انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات میں ایک ایسی امیدوار کامیاب ہوئی ہیں جو کہ الیکشن کے کئی روز پہلے ہی وفات پا گئی تھیں۔
25 سالہ آسیہ پروین نے امروہا ضلع میں خواتین کے لیے مخصوص وارڈ کی ایک نشست پر آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا۔ لیکن 4 مئی کو انتخابات ہونے سے دو ہفتے پہلے وہ پھیپھڑوں اور پیٹ میں شدید انفیکشن کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ ان کے وارڈ میں تقریباً 2000 ووٹ ہیں اور وہ پہلی بار سیاسی میدان میں آئی تھیں۔ وہ 300 سے زیادہ ووٹوں سے فتح یاب ہوئیں۔
اگرچہ انڈیا میں اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں اگر کوئی امیدوار انتخابات سے پہلے وفات پا جاتا ہے تو انتخابی عمل منسوخ کر دیا جاتا ہے اور انتخابات کے پورے عمل کو نئے سرے سے دوبارہ کیا جاتا ہے۔ لیکن بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ نہیں روکی جاتی ہے حالانکہ بعد میں انتخابات کے عمل کو نئے سرے سے منعقد کیا جاتا ہے۔
ضلع بجنور کے حسن پور میں واقع ان کے وارڈ کے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے انکی وفات کے بارے میں معلوم ہوتے ہوئے بھی ووٹ دیا کیوں کہ وہ ان سے اپنا وعدہ نبھانا چاہتے تھے۔
ان کے پڑوسی عارف کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا سلوک ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ہمارے ووٹ انھیں خراج عقیدت کے طور پر پڑے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی موت سے انھیں بہت بڑا دھکا لگا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انکا لوگوں سے حساب کتاب اچھا تھا چاہے وہ کسی برادری سے ہوں۔‘
انڈیا کے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ خاتون امیدوار کے نام پر ان کے شوہر ووٹ کے لیے اپیل کرتے ہیں۔ انکے کیس میں بھی انتخابی پوسٹروں پر ان کے شوہر کی تصویر نمایاں تھی، جس میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ وہ ایک وکیل ہے۔ت سب سے اہم ہے اور اس کی تمام 17 سیٹوں پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔
ان کے شوہر منتب احمد کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے عوام کی خدمت کے لیے سیاست کا راستہ چنا۔ وہ لوگوں کے درمیان گئیں اور اپنے رویے سے ان کا اعتماد اور یقین جیتا‘۔
ان کے شوہر نے انتخابی حکام کو آسیہ کی موت کے بارے میں مطلع کیا لیکن ضلعی افسر بھگوان شرن نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے پاس بیلٹ سے ان کا نام ہٹانے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا۔
شرن نے کہا کہ ’ایک بار انتخابی عمل شروع ہو جائے تو اسے روکا یا روکا نہیں جا سکتا‘۔
حسن پور کے ڈی ایس ایم اشوک کمار کا کہنا ہے کہ حالانکہ آسیہ کی موت انتخابات سے قبل ہوئی تھی لیکن انتخابات ملتوی نہیں کئے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں نے آسیہ کو ووٹ دیا۔ وہ فتح یاب ہوئیں۔ لیکن ہم قوانین پر عمل کریں گے۔ آنے والے دنوں میں اس عہدے کے لیے دوبارہ انتخاب کرایا جائے گا‘۔
ان انتخابات کے لیے ووٹنگ 4 اور 11 مئی کو دو مرحلوں میں ہوئی تھی جس میں 4.32 کروڑ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا یعنی صرف 52 فیصد ووٹروں نے اس میں حصہ لیا تھا۔
وارڈ سیٹوں کے علاوہ ان انتخابات میں سترہ میئر اور 1401 کارپوریٹر منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں میئر کی نشس