Getty Images
انڈیا میں افغانستان کے سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سفارت خانے کی قیادت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور فرید ماموندزی انڈیا میں افغانستان کے واحد سفیر ہیں۔
ایک شخص نے نئی دہلی میں افغانستان کے سفارت خانے کا انچارج ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ پیر کو سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں ان دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
https://twitter.com/TOLOnews/status/1657692028346548225?s=20
سارا معاملہ ہے کیا؟
اتوار کو افغانستان کے مقامی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ انڈیا میں مقیم کچھ افغان شہریوں نے نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں مبینہ بدعنوانی کے حوالے سے افغانستان کی وزارت خارجہ کو خط لکھا ہے۔
میڈیا میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ کابل میں موجودہ سفیر فرید ماموندزی کو واپس بلانے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے اور قادر شاہ جو پہلے ہی نئی دہلی میں بطور ٹریڈ کونسلر کام کر رہے ہیں کو قائم مقام سفیر بنا دیا گیا ہے۔
افغانستان کے طلوع نیوز نے بھی یہ خط شائع کیا۔
پیر کو جاری ہونے والے بیان میں ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’جو شخص طالبان کا ’قائم قام سفیر‘ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ غلط معلومات پھیلانے، مشن کے اہلکاروں کے خلاف بے بنیاد مہم چلانے کا ذمہ دار ہے۔‘ ان الزامات میں مشن میں بدعنوانی کے الزامات بھی شامل ہیں۔
https://twitter.com/bashirgwakh/status/1658135562656661510?s=20
بیان میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کے الزامات یک طرفہ، جانبدارانہ اور جھوٹے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ افغانستان کے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ انڈیا میں ان کے مفاد کے لیے معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے۔
فرید ماموندزی 2020 سے انڈیا میں افغانستان کے سفیر ہیں۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ قادر شاہ صحیح ہیں یافرید ماموندزی۔
بی بی سی نے دونوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے بھی کال یا پیغامات کا جواب نہیں دیا۔ لیکن یہ صرف دو دعوؤں کی بات نہیں ہے۔
انڈیاسے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار نے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ گذشتہ 25 اپریل کو افغانستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے دو احکامات جاری کیے گئے تھے۔ ایک میں موجودہ سفیر فرید ماموندزی کو کابل واپس بلانے کا حکم دیا گیا جبکہ اسی روز جاری ہونے والے دوسرے حکم نامے میں موجودہ تجارتی کونسلر قادر شاہ کو قائم مقام سفیر بنایا گیا۔
https://twitter.com/FMamundzay/status/1658156013105868802?s=20
90 کی دہائی میں بھی ایسا ہی ہوا تھا
انڈین وزارت خارجہ نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا ہے۔ اخبار دی ہندو کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک سفارت خانے میں کسی تبدیلی کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
قادر شاہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ پرانی حکومت یعنی اشرف غنی کی حکومت کے دوران انڈیا آئے تھے اور وہ افغانستان کی وزارت خارجہ کے اہلکار ہیں۔
سابق انڈین سفارت کار انیل تریگنیت کا کہنا ہے کہ ایسا 90 کی دہائی میں بھی ہوا تھا۔
اس دوران پہلے نجیب اللہ کی حکومت کو مجاہدین نے ہٹایا اور پھر طالبان نے مجاہدین کی حکومت کا خاتمہ کیا۔
تریگنائیت کے مطابق اس وقت بہت سے ممالک میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ افغانستان کے سفارت خانے میں تعینات افراد آپس میں بٹ گئے تھے اور ان ممالک کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ نجیب اللہ یا مجاہدین یا طالبان کی حمایت یافتہ امیدوار کو عہدیدار تصور کیا جائے۔
انیل تریگنیات کے مطابق قادر شاہ کو چارج ڈے افیئرز بنایا جا سکتا ہے، اس کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے افغانستان کی حکومت کابل میں واقع انڈیا کے ٹیکنیکل مشن کو معلومات دے سکتی ہے اور انڈیا اسے تسلیم کر سکتا ہے۔
طالبان نے اپریل 2022 میں چین اور روس میں یہی کیا تھا۔ طالبان نے نئے عہدیدار کو قائم مقام سفیر بنایا تھا جس کے بعد اس وقت کے سفیر نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
طالبان کے حمایت یافتہ سفارت کار پاکستان، ایران اور ازبکستان میں سفارت خانے بھی سنبھال رہے ہیں۔ جبکہ 60 سے زائد ممالک میں افغانستان کے سفارت خانے بند ہیں کیونکہ وہاں تعینات سفیروں نے طالبان کی طاقت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ان کے پاس سفارت خانہ چلانے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیے
افغان طالبان کون ہیں: طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی داستان
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد انڈیا کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟
انڈین صحافی دانش صدیقی کی ہلاکت پر سپن بولدک کے مقامی لوگوں اور طالبان کا کیا کہنا ہے؟
طالبان سے تعلقات بہتر ہونے کا اشارہ؟
کچھ افراد کہہ رہے ہیں کہ اگر انڈیا طالبان کو تسلیم کرتا ہے اور نئی دہلی میں سفارت خانے کی تبدیلی کو قبول کرتا ہے تو اسے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی طرف ایک قدم سمجھا جا سکتا ہے۔
اس پر انیل تریگنایت کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک طالبان کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’دوحہ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی حالیہ کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ طالبان کے ساتھ قابل عمل تعلقات کو برقرار رکھا جائے۔ انڈیا نے اپنا ایک تکنیکی مشن بھی کھولا ہے، جس کی نگرانی قونصلر سطح کا ایک افسر کرے گا۔‘
Getty Imagesانڈیا افغانستان تعلقات
انڈیا اور افغانستان کے درمیان تاریخی تعلقات قائم رہے ہیں۔ سنہ 1947 تک انڈیا کی سرحد افغانستان سے ملحق تھی۔
90 کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں آئے تو انڈیا نے انھیں تسلیم نہیں کیا۔ لیکن 2001 میں 9/11 کے حملوں کے بعد امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوئی اور طالبان اقتدار سے محروم ہوگئے۔
انڈیا نے اس عرصے کے دوران ایک بار پھر افغانستان میں اپنی موجودگی یقینی بنائی اور اس مقصد سے گذشتہ 20 سالوں میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔
تریگنیت کے مطابق انڈیا انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مسلسل مدد کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان نے انڈیا پر زور دیا ہے کہ وہ ان منصوبوں کو دوبارہ شروع کرے جو افغانستان میں روک دیے گئے ہیں۔ لیکن جب تک وہاں سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہوتی، انڈیا وہاں کام دوبارہ شروع نہیں کر سکتا۔‘
Getty Imagesکیا انڈیا طالبان کی حکومت تسلیم کر لے گا؟
انیل تریگنیت کے مطابق فی الحال طالبان کو سرکاری طور پر قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس کی ایک خاص وجہ بتاتے ہوئے تریگنیت کا کہنا ہے کہ ’جب امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی گئی اور طالبان نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا صدر تھا، یہ قرارداد خود انڈیا کی صدارت میں پاس ہوئی تھی۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس تجویز میں طالبان کے لیے جو شرائط عائد کی گئی تھیں وہ پوری نہیں کی گئیں۔ طالبان کے بارے میں انڈیا کا نقطہ نظر وہی ہے جو دنیا کے دیگر ممالک کا ہے۔‘