہال بنائے گئے ہیں۔
مسجد کے دونوں مینار بھی منفرد طرز پر بنائے گئے ہیں جو مسجد کے ابتدائی دنوں میں تعمیر کیے گئے تھے۔
دونوں میناروں کا ڈیزائن بالکل اصلی ہے۔ یہ اس وقت دنیا کے دیگر حصوں میں مسجدوں کے میناروں سے مختلف تھے۔
ان میناروں کا باہری حصہ اور بنیاد مملوک طرز کی ہے جبکہ اندرونی حصہ فاطمی طرز کا۔
مسجد کا مرکزی حصہ اور مینار پتھر سے بنے ہیں۔ اینٹ کا استعمال باقی ڈھانچے میں کیا گیا ہے۔ اس کے کل تیرہ دروازے ہیں۔ صحن کے وسط میں پانی کی جگہ ہے۔
مودی نے بیرون ملک اب تک کن مساجد کے دورے کیے
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مودی نے غیر ملکی دورے پر کسی مسجد کا دورہ کیا ہو۔ مودی اپنے پچھلے دوروں میں بھی مساجد پر حاضری دے چکے ہیں۔
شیخ زید مسجد: جب اگست 2015 میں مودی متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے پر گئے۔ سفر کے پہلے دن مودی نے تاریخی شیخ زید مسجد کا دورہ کیا تھا۔
سلطان قابوس مسجد: فروری 2018 میں مودی نے مغربی ایشیا کے ممالک بشمول اردن، فلسطین، متحدہ عرب امارات اور عمان کا دورہ کیا۔ مودی عمان کے دارالحکومت مسقط میں سلطان قابوس مسجد گئے تھے۔ یہ عمان کی سب سے بڑی مسجد ہے جو ہندوستانی پتھر سے بنی ہے۔
مسجد جامع: پی ایم مودی نے جون 2018 میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور کا دورہ کیا تھا۔ سنگاپور کے دورے کے دوران مودی نے پہلے سری ماريمان مندر کا دورہ کیا اور پھر مسجد جامع پہنچے۔ یہ مسجد تمل مسلمانوں کی ایک برداری نے بنائی تھی۔
استقلال مسجد: انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں واقع یہ مسجد دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی 2018 میں اس مسجد کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدوڈو بھی ان کے ہمراہ تھے۔