Getty Images
سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے معاملے پر ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر الجھن کا شکار نظر آتی ہے۔
گذشتہ ہفتے عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر ایک طویل پیغام میں یہ اعلان کیا گیا کہ پانچ اگست سے پی ٹی آئی ملک گیر احتجاج کا آغاز کرے گی۔
عمران خان کے پیغام میں لکھا گیا کہ ’پانچ اگست کو میری ناحق قید کو پورے دو برس مکمل ہو جائیں گے۔ اسی روز ہماری ملک گیر احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج ہوگا۔‘
اس پیغام میں مزید لکھا گیا کہ ’اب کسی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ صرف اور صرف سڑکوں پر احتجاج ہو گا تاکہ قوم زبردستی کے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کرے۔‘
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر یہ اعلان آٹھ جولائی کو کیا گیا تاہم اس کے صرف چار روز بعد یعنی 12 جولائی کو اچانک ہی پی ٹی آئی رہنما اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ تحریک 90 روز پر مشتمل ہو گی۔
تاہم سنیچر کو اسلام آباد میں مختصر اجلاس کے بعد علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے متعدد سینیئر قائدین اچانک لاہور پہنچ گئے۔ لاہور روانگی سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ احتجاجی تحریک سے متعلق اعلان عمران خان خود کریں گے۔
لیکن لاہور پہنچنے پر علی امین گنڈاپور نے پارٹی کارکُنان اور ممبران صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی رہائی سے متعلق کہا کہ ’90 دن کے اندر یا تو ہم عمران خان کو رہا کروائیں گے یا سیاست چھوڑ دیں گے۔‘
اس اعلان کے بعد عمران خان کی رہائی کے لیے یہ تحریک نہ صرف متنازع بنتی نظر آ رہی ہے بلکہ اس سے پارٹی کے اندر موجود اختلافات کا بھی اشارہ ملتا ہے۔
بی بی سی نے پی ٹی آئی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں سے بات کر کے اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور نے کیا اعلان کیا اور اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ کیوں جاری ہے۔
علی امین نے اعلان میں کیا کہا؟
وزیر اعلی علی امین گنڈا پور نے اتوار کے روز لاہور میں اپنی جماعت کے مرکزی چیئرمینبیرسٹر گوہر اور جماعت کے صوبائی صدر جنید اکبر کی موجودگی میں 90 روزہ تحریک کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے وقت جماعت کی مرکزی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ موجود نہیں تھیں۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے واضح بتایا ہوا ہے کہ فیصلہ سازوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ جن کے پاس اختیارات نہیں ان سے کیا بات ہو سکتی ہے؟‘
انھوں نے نئی احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’90 دن کے اندر یا تو ہم عمران خان کو رہا کروائیں گے یا پھر سیاست چھوڑ دیں گے۔‘
اتوار کو لاہور میں پی ٹی آئی کے دیگر قائدین کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’ہماری تحریک کا اعلان عمران خان نے کیا اور وہ خود اس کی قیادت کریں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’90 دن کل رات سے شروع ہو گئے ہیں اور ان 90 دن میں ہم آر یا پار کریں گے۔‘
پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟عمران خان کے بیٹوں کی گرفتاری سے متعلق بیان پر جمائما کا ردعمل: ’یہ سیاست نہیں، ذاتی دشمنی ہے‘حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات: ’عمران خان کی رہائی آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے پہلا نہیں‘عمران خان کی رہائی کا مطالبہ ’دہرانے‘ پر جیک برگمین کو پی ٹی آئی رہنماؤں کے ملے جلے تبصروں کا سامنا’تحریک کا اعلان کرنا علی امین کا نہیں بلکہ پارٹی کا کام تھا‘
اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر جنید اکبر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے مختصر بات چیت کرتے ہوئے اتنا کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ 90 روزہ تحریک کا مشورہ کس نے دیا اور اس کا فیصلہ کب ہوا۔
جنید اکبر نے کہا کہ انھیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں اور ناں ہی وہ اس بارے میں کوئی بات کر سکتے ہیں۔
ان سے جب کہا گیا کہ وہ تو اس پریس کانفرنس میں موجود تھے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ نہ جاتے تو سب کہتے کہ جماعت میں اتحاد نہیں اور یہ سب تقسیم ہیں اس لیے وہ ان کے ساتھ گئے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’صوبائی صدر کی حیثیت سے وہ یہ کہتے ہیں کہ انھیں اس تحریک کے اعلان کا علم نہیں لیکن اس بارے میں اگر بات کرنی ہے تو ان سے کریں جنھوں نے یہ اعلان کیا۔‘
اس بارے میں پی ٹی آئی کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’ویسے تو میرے تک پہنچنے والی کچھ اطلاعات کے مطابق میں پچھلے دو دن سے مصروف تھی، ایسی مصروفیات جن کا شاید مجھے بھی علم نہیں تھا، کیا کوئی اس پر روشنی ڈالے گا؟‘
عالیہ حمزہ نے مزید لکھا کہ ’عمران خان کی رہائی کے لیے کس لائحہ عمل کا کل یا آج اعلان ہوا؟ تحریک کہاں سے اور کیسے چلے گی؟ 5 اگست کے مقابلے میں 90 دن کا پلان کہاں سے آیا؟ اگر آپ میں سے کسی کی نظر سے گزرا ہو تو میری بھی رہنمائی کر دیں۔‘
اس بارے میں جماعت کے سینیئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا وہ خود بھی حیران ہیں کہ اتنے بڑے اجتماع کی عالیہ حمزہ کو اطلاع نہیں دی گئی۔
https://twitter.com/aliya_hamza/status/1944364430533296299
انھوں نے کہا کہ اس تحریک کا اعلان کرنا علی امین کا نہیں بلکہ جماعت کا کام تھا اور اس میں مرکزی چیئرمین اور صوبائی صدر موجود تھے تو علی امین نے یہ اعلان کیسے کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں تنظیمی سطح پر بات چیت ہونی چاہیے تھی اور باقاعدہ اعلان ہونا چاہیے تھا۔
شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ بہرحال یہ مسئلہ اب حل ہو گیا ہے اور عالیہ حمزہ سے رابطہ کر کے ان کے تحفظات دور کر دیے گئے ہیں۔
تاہم شوکت یوسفزئی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 90 روزہ تحریک کا غلط مطلب لیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علی امین نے واضح کیا کہ تحریک کا آعاز سنیچر سے ہو گیا، جب وہ اسلام آباد سے روانہ ہوئے اور پانچ اگست کو یہ تحریک اپنے عروج پر ہو گی لیکن انھوں نے مزید کہا کہ یہ تحریک 90 روز تک جاری رہے گی۔
شوکت یوسفزئی نے مزید کہا کہ یہ سیاسی جدوجہد ہے جو ایک یا دو دن کی نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلسل جدوجہد ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پانچ اگست کی تاریخ کا اعلان جو عمران خان نے کیا، اس دن ہر ضلع اور ہر سطح پر احتجاج اور ریلیاں منعقد کی جائیں گی اور اس تحریک کو جاری رکھا جائے گا۔
’علی امین نے یہ تاثر دیا کہ وہ تحریک کو لیڈ کر سکتے ہیں‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہ کہ اس ریلی سے علی امین نے فائدہ حاصل کیا۔
’علی امیننے تاثر دیا کہ وہ قائدین کو ساتھ لے کر لاہور جا سکتے ہیں اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ تحریک چلا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تاثر بھی دیا کہ اگر جماعت کے اندر کوئی تحریک لیڈ کر سکتا ہے تو وہ علی امین ہیں اور ان میں یہ صلاحیت ہے اور وہ یہ پیغام جماعت کے اندر قائدین اور کارکنوں کو دینے میں کامیاب ہوئے۔‘
علی اکبر نے کہا کہ ’گنڈا پور نے 90 دن کا وقت دے کر یہ تاثر بھی دیا کہ تحریک فوری طور پر شروع نہیں کی جا سکتی اور یہ کہ اس میں ابھی وقت ہے۔ اس سے علی امین نے اپنے لیے مزید سپیس یا وقت حاصل کیا۔‘
پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات کے حوالے سے تجزیہ کار علی اکبر کا کہنا تھا کہ علی امین پر تنقید تو شروع دن سے ہوتی رہی ہے اور جماعت کے اندر پہلے چھپ چھپ اور دبے الفاظ میں تنقید کی جاتی رہی لیکن اب تو جماعت کے اندر سے کھل کر تنقید کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لیکن جب تک علی امین وزیر اعلی کے عہدے پر موجود ہیں وہ اپنی پوزیشن سمجھتے ہیں۔
اگرچہ اب تک پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی لیکن سنیچر کے روز اسلام آباد میں مختصر اجلاس کے بعد تمام قائدین اور منتخب اراکین لاہور بغیر کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے پہنچ گئے تھے۔
اس بارے میں مختلف رائے سامنے آئی ہیں جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی قائدین نے متعلقہ حکام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کا یہ اجلاس پر امن ہو گا اور اس میں مخالف سیاسی رہنماؤں کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں ہو گی ۔
اس بارے میں علی اکبر نے کہا کہ اس پریس کانفرنس میں علی امین گنڈا پور نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ پر امن رہیں گے اور کوئی توڑ پھوڑ یا ایسا رویہ نہیں ہو گا اوریہ ایسا پیغام تھا کہ وہ اگر آگے چل کر کہیں کوئی احتجاج یا ریلی نکالتے ہیں تو اس میں ان کے لیے رکاوٹ نہیں ہو گی اور اگر وہ مینار پاکستان یا کراچی میں کہیں احتجاج کرتے ہیں تو انھیں اجازت دی جا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لاہور جا کر پریس کانفرنس اور پاور شو سے علی امین یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ وہ کہیں بھی جا کر احتجاج کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات اور رویے میں تبدیلی: علی امین گنڈاپور کی ’سافٹ ٹون‘ کی وجہ کوئی ’مجبوری‘ ہے؟پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟عمران خان کے بیٹوں کی گرفتاری سے متعلق بیان پر جمائما کا ردعمل: ’یہ سیاست نہیں، ذاتی دشمنی ہے‘حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات: ’عمران خان کی رہائی آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے پہلا نہیں‘عمران خان کی رہائی کا مطالبہ ’دہرانے‘ پر جیک برگمین کو پی ٹی آئی رہنماؤں کے ملے جلے تبصروں کا سامنا