برطانیہ میں خواتین میں بیضے منجمد کروانے کے رحجان میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 22, 2023

ایک نئی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں خواتین کی بڑی تعداد اپنے بیضے (تولیدی انڈے) منجمد کروا رہی ہیں تاکہ بڑی عمر میں یا مستقبل میں وہ ماں بن سکیں۔

ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریالوجی اتھارٹی (ایچ ایف ای اے) نے کہا کہ 2021 میں 4,000 سے زیادہ خواتین نے اپنے تولیدی انڈے منجمد کیے جبکہ 2019 میں یہ تعداد ڈھائی ہزار تھی۔

ایک خیراتی ادارے نے کہا کہ اس کی وجہ وبائی امرا ض یا کووڈ ہو سکتی ہے۔ لیکن ڈاکٹروں نے متنبہ کیا کہ اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں مزید آگاہی کی ضرورت ہے۔

پروگریس ایجوکیشنل ٹرسٹ فرٹیلٹی چیریٹی کی ڈائریکٹر سارہ نورکراس کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران کچھ خواتین نے اپنی فرٹیلٹی پرغور کیا تھا ۔

انھوں نے کہا کہ کوِوڈ کے دوران سماجی پابندیوں نے کچھ خواتین کو اپنی فرٹیلٹی کے بارے میں مزید سوچنے اور اپنے تولیدی آپشنز کو بڑھانے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔‘

رپورٹ کے مطابق اپنے تولیدی انڈے منجمد کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافے کے باوجود بہت کم خواتین نے اپنے انڈے کسی دوسری عورت کو استعمال کرنے کے لیے عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 2019 میں تقریباً ڈیڑھ ہزار نئے انڈوں کے عطیہ دہندگان تھے لیکن 2021 میں یہ کم ہو کر صرف 1,400 رہ گئے۔

برطانیہ کے علاقے ایسیکس سے تعلق رکھنے والی ہیلن ہنری نے اپنے کچھ انڈے اس وقت عطیہ کیے جب انھوں نے 10 سال قبل 34 سال کی عمر میں اپنے انڈے منجمد کیے تھے۔

وہ اس وقت اپنے ایک پارٹنر کے ساتھ طویل مدتی رشتے میں تھیں جو اولاد نہیں چاہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ اس بارے میں کاؤنسلِنگ کے دوران مجھے کہا گیا کہ میں اپنے انڈوں کو کیوں منجمد کرنا چاہتی تھی، مجھے اپنے انڈے عطیہ کرنے کا موقع بھی دیا گیا تھا۔ میں نے یہ آپشن لیا کیونکہ میں یہ صرف اپنے لیے نہیں کر رہی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’عطیہ دینے کے بعد مجھ میں احساسِ جرم پیدا ہونے لگا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ آیا میں نے صحیح کام کیا یا نہیں۔ میں سوچتی تھی کہ اگر بچے کی ماں اچھی نہیں ہوئی تو کیا ہوگا؟ اگر بچے کو کسی اور کی دیکھ بھال میں رکھا گیا تو کیا ہوگا؟ اگر میرے بچے کی مناسب پرورش یا دیکھ بھال نہ کی گئی تو کیا ہوگا؟‘

انھوں نے کہا کہ ’کچھ سالوں بعد مجھے پتہ چلا کہ دسمبر 2011 میں میرے عطیہ دیے گئے انڈے سے ایک بچی کی پیدائش ہوئی ہے۔ بچی کی پیدائش کا پتہ لگنے سے وہ مجرمانہ جذبات دور ہو گئے۔‘

ہینری نے ایک نئے ساتھی کے ساتھ اپنے بچوں کو جنم دیا ہے اور اپنے منجمد کیے گئے انڈوں کا استعمال نہیں کیا، جو اب ضائع ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں قدرتی طور پر اور بہت جلد حاملہ ہو گئی تھی اور میری پہلی بیٹی اس وقت ہوئی تھی جب میں 39 برس کی تھی اور گذشتہ دسمبر میرے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی اس وقت میں 44 سال کی تھی۔‘

Getty Imagesڈاکٹروں نے متنبہ کیا کہ اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں مزید آگاہی کی ضرورت ہے

ان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے دونوں بچوں کو بتاؤں گی کہ اس کی دنیا میں ان کی ایک جینیاتی بہن ہے۔ میری دعا ہے کہ میں ایک دن اس بچی کو دیکھوں۔ یہ میری آخری خواہشات میں سے ایک ہے۔‘

ٹی وی پریزینٹر اور پوڈ کاسٹر وکی پیٹیسن جو کہ برطانیہ کے علاقے ایسیکس میں رہتی ہیں، انھوں نے بھی یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ وہ ابھی بچے کے لیے تیار نہیں ہیں اپنے کچھ انڈے منجمد کیے ہیں۔

ان کے تین انڈے ان کے ساتھی کے سپرم کے ساتھ جنین میں تبدیل ہو گئے تھے، جس کے بارے میں انھیں بتایا گیا تھا کہ اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہونے کا 20 فیصد امکان ہے۔ انھوں نے غیر فرٹیلائزڈ تین انڈے بھی رکھے ہیں، جن کا 10 فیصد امکان ہے۔

اپنےعلاج کے دوران انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بارے میں مناسب، حقیقی اور درست معلومات نہیں ہیں۔‘

ایچ ایف ای اے نے کہا کہ اس عمل میں کامیابی کا انحصار انڈوں کو منجمد کرتے وقت عورت کی عمر پر ہے۔ 35 سال سے کم عمر میں انڈے منجمد کرنے والی خواتین میں کامیابی کی شرح زیادہ ہے۔

کنسلٹنٹ اور گائناکالوجسٹ باسل واٹر نے کہا کہ مریضوں کو آگاہ کرنے اور ان کی فرٹیلٹی کے سفر میں ان کی مدد کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے اس علاج کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں محدود عوامی آگاہی ہے جس میں یہ بتایا جا سکے کہ مستقبل میں خاندان شروع کرنے کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے اس کی بہترین منصوبہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More