’آپ کلائنٹس کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘: ٹائٹن آبدوز کے مالک نے سکیورٹی خدشات کو رد کیا تھا

بی بی سی اردو  |  Jun 23, 2023

BBC

اوشیئن گیٹ کمپنی کے مالک سٹاکٹن رش کو ٹائٹن آبدوز سے متعلق متعدد بار خدشات سے آگاہ کیا گیا لیکن انھوں نے ان کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ یہ انکشاف ایک ماہر کی جانب سے بھیجی جانے والی ای میلز سے ہوا ہے۔

راب مککلم نے اوشیئن گیٹ کے سی ای او سٹاکٹن رش سے کہا تھا کہ وہ اپنے کلائنٹس کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور انھوں نے آبدوز کا استعمال اس وقت تک روکنے کا مشورہ دیا تھا جب تک اسے کوئی خودمختار ادارہ جانچ نہیں لیتا۔

بی بی سی نے یہ پیغامات دیکھے ہیں جن کے جواب میں سٹاکٹن رش نے کہا کہ وہ ایسے ماہرین سے تنگ آ چکے ہیں جو جدت کا راستہ روکنے کے لیے حفاظت کے موقف کو استعمال کرتے ہیں۔

راب مککلم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پیغامات کا یہ تبادلہ اس وقت تھم گیا تھا جب اوشیئن گیٹ کمپنی کے وکلا نے قانونی کاروائی کی دھمکی دی تھی۔

مارچ 2018 میں انھوں نے سٹاکٹن رش کو ای میل میں لکھا تھا کہ ’میرے خیال میں آپ خود کو اور اپنے کلائنٹس کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ٹائٹینک تک پہنچنے کی ریس میں آپ اسی مشہور محاورے کی مثال بن رہے ہیں کہ وہ ڈوب نہیں سکتی۔‘

اپنے جوابی پیغامات میں سٹاکٹن رش نے ٹائٹن سے جڑے خدشات اور تنقید پر مایوسی کا اظہار کی تھا۔ سٹاکٹن رش اس آبدوز میں سوار تھے جو پانچ مسافروں سمیت زیر سمندر تباہ ہو گئی ہے۔

راب مککلم نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے متعدد بار اوشیئن گیٹ کمپنی کو مشورہ دیا کہ وہ کمرشل استعمال سے پہلے ٹائٹن کے لیے منظوری لیں۔ ٹائٹن آبدوز کو سرٹیفائی نہیں کیا گیا تھا۔

ایک ای میل پیغام میں راب نے لکھا کہ ’جب تک کسی آبدوز کو ٹیسٹ نہیں کر لیا جاتا، اس کو کمرشل ڈیپ ڈائیو کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘

’میں زور دیتا ہوں کہ آپ ٹیسٹنگ میں ہر ممکن احتیاط سے کام لیں اور ایک جانب جہاں میں جدت کا مداح ہوں، آپ پوری انڈسٹری کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں۔‘

چند دن بعد اس پیغام کے جواب میں سٹاکٹن رش نے اپنے کاروبار کا دفاع کیا اور کہا کہ انڈسٹری کے کھلاڑی نئے آنے والوں کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’میں زیر سمندر خطرات کو سمجھنے کا اہل ہوں۔‘

BBC

اوشیئن گیٹ کمپنی نے ان ای میلز پر اپنا موقف نہیں دیا ہے تاہم ماہرین نے ٹائٹن کے بارے میں سوال اٹھائے ہیں کہ سمندر کی گہرائی تک لے جانے والا نجی سیکٹر کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ٹائٹن کے ڈیزائن اور اس کی تیاری میں کاربن فائبر کے استعمال پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

راب مککلم، جو خود بھی ایک ایسی ہی کمپنی چلاتے ہیں، نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈسٹری کافی عرصے سے کوشش کر رہی تھی کہ سٹاکٹن رش کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنا پروگرام دو وجوہات کی بنا پر روک دے۔

’پہلا تو کاربن فائبر کا استعمال اور دوسرا یہ کہ ٹائٹن واحد آبدوز نما تھی جو کلاس نہ ملنے کے باوجود کمرشل کام کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ اسے کسی خودمختار ادارے نے سرٹیفائی نہیں کیا تھا۔‘

واضح رہے کہ آبدوز کو سرٹیفائی یا کلاس کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ چند معیار پورے کرے جن میں استحکام، مضبوطی، حفاظت اور کارکردگی جیسے نکات دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ عمل پورا کرنا لازمی نہیں ہے۔

2019 میں کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کا ڈیزائن موجودہ سسٹم کے مطابق نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اوشیئن گیٹ ضروری معیار کو پورا نہیں کرتی۔

مککلم کا کہنا ہے کہ ’سٹاکٹن جدت کے قائل تھے اور ان کے خیال میں ان کی سوچ کو قوانین کی وجہ سے نہیں قید ہونا چاہیے۔ لیکن قوانین ہوتے ہیں اور انجینیئرنگ کے قوائد ہیں، فزکس کے اصول ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ کسی کو بھی ٹائٹن مں سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ’اگر آپ انجینیئرنگ کے اصولوں سے ہٹتے ہیں جن کی بنیاد تجربہ ہے، تو اس کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

امریکی بحریہ نے دھماکے سے ہم آہنگ آواز ریکارڈ کی تھی‘Getty Images

امریکی بحریہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ بحرِ اوقیانوس میں ٹائٹینک کے ملبے کے پاس تباہ ہونے والی تفریحی آبدوز ٹائٹن سے رابطہ منقطع ہونے کے کچھ دیر بعد کسی دھماکے سے ہم آہنگ ایک غیر معمولی آواز ریکارڈ کی گئی تھی جو ممکنہ طور پر آبدوز کے تباہ ہونے سے پیدا ہوئی تھی۔

امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے اہلکار نے بتایا کہ ان معلومات کو فوری طور پر امریکی کوسٹ گارڈ کو فراہم کیا گیا جنھوں نے اسے اپنی تلاش کا دائرہ محدود کرنے کے لیے استعمال کیا۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ معلومات پہلے عام کیوں نہیں کی گئیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دھماکے سے ہم آہنگ آواز امریکی بحریہ کے خفیہ لانگ رینج سونار نظام نے ریکارڈ کی تھی۔ صوتی نگرانی کا نظام 1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران بحر اوقیانوس کی دور دراز گہرائیوں میں سوویت آبدوزوں کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

ٹائٹن نامی تفریحی آبدوز اتوار کو بحرِ اوقیانوس میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر روانہ ہوئی تھی لیکن سفر کے آغاز کے پونے دو گھنٹے بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

چار دن سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی کثیرالقومی امدادی کارروائی کے بعد جمعرات کو امریکی کوسٹ گارڈز نے تصدیق کر دی تھی کہ لاپتہ آبدوز تباہ ہو چکی ہے اور اس پر سوار دو پاکستانی نژاد برطانویوں سمیت پانچوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس تفریحی سفر کا انتظام کرنے والی اوشیئن گیٹ کمپنی، جس کے بانی بھی ٹائٹن آبدوز میں سوار تھے، نے ایک بیان میں کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سی ای او سٹاکٹن رش، شہزادہ داؤد، ان کے بیٹے سلیمان داؤد، ہمیش ہارڈنگ اور پال ہینری، کھو چکے ہیں۔'

اس بیان سے قبل امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ ٹائٹن کی تلاش کے دوران سمندر کی تہہ میں ٹائٹینک کے ڈھانچے کے قریب سے کچھ ملبہ ملا ہے۔

Getty Imagesامریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعرات کی صبح ٹائٹن آبدوز کی دم ٹائٹینک کے ملبے سے تقریبا 1600 فٹ دور سے ملی۔

ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافروں کے ایک دوست اور غوطہ خوری کے ماہر ڈیوڈ میرنز نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس ملبے میں ٹائٹن آبدوز کا لینڈنگ فریم بھی شامل ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعرات کی صبح ٹائٹن آبدوز کی دم ٹائٹینک کے ملبے سے تقریبا 1600 فٹ دور سے ملی۔ انھوں نے بتایا کہ تلاش کے دوران اضافہ ملبہ بھی دریافت ہوا۔

امریکی کوسٹ گارڈز کے مطابق ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او ویز) سمندر کی تہہ میں ہی موجود رہیں گے اور مزید معلومات اکھٹا کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 'شاید ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو ڈھونڈنا ممکن نہ ہو سکے کیونکہ اس مقام پر سمندری ماحول انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔'

ٹائٹینک کا ملبہ سمندر کے جس حصے میں موجود ہے اسے 'مڈنائٹ زون' کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درجہ حرارت منجمد کر دینے والا اور وہاں گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق زیر سمندر جس جگہ ٹائٹن آبدوز گئی، وہاں کا ماحول اور حالات زمین کے بیرونی خلا جیسے سخت اور مشکل ہیں۔

’سانحے کے باعث لوگوں کا بہترین اور بھیانک کردار نمایاں ہوا‘

داؤد خاندان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انتہائی افسوس کے ساتھ ہم شہزادہ اور سلیمان داؤد کی موت کا اعلان کرتے ہیں۔

’ہمارے پیارے بچے اوشن گیٹ کی ٹائٹن آبدوز پر موجود تھے جو زیرِ سمند غرقاب ہوئی۔ وفات پانے والوں اور ہمارے خاندان کو اس مشکل موقع پر اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔‘

بی بی سی کو دیے گئے بیان میں خاندان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس نوعیت کے کسی بھی سانحے کی طرح اس نے بھی لوگوں کے بہترین اور بھیانک کردار کو عیاں کیا۔‘

’کچھ ایسے موقعوں پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر سہارا دیتے ہیں اور کچھ ایسے موقعوں کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں کون کیسا رویہ دکھاتا ہے یہ دراصل ان کے اپنے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں شکرگزار ہیں ان افراد کے جنھوں نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، ان کی ان تھک کوششیں اس مشکل وقت میں ہمارے لیے ہمت کا ذریعہ تھیں۔

’ہم اپنے دوستوں، خاندان، ساتھ کام کرنے والوں اور پوری دنیا میں ہمارے لیے نیک تمنائیں رکھنے والوں کے شکرگزار ہیں جو اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس بے پناہ پیار اور اس دوران ملنے والے سہارے سے ہم اس ناقابلِ تصور نقصان سے نمٹنے کی کوشش کر سکے ہیں۔‘

داؤد خاندان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ٹائٹن آبدوز میں موجود دیگر مسافروں کے خاندانوں سے بھی افسوس کرتے ہیں۔‘

خاندان کی جانب سے کہا گیا ہے ان کی آخری رسومات کے حوالے سے جلد اعلان کر دیا جائے گا۔

https://twitter.com/DawoodTdf/status/1671994551437852674?s=20

گہرائی میں پانی کا دباؤ کیسے ہلاکت خیز ہوتا ہے؟Getty Images

آپ جتنی گہرائی میں جائیں گے، اتنا ہی آپ کے اوپر موجود پانی آپ کو دباتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے پھٹنے کی اصل وجہ کیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس کے بیرونی ڈھانچے میں معمولی سی کمزوری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

سطح سمندر پر محسوس ہونے والے دباؤ کو ’ون ایٹموسفیئر‘ یا تقریباً 6.6 کلو گرام فی مربع انچ دباؤ کہا جاتا ہے۔

پانی کی گہرائی کے ہر 10 میٹر کے بعد یہ دباؤ دگنا ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا تین ہزار میٹر کی گہرائی میں تقریباً جہاں آبدوز تباہ ہوئی دباؤ سطح کے دباؤ سے تقریباً 300 گنا زیادہ تھا۔

ٹائٹینک کا ملبہ اس مڈ نائٹ زون میں پڑا ہوا ہے، جسے باضابطہ طور پر بیتھیپلیجک زون کہا جاتا ہے، جو تین ہزار تین سو فٹ سے 13 ہزار ایک سو فٹ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت تقریباً چار سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور دباؤ سطح سمندر سے کم از کم 100 گنا زیادہ ہے۔

بہت کم جاندار ایسے ہیں جو اس گہرائی میں زندہ رہنے اور انتہائی دباؤ، اندھیرے اور سردی سے بچنے کے قابل ہیں اور جب انھیں سطح پر لایا جاتا ہے تو وہ جلد ہی مر جاتے ہیں۔

تلاش کا محور کون سا مقام تھا؟ BBC

ٹائٹن آبدوز میں موجود افراد کا سطح آب پر موجود بحری جہاز پولر پرنس سے رابطہ اتوار کو زیرِ آب سفر شروع کرنے کے ایک گھنٹہ 45 کے بعد منقطع ہو گیا تھا۔

آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہونا تھی۔

ٹائٹینک کا ملبہ سینٹ جانز نیوفاؤنڈ لینڈ سے 435 میل جنوب میں واقع ہے۔

امریکہ اور کینیڈا کی ایجنسییاں، بحریہ اورکمرشل کمپنیاں جو سمندر کی گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس ریسکیو آپریشن کا حصہ بنیں۔ اس آپریشن کو بوسٹن میساچوسٹس سے چلایا گیا اور اس میں فوجی طیاروں اور سونار بوئے کی مدد لی گئی ہے۔

ان بحری جہازوں میں سے کچھ میں ’ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز‘(آر او ویز) موجود تھے جنھیں سمندر کی تہہ میں اس آبدوز کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پروفیسر ایلیسٹیئر گریگ یونیورسٹی کالج لندن میں آبدوزوں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ریسکیو کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ انھیں اس آبدوز کو سطح سمندر پر ڈھونڈنا ہے یا سمندر کی تہہ میں کیونکہ اس بات کا ’امکان بہت کم ہے‘ کہ یہ کہیں درمیان میں موجود ہو۔

BBCٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی مہم کیا ہے؟

اوشیئن گیٹ کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔

اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔

کمپنی کی وی سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

اس آبدوز کا وزن 10432 کلو تھا اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو 1912 میں نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔

اس جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت ہوا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More