Reutersامریکہ کے ریاستی دورے پر آئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے وائٹ ہاؤس میں تقریب کا انعقاد کیا گیا
پاکستان نے امریکہ اور انڈیا کے مشترکہ بیان میں پاکستان سے مخصوص حوالے کو 'یکطرفہ اور گمراہ کن' قرار دیتے ہوئے سفارتی اقدار کے خلاف قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں سرحد پار دہشتگردی اور ’پراکسی گروہوں‘ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔ ‘
اس اعلامیے میں کالعدم تنظیموں القاعدہ، دولت اسلامیہ (داعش)، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'ہمیں اس بات پر حیرانی ہے کہ انسداد دہشت گردی پر امریکہ کے ساتھ تعاون کے باوجود اس حوالے کو بیان کا حصہ بنایا گیا۔'
دفتر خارجہ کے مطابق 'پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور ملک کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی جان دے کر مثال قائم کی جبکہ بین الاقوامی برادری بھی بارہا پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کر چکی ہے۔'
بیان میں کہا گیا کہ 'ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ مشترکہ بیان میں کیے جانے والے دعووں سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عالمی عزم کیسے مضبوط ہو گا۔'
'اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی عفریت کو ہرانے کے لیے جس تعاون کی ضرورت ہے اسے جیو پولیٹیکل ضروریات کی وجہ سے قربان کر دیا گیا ہے۔'
دفتر خارجہ نے کہا کہ 'ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کے علاوہ انڈیا نے اپنے ملک میں اقلیتوں سے ہونے والے سلوک اور کشمیر میں عوام پر جبر سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی کا بہانہ استعمال کیا۔'
یہ بھی کہا گیا کہ 'مشترکہ اعلامیہ میں خطے میں عدم استحکام اور تناو پیدا کرنے والے اہم ذرائع کی نشان دہی نہیں کی گئی نہ ہی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احطہ کیا گیا جو بین الاقوامی ذمہ داری سے روگردانی کے مترادف ہے۔'
پاکستان نے انڈیا کو جدید عسکری ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ایسے اقدامات خطے میں عسکری عدم توازن میں اضافہ کریں گے اور سٹریٹجک استحکام کو متاثر کریں گے۔'
واضح رہے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی چار روزہ دورے پر امریکہ میں ہیں جس کے دوران وائٹ ہاؤس میں مودی کے استقبال کے دوران 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور رات کے عشائیے میں صرف سبزیوں پر مشتمل کھانے رکھے گئے۔
اس ریاستی دورے پر مودی نے امریکی کانگریس سے بھی خطاب کیا جہاں ارکان نے نشستوں سے اُٹھ کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔
Getty Images’پاکستان یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو‘
مودی کی امریکہ آمد پر وائٹ ہاؤس نے اپنی ویب سائٹ پر انڈیا اور امریکہ کا ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں پاکستان کا ذکر بھی ملتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ’امریکہ اور انڈیا عالمی دہشتگردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ہر صورت میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔‘
اس اعلامیے میں کالعدم تنظیموں القاعدہ، دولت اسلامیہ (داعش)، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
’سرحد پار دہشتگردی‘ کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ اور انڈیا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’فوری اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا جائے کہ اس کی سرزمین دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔‘
اعلامیے میں ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
انڈیا اور امریکہ نے عالمی سطح پر دہشتگردی کے مقاصد کے لیے ڈرون (یو اے ویز) کے استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اس اعلامیے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے خلاف عالمی سطح پر عملداری کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
مودی کا دورہ جو انڈیا-امریکہ تعلقات کے لیے معنی خیز ثابت ہو رہا ہے
مودی کے وزیر اعظم بننے سے قبل امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر انھیں ویزا دینے سے انکار کیا تھا۔ تاہم اب امریکہ کے لیے وہ ایک اہم اتحادی ہیں۔
انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن نے تاریخی اعتبار سے انڈیا کے ساتھ قربتیں بڑھائی ہیں۔ تاہم دلی امریکہ سے تعلقات کو اس تناظر میں نہیں دیکھتا ہے۔
کانگریس سے خطاب کے دوران اگرچہ مودی نے چین کا نام نہیں لیا تاہم یہ ضرور کہا کہ ’دباؤ اور جھگڑے کے کالی بادل انڈو پیسیفک میں اپنے سائے چھوڑ رہے ہیں۔‘
Getty Images
مودی نے روس کا نام بھی نہیں لیا جس نے یوکرین کے ساتھ جنگ شروع کی مگر یہ کہا کہ ’یوکرین تنازع کے ساتھ یورپ میں جنگ لوٹ آئی ہے۔‘
انڈیا نے اب تک اس جنگ پر روس پر تنقید نہیں کی۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس کی وجہ روسی دفاعی درآمدات پر انحصار ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔
اس جنگ نے واشنگٹن اور دلی کے درمیان تعلقات کو ضرور متاثر کیا ہے۔ لیکن بائیڈن نے اس دورے پر صرف مثبت پہلوؤں پر توجہ دی ہے اور کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اب تک کی سب سے مضبوط سطح پر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ ’21ویں صدی کے سب سے معنی خیز رشتوں میں سے ایک ہے۔‘
مودی نے ان سے اتفاق کیا اور کانگریس کو بتایا کہ یہ دو عظیم جمہوریتوں کا اتحاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی دوستی پوری دنیا میں مضبوطی بڑھانے کا سبب بنے گی۔
انڈین وزیر اعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کی عالمی و علاقائی شراکت کے لیے یہ ایک نیا موڑ ہے۔
Reutersوائٹ ہاؤس کے باہر مودی مخالف مظاہرےمودی کا صحافی کو جواب اور دورے پر اوبامہ کا تبصرہ
تاہم ہر کسی نے اس دورے کا اسی جذبے سے جشن نہیں منایا ہے۔
ناقدین کے خلاف کارروائیوں کی بنا پر انڈین وزیر اعظم تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ ان کی ہندو قوم پرست حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے اقلیتوں کے خلاف پُرتشدد واقعات اور استحصال روکنے کے لیے ناکافی اقدام کیے ہیں۔
مودی کے دورے کے دوران امریکہ میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے باہر ایک احتجاج میں شرکا نے ان کی امریکی آمد اور ریاستی پروٹوکول ملنے کی مخالفت کی۔
دوسری طرف سیلیکون ویلی میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان نے مودی کو خوش آمدید کہا ہے جو اس شعبے میں اب عالمی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے کئی آزاد خیال ارکان نے کانگریس میں ان کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ ان میں الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز شامل تھیں جنھوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ امریکہ میں اعلیٰ سفارتی پروٹوکول پر مبنی ریاستی دورے کی دعوت ایسے افراد کو نہیں دی جانی چاہیے جن ’انسانی حقوق کے اعتبار سے پریشان کن ریکارڈ‘ ہے۔
تقاریر اور پریڈ کے علاوہ تجارتی میدان میں پیشرفت ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنازیشن میں جاری چھ مقدمات ختم کرنے پر اتفاق کیا جبکہ جنرل الیکٹ اور مکرون کے ساتھ معاہدوں کا اعلان کیا گیا۔
مودی، جو کہ 2014 میں انڈیا کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے پریس کانفرنس نہیں کرتے، نے صحافیوں سے سوال جواب میں حصہ لے کر لوگوں کو حیران بھی کیا۔
جب ان سے انڈیا میں انسانی حقوق کی پامالی پر پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ حیران ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے۔۔۔ جمہوریت ہماری رگوں میں بستی ہے‘ اور ملک میں ’امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘
مودی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا کہ ’ہندو اکثریتی انڈیا میں مسلم اقلیت کی سکیورٹی قابل ذکر ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اس وقت صدر ہوتے تو ’مودی سے بات کرتے‘ اور انھیں سمجھاتے کہ ’اگر آپ نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا تو مستقبل میں انڈیا میں تقسیم پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ انڈیا کے مفاد میں نہیں۔‘