روسی صدر پوتن کے اقتدار میں ایسی دراڑیں سامنے آئی ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھیں: امریکہ

بی بی سی اردو  |  Jun 25, 2023

Getty Images

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے روس کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بتانا قبل از وقت ہو گا کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے۔ وہ روس کی اس صورتحال کو ابھی ایک جاری تنازع قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخر میں کیا ہو گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

سی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے روسی صدر پوتن کے اقتدار میں ایسی دراڑیں دیکھی ہیں جو پہلے نہیں تھیں۔‘

اینٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ اس کی شروعات ویگنر جنجگوؤں کے سربراہ یوگینی پریگوزن کے یوکرین جنگ کی بنیاد پر سوال اٹھانے سے ہوئی تھی، اور اب وہ ’خود پوتن کے لیے براہ راست چیلنج‘ بن چکے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے بہت سے سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مل جائیں گے۔‘

روس: ویگنر کے سربراہ ماسکو کی طرف پیش قدمی روکنے کا اعلان کر دیاReuters

روس کے ویگنر گروپ کے جنگجوؤں نے مبینہ طور پر مسلح بغاوت کی کوشش کے 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے کے بعد روس کے سرحدی شہر روستوف سے انخلا شروع کر دیا ہے۔

اس سے قبل گروپ کے سربراہ نے کہا تھا کہ انھوں نے اپنے جنگجوؤں سے کہا ہے کہ وہ خونریزی سے بچنے کے لیے یوکرین واپس چلے جائیں۔

روس کے سرکاری میڈیا کی خبروں کے مطابق یوگینی پریگوزن اب ہمسایہ ملک بیلاروس چلے جائیں گے اور ان کے اور ان کے فوجیوں کے خلاف الزامات کو ختم کر دیا جائے گا۔

یہ روس میں ایک افراتفری اور غیر معمولی دن کے خاتمے کا اشارہ ہے۔

ویگنر گروپ ایک نجی فوج ہے جو یوکرین میں باقاعدہ روسی فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔

جنگ کس طرح لڑی گئی اس پر ان کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا تھا، حالیہ مہینوں میں پریگوزن نے روس کی فوجی قیادت پر شدید تنقید بھی کی۔

یہ تنازع سنیچر کی صبح اس وقت سامنے آیا، جب ویگنر کے جنگجو یوکرین میں اپنے فیلڈ کیمپوں سے سرحد عبور کر کے جنوبی شہر روستوف میں داخل ہوئے۔

اب صورتحال روس کے لیے بہتری کی طرف چلی گئی ہے۔ تاہم اس سے قبل انھوں نے مبینہ طور پر علاقائی فوجی کمان سنبھال لی اور ماسکو کی طرف شمال میں واقع ایک اور شہر ورونز میں فوجی تنصیبات پر قبضہ کر لیا۔

Reuters

جنگجوؤں نے روسی دارالحکومت ماسکو کی طرف مارچ کرنا شروع کیا، جس سے کریملن نے ماسکو سمیت کئی علاقوں میں سخت حفاظتی انتظامات کیے۔ ماسکو کے میئر نے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ سفر سے گریز کریں۔

یہ انتباہ بھی دیا گیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہزاروں اشرافیہ چیچن فوجی ماسکو کی طرف ویگنر کے فوجیوں سے لڑنے کے لیے جا رہے ہیں۔

اس کے جواب میں صدر ولادیمیر پوتن نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان لوگوں کو سزا دیں گے جنھوں نے روس کو ’دھوکہ دیا‘۔

روسی ٹی وی چینل روسیا 24 کے مطابق، بیلاروسی رہنما الیگزینڈر لوکاشینکوف نے پریگوزن کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے بعد یہ تنازع سنیچر کی شام کو ایک معاہدہ سامنے کے بعد ختم ہوا۔

اس کے کئی گھنٹوں بعد ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں مبینہ طور پر ویگنر کے دستوں کو روستوف سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اور ان کے رہنما کو حامیوں کی خوشامد اور مصافحہ کرتے ہوئے وہاں سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا۔

دن بھر کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ صورت حال ’مکمل افراتفری‘ والی ہے۔

ReutersReuters

انھوں نے ایک بیان میں روسی صدر کا نام لیے بغیر کہا کہ ’کریملن سے تعلق رکھنے والا شخص واضح طور پر بہت خوفزدہ ہے اور شاید کہیں چھپا ہوا ہے، خود کو ظاہر نہیں کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اب ماسکو میں نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’وہ جانتا ہے کہ وہ کس چیز سے ڈرتا ہے کیونکہ اس نے خود ہی یہ خطرہ پیدا کیا ہے۔ تمام برائی، تمام نقصانات، تمام نفرت - یہ وہی ہے جو اسے پھیلاتا ہے۔‘

واضح رہے کہ ’یہ افواہیں تھیں کہ صدر پوتن ماسکو سے فرار ہو گئے ہیں، جب فلائٹ ٹریکنگ سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ سنیچر کو دو صدارتی طیارے شہر سے باہر گئے۔

تاہم ان کے پریس سیکریٹری دمتری پیسکوف نے کہا کہ صدر ابھی بھی کریملن میں ہیں۔

دمتری پیسکوف نے مزید کہا کہ پریگوزن کی گرفتاری کے وارنٹ کو ختم کر دیا جائے گا اور ان کے اور ان کے فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمہ ختم کر دیا جائے گا۔

پریس سیکریٹری نے کہا کہ ویگنر کے وہ جنگجو جو روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں وہ اب بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

روس کے کرائے کے فوجیوں کی قبروں کی تفصیل جمع کرنے والے کارکن روس سے فرار

’پوتن کے باورچی‘ جو ’کرائے کے جنگجوؤں‘ کی فوج کی سربراہی کر رہے ہیں

کیا روس واقعی یوکرین میں جوہری جنگ کا ’جوا‘ کھیل سکتا ہے؟

ReutersReutersویگنر گروپ کیا ہے؟

سنہ 2014 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ بات سامنے آنے لگی تھی کہ پریگوزِن کوئی عام تاجر نہیں تھے بلکہ ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے ان کے منسلک ہونے کی بات سامنے آئی۔ سب سے پہلے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں اس نجی فوج کے یوکرین کی افواج سے لڑنے کی اطلاع ملی تھی۔

اسے عام طور پر ’ویگنر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھے۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

اس وقت اس گروپ کی کمان یوگینی پریگوزن کے ہاتھوں میں ہے۔

دی جیمسٹائن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سینیئر فیلو ڈاکٹر سرگئی سکھانکن کے مطابق ویگنر گروپ کو دمتری یوٹکن نامی شخص نے بنایا تھا۔

وہ سنہ 2013 تک روسی سپیشل ملٹری سکواڈ میں شامل رہے۔

سکھانکن کہتے ہیں کہ ’ویگنر گروپ میں انھوں نے 35 سے 50 سال کی عمر کے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جو خاندان یا قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر چھوٹے شہروں سے آتے تھے اور جن کے پاس ملازمت کے مواقع کم تھے۔ ان میں سے کچھ چیچنیا کے تنازعات میں اور کچھ روس-جارجیائی جنگجوؤں میں شامل تھے۔ انھیں جنگ کا تجربہ تھا، لیکن وہ عام زندگی میں اپنی جگہ نہیں پا سکے۔‘

سرگئی کا کہنا ہے کہ انھیں روسی ملٹری انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے قریب ایک جگہ پر تقریباً تین ماہ تک تربیت دی گئی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس گروپ کے تار روسی فوج سے جڑے ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اس گروپ کے جنگجوؤں کو دنیا کے کئی سورش زدہ علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں روس اس کا خواہشمند تھا کیونکہ وہ چیچنیا اور افغانستان کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ پوتن کو ڈر تھا کہ اگر غیر ملکی سرزمین پر فوجی کارروائیوں میں مزید روسی فوجی مارے گئے تو اس سے لوگوں میں غصہ بڑھ جائے گا۔‘

چیچنیا اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں ہزاروں روسی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ویگنر گروپ سرکاری طور پر فوج کا حصہ نہیں تھا، اس لیے اسے مہم میں شامل کرنے سے ہلاکتوں کی تعداد کو کم رکھنے میں مدد ملی۔

سرگئی کہتے ہیں کہ ’ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روس ان کی ذمہ داری لینے سے انکار کر سکتا تھا۔ یعنی وہ کہہ سکتا تھا کہ اسے ان جنگجوؤں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک میں حساس مقامات پر فوج یا نیم فوجی دستے بھیجنا مشکل ہے۔‘

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرائے کے اس گروہ نے بربریت کے لیے خوفناک شہرت حاصل کی۔ ویگنر کے ارکان پر الزام ہے کہ انھوں نے نہ 2017 میں ایک شامی قیدی کو ہتھوڑے سے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کا سر قلم کیا اور پھر اس کے جسم کو آگ لگا دی۔

اگلے سال وسطی افریقی جمہوریہ میں ویگنر کی موجودگی کی تحقیقات کے دوران تین روسی صحافی مارے گئے۔

2022 میں ویگنر پر ایک بار پھر ایک شخص کو اس شبہ میں ہتھوڑے سے قتل کرنے کا الزام لگایا گیا کہ اس نے یوکرین میں گروپ کو ’دھوکہ دیا‘۔

یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے ویگنر کو دہشتگرد گروپ کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد، پریگوزِن نے دعوی کیا کہ انھوں نے سیاستدانوں کو خون آلود ہتھوڑا بھیجا تھا۔

برسوں تک پریگوزِن نے ویگنر سے کسی قسم کے روابط رکھنے سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ان لوگوں پر مقدمہ بھی چلایا جنھوں نے مشورہ دیا کہ انھوں نے ایسا کیا لیکن پھر ستمبر 2022 میں پریگوزِن نے کہا کہ انھوں نے 2014 میں گروپ قائم کیا تھا۔

امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے ویگنر پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اسے روس میں کام کرنے کی اجازت ہے حالانکہ وہاں کا قانون کرائے کی فوج کی سرگرمیوں پر پابندی لگاتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More