لاپتہ ٹائٹن آبدوز کا ایک حصہ دریافت، پاکستانی بزنس مین اور ان کے بیٹے سمیت تمام مسافروں کی ہلاکت کا اعلان

بی بی سی اردو  |  Jun 22, 2023

اوشیئن گیٹ کمپنی نے بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر جانے والی لاپتہ آبدوز ٹائٹن میں سوار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

اس تفریحی سفر کا انتظام کرنے والی اوشیئن گیٹ کمپنی، جس کے بانی بھی ٹائٹن آبدوز میں سوار تھے، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے سی ای او سٹاکٹن رش، شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد، ہمیش ہارڈنگ اور پال ہینری، کھو چکے ہیں۔‘

اس بیان سے قبل امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ لاپتہ آبدوز ٹائٹن کی تلاش کے دوران سمندر کی تہہ میں ٹائٹینک کے قریب سے کچھ ملبہ ملا ہے۔

ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافروں کے ایک دوست اور ڈائیونگ ماہر ڈیوڈ میرنز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ملبے میں ٹائٹن آبدوز کا لینڈنگ فریم بھی شامل ہے۔

اوشیئن گیٹ کمپنی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مسافروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریسکیو کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے پر بین الاقوامی برادری کا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعرات کی صبح ٹائٹن آبدوز کی دم ٹائٹینک کے ملبے سے تقریبا 1600 فٹ دور سے ملی۔

انھوں نے بتایا کہ تلاش کے دوران اضافہ ملبہ بھی دریافت ہوا۔

یاد رہے کہ ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر لے جانے والی آبدوز اتوار سے لاپتہ تھی جس کے بعد اس کی تلاش کا آغاز کر دیا گیا تھا۔

تلاش کے کام میں دو ڈرون سمندر کی تہہ تک پہنچے جبکہ برطانوی شاہی فوج کا ایک طیارہ بھی اس مقام پر آپریشن میں شامل ہوا۔ تلاش میں رائل کینیڈین ایئر فورس کے طیارے، بحری جہاز اور ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او ویز) نے بھی حصہ لیا۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او ویز) سمندر کی تہہ میں ہی موجود رہیں گے اور مذید معلومات اکھٹا کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس دوران امریکی کوسٹ گارڈ نے کہا تھا کہ آبدوز کی تلاش میں شامل ریسکیو ٹیموں کو آوازیں سنائی دیں جس کے بعد سرچ آپریشن کا دائرہ وسیع کر دیا گیا۔

لیکن کیپٹن جیمی فریڈرک نے بدھ کو کہا تھا کہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ آوازیں کس چیز کی ہیں۔

ماہرین کے مطابق زیر سمندر جس جگہ ٹائٹن آبدوز گئی، وہاں کا ماحول اور حالات زمین کی بیرونی خلا جیسے سخت اور مشکل ہیں۔

کیونکہ ٹائٹینک کا ملبہ سمندر کے جس حصے میں موجود ہے اسے ’مڈنائٹ زون‘ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درجہ حرارت منجمد کر دینے والا اور وہاں گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔

BBCتلاش کا محور کون سا مقام تھا؟

ٹائٹن آبدوز میں موجود افراد کا سطح آب پر موجود بحری جہاز پولر پرنس سے رابطہ اتوار کو زیرِ آب سفر شروع کرنے کے ایک گھنٹہ 45 کے بعد منقطع ہو گیا تھا۔

آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہونا تھی۔

ٹائٹینک کا ملبہ سینٹ جانز نیوفاؤنڈ لینڈ سے 435 میل جنوب میں واقع ہے۔

امریکہ اور کینیڈا کی ایجنسییاں، بحریہ اورکمرشل کمپنیاں جو سمندر کی گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس ریسکیو آپریشن کا حصہ بنیں۔ اس آپریشن کو بوسٹن میساچوسٹس سے چلایا گیا اور اس میں فوجی طیاروں اور سونار بوئے کی مدد لی گئی ہے۔

ان بحری جہازوں میں سے کچھ میں ’ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز‘(آر او ویز) موجود تھے جنھیں سمندر کی تہہ میں اس آبدوز کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پروفیسر ایلیسٹیئر گریگ یونیورسٹی کالج لندن میں آبدوزوں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ریسکیو کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ انھیں اس آبدوز کو سطح سمندر پر ڈھونڈنا ہے یا سمندر کی تہہ میں کیونکہ اس بات کا ’امکان بہت کم ہے‘ کہ یہ کہیں درمیان میں موجود ہو۔

BBCشہزادہ داؤد کون ہیں؟

پاکستان کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے رکن اور برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر 48 سالہ شہزادہ داؤد اور اُن کے 19 سالہ بیٹے سلیمان بھی اُس لاپتہ آبدوز میں سوار تھے۔

آبدوز لاپتہ ہونے کے بعد داؤد فیملی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ہمارے بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائیٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال، اُن کی سب میرین کرافٹ (چھوٹی آبدوز) سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں۔‘

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔

خاندان کے ترجمان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’سلیمان سائنس فکشن لٹریچر کے بڑے مداح ہیں اور انھیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا شوق ہے۔‘

برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ داؤد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں برطانیہ منقتل ہو گئے جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے شعبہ وکالت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انھوں نے گلوبل ٹیکسٹائیل مارکیٹنگ میں فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی بھی کی۔

شہزادہ داؤد خلا میں ریسرچ کرنے والے ایک کمپنی ’ایس ای ٹی آئی‘ انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی بھی تھے اور اس ادارے کی ویب سائیٹ پر ان سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

ان تفصیلات کے مطابق شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور اپنے بچوں سلیمان اور علینا کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم تھے۔ انھیں فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔

شہزادہ داؤد ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ کے وائس چیئرمین تھے۔ ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ داؤد گروپ کا حصہ ہے اور یہ خاندان گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے کاروبار کی دنیا میں مصروف عمل ہے۔ شہزادہ داؤد سنہ 1996 میں خاندانی کاروبار میں شامل ہوئے جہاں ان کی مہارت کارپوریٹ گورننس اور پاکستان میں صنعتی شعبے کی تجدید میں ہے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن صنعتوں کے ایک متنوع سلسلے کا انتظام و انصرم سنبھالتی ہے جہاں شہزادہ داؤد توانائی، زرعی و غذائی اشیا، خوراک، پیٹرو کیمیکلز اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں کے انضمام اور ترقی و اختراع کے مواقع تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے بورڈز میں بطور شیئر ہولڈر ڈائریکٹر بھی شامل تھے۔

ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی مہم کیا ہے؟

اوشیئن گیٹ کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔

اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔

کمپنی کی وی سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

اس آبدوز کا وزن 10432 کلو تھا اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو 1912 میں نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔

اس جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت ہوا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More