لوگ اونٹ گاڑی پر سفر کرتے اور صفائی دیکھ کر یوں لگتا کہ جیسے پاکستان نہیں بلکہ کسی انگریز ملک میں انسان چل پھر رہا ہو۔ جی ہاں یہ ہم یہاں کسی اور شہر کی نہیں بلکہ پاکستان کے دل کراچی کی بات کر رہے ہیں۔
جسے آج بد حال دیکھ کر بچے اور نوجوان سمجھتے ہیں کہ شاید یہ شہر شروع سے ہی ایسا ہے پر یہ حقیقت نہیں، آئیے دیکھتے ہیں 1960 میں یہ شہر کتنا خوبصورت تھا۔
انگریزوں سے آزادی کے بعد اتنی تیزی سے ترقی دیکھ کر آج تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جیسا کہ مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑے بڑے سفید رنگ کے عالی شان ہوٹل شہر میں موجود ہیں جن کے باہر سے عام آدمی بھی آرام و سکون سے آ جا رہا ہے بلکہ ایک غریب تو اپنی اونٹ گاڑی پر سفر کر رہا ہے۔
اونٹ گاڑی کی بات ہے تو آپکو بتاتے چلیں کہ 1960 میں کراچی میں غریب آدمی اونٹ گاڑی پر سفر بھی کرتا اور مزدوری کیلئے بھی اسے ہی استعمال کرتا ۔ مڈل کلاس آدمی اپنی اپنی نوکریوں پر جانے کیلئے سہراب سائیکل کا خوب استعمال کرتے تھے اور یوں فخر سے جاتے تھے جیسے کوئی بہت بڑی نعمت حاصل کر لی ہو ۔
جبکہ موٹر سائیکل، ویسپا تو 100 فیصد میں سے 5 فیصد لوگوں کے پاس ہوتا تھا رہی بات کاروں کی تو وہ تو لینا آج کی طرح ہر کسی کے بس کی بات ہی نہیں تھی، سڑکوں پر فراٹے بھرتی، چمچماتی گاڑیاں صرف بڑے کاروباری لوگوں یا پھر سرکاری افسران کے پاس ہی ہوا کرتی تھیں۔
کراچی میں صدر کے مقام سے لوگوں کو شادی بیاہ، یا پھر عام استعمال کیلئے انتہائی سستے داموں زیورات مل جاتے۔
مزید یہ کہ ایمپریس مارکیٹ ہو یا فیرئیر ہال سب ہی عمارتیں کمال لگتی تھیں ۔ یہاں آخر میں آپکو بتاتے چلیں کہ روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کی عوام آج کی طرح ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر نہیں بلکہ تیز رفتار اور صاف ستھری ہلکے نیلے اور سفید رنگ کی بسوں اور ٹرامپ میں سفر کیا کرتے تھے ۔عزات سے آیا جایا کرتے تھے۔