بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اب اپنے ملک میں پیسے کیوں کم بھیج رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 25, 2023

Getty Images

’مجھے آج بھی اپنی فیملی کا اتنا ہی احساس ہے جتنا ایک سال پہلے تھا، لیکن اب مجھے زیادہ پیسے پاکستان بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں اب اگر دو، اڑھائی سو پاؤنڈز بھی بھیج دوں تو وہ تقریباًاتنے ہی پاکستانی روپے بنتے ہیں جتنے ایک سال پہلے چار سو پاؤنڈز بھیجنے پر بنتے تھے۔ پچھلے ایک سال میں پاکستانی روپے کی جتنی قدر گِری ہے اس نے میرے لیے چیزیں کچھ آسان کر دی ہیں اور میں اگر کم پاؤنڈز بھی بھیجوں تو پاکستان میں موجود میرے خاندان کا گزارہ چل جاتا ہے۔‘

عمر کریم گذشتہ چار سال سے برطانیہ میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور ماضی کی نسبت پاکستان میں موجود اپنے خاندان کو برطانیہ سے کم پیسے بھیجنے کی وجہ انھوں نے کچھ اس طرح بیان کی۔

عمر کریم کی ہی طرح محمد مظہر بھی پچھلے کچھ عرصے میں متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ہیں اور وہ بھی پاکستان میں موجود اپنے خاندان کی مالی کفالت کرتے ہیں۔مظہر بتاتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران انھوں نے پاکستان کمپیسے بھیجے ہیں کیونکہ پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی روپے کی دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں تنزلی جاری رہے گی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اگر تھوڑا مزید انتظار کر لیا جائے، تو زیادہ پیسے مل جائیںگے۔

’عمران خان کی حکومت کے جانے کے بعدجس طرح کے حالات رہے ہیں تومیرے جیسےبہت سے لوگ یہ سوچ کر بھی کم پیسے پاکستان بھیج رہے ہیں کہ ابھی روپیہ مزید گرے گا تو ایسے وقت میں پیسے بھیج کر اپنا نقصان کیوں کرنا۔ تھوڑا انتظار کرتے ہیں زیادہ پیسے ملیں گے۔‘

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت بظاہر جمود کا شکار ہے،آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، سٹیٹ بینک کے پاس موجود ڈالرز صرف ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں جبکہ جون 2023 کے اختتام تک پاکستان کو 3.7 ارب ڈالرز کی بیرونی ادائیگیاں بھیکرنی ہیں تو اسی دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھی پاکستان رقوم بھجوانے کے سلسلے میں کمی واقع ہوئی ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابقرواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں ترسیلات زر میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پچھلے مالی سال کے پہلے دس ماہ میں ترسیلات زر 26.1 ارب ڈالرز تھیں جو کہ رواں برس اسی دورانیے میں کم ہو کر 22.7 ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں یہ کمی آنے والے دنوں میں پاکستان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بیرون ملک مقیم پاکستانی اب ملک میں کم پیسے بھیج رہے ہیں؟

روپے کی ریکارڈتنزلی اور غیریقینی سیاسی صورتحالGetty Images

معاشی امورپر رپورٹنگ کرنے والے صحافیشہباز رانا سمجھتے ہیں کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے ناصرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے کم رقوم پاکستان بھیجی ہیں بلکہ روپے کی قدر کو لے کر جو بے یقینی ابھی بھی پائی جا رہی ہے وہ آنے والے دنوں میں بھی مزید مشکلات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

’بیرون ممالک مقیم پاکستانیگذشتہ چند مہینوں سے یہدیکھتے آ رہے ہیں کہ روپے کی قدر میں تنزلی کا سلسلہ لگاتار جاری ہے اور شنید یہی ہے کہ یہ سلسلہ مزید جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے وہ پیسہ پاکستان بھیجنے سے کترا رہے ہیں کیونکہ پیسے کی قدر کو لے کر بے یقینی کی صورتحال ابھی بھی برقرار ہے۔ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں میں روپے کی تنزلی کہاں جا کر رُکے گی اور بے یقینی کی یہی صورتحال ترسیلات زر میں کمی کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔‘

ڈاکٹر حفصہ حنا پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اُن کے مطابق معاشی صورتحال کے علاوہ ملک میں چھائی سیاسی بے یقینی بھی ترسیلات زر میں کمی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔

’بیرون ممالک مقیم پاکستانی پاکستان میں سرمایہ کاریکے لیے بھی پیسہ بھیجتے ہیں جس کا بڑا حصہ ریئل سٹیٹ مارکیٹ (پراپرٹی کا کاروبار) کو جاتا ہے۔لیکن گذشتہ ایک سال سے جس طرح کے سیاسی حالات ہیںتو مجھے لگتا ہے کہ بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے بیرون ملک پاکستانیوں نے یو اے ای جیسی دیگر مارکیٹس میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی ہے۔‘

اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹس میں فرقGetty Images

شہباز رانا کے مطابق اس وقت ترسیلات زر میں کمی کی ایک اور بڑی وجہ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کے ریٹ کا فرق بھی ہے۔

’پچھلے ایک سال کے دوران اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کے ریٹ میں کافی تفاوت رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ نے اپنے عہدے کا قلمدان سنبھالتے ہی ملک میں ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔ ایسے میں لوگ اپنے پیسے حوالہ اور ہنڈی سے ہی پاکستان بھیجنے لگے کیونکہ قانونی طریقے سے بھیجے گئے ڈالرز کے عوض انھیں وہ رقم نہیں مل رہی تھی جو ہنڈی حوالہ میں دستیاب تھی۔ یہی ایک وجہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے غیررسمی ذرائع سے بھیجی گئیں رقوم سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار میں نظر نہیں آئیں۔‘

اس بات کی تصدیق یو اے ای میں مقیم محمد مظہر نے بھی کچھ اس طرح کی کہ ایکسچینج ریٹ میں بڑے فرق کی وجہ سے وہپیسے حوالہ، ہنڈی سے پاکستانبھیجتے رہے ہیں۔ ’ظاہر سی بات ہے کہاوپن مارکیٹ میں پیسے اچھے مل رہے ہوتے ہیں اسی لیے حوالہ، ہنڈی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پردیس میں سارا سارا دن محنت کر کے اپنا نقصان کون چاہے گا؟‘

حمزہ خان کراچی میں رہتے ہیں اور بطور فری لانسر کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ جو بھی کام کر رہے ہوتے تھے اس کے سارے پیسے ڈالرز کی صورت میں ان کے پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں آتے تھے، لیکن اب انھوں نے اپنی کمپنی یو اے ای میں رجسٹر کروا لی ہے اور ان کی ساری ادائیگیاں وہاں کے بینک اکاؤنٹ میں آ رہی ہیں جس میں سے وہ صرف اپنی ضرورت کے لیے کچھ پیسے ہی پاکستانی اکاؤنٹ میں منتقل کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پچھلے سال تک میں جو بھی کام بطور فری لانسر کر رہا تھا اس کی ادائیگی ڈالرز کی صورت میں پاکستانی بینک میں منگوا رہا تھا جس کا مجھے نقصان ہو رہا تھا۔ پاکستان میں انٹر بینک ڈالر ریٹ مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا جا رہا تھا اور مجھے ڈالر کا اصل ریٹ نہیں مل رہا تھا۔‘

’دوسرا بطور فری لانسر میرا سارا خرچہ ڈالرز میں ہے۔ میں نےاپنے کام کے لیے بہت سی سبسکرپشنز لی ہوئی ہیں جن کی ادائیگی ڈالرز میں ہوتی ہے۔ میں کام کے سلسلے میں باہر جاتا ہوں تو ساری ادائیگیاں ڈالرز میں کرتا ہوں۔پاکستانی بینک سے ڈالر کے مقابلے میں پیسے لیتے وقت بھی میرا ہی نقصان ہوتا تھا اور ادائیگیاں کرتےوقت بھی میرا ہی نقصان ہوتا تھا۔ تو اس لیے اب میں اپنے سارے پیسے پاکستان لا ہی نہیں رہا۔‘

دوسری طرف محمد مظہر کے مطابق صرفڈالر کے ریٹ کا فرق ہی حوالہ ہنڈی کی وجہ نہیں ہے بلکہ پاکستانی بینکنگ چینلز سے پیسے بھیجنے کے لیےدستاویزی ضروریات بھی حوالہ ہنڈی کے استعمال کی وجہ ہیں۔

’حوالہ، ہنڈی میں کسی قسم کیاُن دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتیجن کی بینکنگ چینلز سے پاکستان پیسے بھیجنے کے لیے ہوتی ہے ۔ دوسرا اگر آپ حوالہ، ہنڈی سے پیسے پاکستان بھیجیں توپیسے گھر والوں کو فوراً مل جاتے ہیں جبکہ بینک توپیسے دینے میں ٹائم لگاتے ہیں۔‘

خلیجی ممالک میں پاکستانی ورکرز کی تعداد میں کمی

پچھلے مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے مقابلے میں اس سال ترسیلات زر 3.4 ارب ڈالرز کم رہی ہیں،اور اس کمی میں سب سے زیادہ حصہ مڈل ایسٹ یعنی سودی عرب اور یو ای اے سے بھیجی جانے والی رقوم کا ہے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس گذشتہ سال کے مقابلے میں ان ممالک سے بھیجی جانے والے رقوم 2.5 ارب ڈالرز کم رہیں۔

ڈاکٹر حفصہ حنا کے مطابق یہ بات درست ہے کہ ان ممالک سےلوگ ایکسچینج ریٹ اور بینکنگ پرپروسیجرز کی وجہ سے حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیج رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کورونا وبا کے بعد یو اے ای اور سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد کتنی ہے؟

’کورونا وبا سے پہلے سال 2019 میں ان ممالک میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھکے قریب پاکستانی ورکرز کام کر رہے تھے، لیکن عالمی وبا کے باعث جب دنیا بھر میں روزگار کے مواقعوں میں کمی آئی تو بہت سے پاکستانی بھی نوکریاں ختم ہونے کے باعث وطن واپس آگئے تھے۔اور رواں برس اپریل میں یہ تعداد ایک لاکھ بہتر ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ترسیلات زر میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘

Getty Imagesکیا عالمی حالات بھی اس کے ذمہ دار ہیں؟

یوکرین اور روس کی جنگ کی وجہ سے ساری دنیا میں مہنگائی کی ایک لہر دیکھنے کو ملی تو کیا یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے اس سال کم پیسے پاکستان بھیجے ہیں؟

ڈاکٹر حفصہ حناسمجھتی ہیں کہ ’جس طرح کی مہنگائی ان ممالک نے اس سال دیکھی ہے اس کا بھی لازمی طور پر ترسیلات زر کم ہونے میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کا 50 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہےاور ظاہری سی بات ہے وہاں مقیم پاکستانیوں کو اپنے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے، اور اسی وجہ سے برطانیہ اور یورپی یونین سے ترسیلات زر میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔‘

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ اور یورپی یونین سے پاکستان آنے والی ترسیلات زر میں تقریباً پانچ سو ملین ڈالرز کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق رواں برس مارچ اور اپریل کے مہینوں میں بیرون ملک سے ترسیلات زر میں پچھلے چند ماہ کے مقابلے میں حوصلہ افزا اضافہ نظر آ رہا ہے،لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کیا یہ رجحان مستقل بنیادوں پر جاری رہتا ہے یا یہ اضافہ صرف عید الفطر کے تہوار کی وجہ سے ہوا تھا۔

ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ اس وقت جس طرح کے پاکستان کے معاشی حالات ہیں پاکستان کے لیے ایک ایک ڈالر بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہملکی خزانے میں صرف چار ارب 38 کروڑ ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں دو ماہ میں تین ارب 70 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں۔ ایسے میں ترسیلاتِ زر میں کمی سے پاکستان کو ان ادائیگیوں کو یقینی بنانے اور تجارتی خسارہ پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیےحکومت کو ناصرف حوالہ، ہنڈی کے متعلق کام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ سیاسی استحکام لانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاشی استحکام کےساتھ ساتھ روپے کی قدر میں بھی استحکام آے جس سے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال ہو اور ترسیلات زر میں اضافہ ہو سکے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More