BBCنیمیش لاما کو بھی اپنے کالج جانے کے لیے اس راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہ کہتے ہیں لائبریری کا آئیڈیا انھیں اس راستے سے گزرتے ہوئے آیا
صبح کے ساڑھے نو بجے ہیں۔ درجنوں بچے، نو عمر لڑکے لڑکیاں بڑے بڑے کاٹن، جن میں کتابیں ہیں، اٹھائے گاؤں کے نواح میں ایک میدان میں ایک پرانے سایہ دار درخت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کچھ دیر میں یہ درخت ایک لائبریری میں بدلنے والا ہے۔
ویسٹ بنگال انڈیا کے بیس دھورا اور گودام دھورا دیہات کے درمیان ایک میدان میں یہ درخت اتوار کے روز ’ٹری لائبریری‘ بن جاتا ہے۔ درخت کے موٹے تنے کے چاروں طرف کتابیں سجائی جاتی ہیں۔ درخت کی شاخوں سے لٹکی ہوئی چھوٹی چھوٹی الماریوں میں بچوں کے لیے کتابیں رکھی جاتی ہیں۔
کلچینی بلاک میں یورپین کلب گراؤنڈ میں سو سال پرانے اس درخت میں یہ ایک انوکھی لائبریری ہے۔ یہ درخت ایک ایسے مقام پر ہے، جہاں سے کئی گاؤں کا راستہ گزرتا ہے۔
نیمیش لاما کو بھی اپنے کالج جانے کے لیے اس راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ لائبریری کا آئیڈیا انھیں اس راستے سے گزرتے ہوئے آیا۔
’یہاں درخت کے نیچے جواری، شرابی اور اسی طرح کے دوسرے لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ یہاں جوئے اور شراب پینے کے لیے جمع ہو سکتے ہیں تو اچھے کام کے لیے بھی جمع ہو سکتے ہیں۔ مارچ 2022 میں مجھے یہاں لائبریری کھولنے کا آئیڈیا آیا۔ میں نے یہ آئیڈیا دوستوں سے شیئر کیا اور ان کی مدد سے یہ لائبریری بنائی گئی جو تب سے چل رہی ہے۔‘
BBC یہ درخت ایک ایسے مقام پر ہے، جہاں سے کئی گاؤں کا راستہ گزرتا ہے
درخت کے تنے میں کتابیں لگانے بعد یہاں پڑھائی کا آغاز میوزک پروگرام اور کوئز سے کیا جاتا ہے۔ آرٹ اور پینٹنگز کا بھی پروگرام ہوتا ہے۔ کتابیں پڑھنے، شعر و شاعری اور سٹوری ٹیلنگ کے الگ الگ سیشن ہوتے ہیں۔
نوعمر پرتتیکشا وشوکرما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں گھر پر بھی پڑھتی تھی لیکن یہاں آ کر ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ الگ الگ سیشنز میں حصہ لینے کا مزہ ہی کچھاو ہے۔ پڑھائی کا یہ انوکھا احساس ہے۔ یہاں آنے کے بعد میرا خود کچھ لکھنے کا دل کرتا ہے۔‘
لائبریری کے منتظم نیمیش لاما نے بتایا کہ یہاں لوگ رقص و موسیقی اور اپنے فن مصوری کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا مقصد پڑھائی کے ساتھ ساتھ آرٹ اور کلچر میں بھی دلچسپی پیدا کرنا ہے۔
نیمیش بتاتے ہیں کہ لوگ یہاں رکھی کتابیں اپنے گھر بھی لے کر جا سکتے ہیں۔ اس کا اندراج ایک رجسٹر میں ہوتا ہے اور کتاب ایک ہفتے بعد لوٹانا لازمی ہے۔
BBCجب یہ لائبریری شروع ہوئی تھی تو یہاں صرف وہی 20- 25 کتابیں رکھی گئی تھیں جو نیمیش لاما کے پاس تھیں
ہہاں آنے والے نو عمر طلبا وطالبات بہت خوش ہیں۔ ایک طالبہ سنیہا شرما نے بی بی سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہاں آنا بہت ضروری ہے۔ یہاں سب کو یکساں نظریے سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے مجھے یہاں آنا بہت اچھا لگا۔ یہ لائبریری لوگوں کے آئیڈیاز کا اہم مرکز ہے۔‘
ایک اور سٹوڈنٹ پرتیک پردھان نے بتایا کہ ’میں پہلے بہت زیادہ گیمز کھیلتا تھا۔ وہ عادت چھوڑنے کے لیے میں نے یہاں آنا شروع کیا۔ اس لائبریری میں آنے اور دوسرے طلبہ سے ملنے کے بعد مجھ میں پڑھائی کا رجحان بڑھ گیا اور اب میں پہلے سے زیادہ پڑھائی کر رہا ہوں۔‘
جب یہ لائبریری شروع ہوئی تھی تو یہاں صرف وہی 20- 25 کتابیں رکھی گئی تھیں، جو نیمیش لاما کے پاس تھیں۔
BBCاس درخت کے نیچے پڑھائی کا آغازمیوزک پروگرام اور کوئز سے کیا جاتا ہے
نیمیش نے بتایا کہ ’جب ہم نے اس لائبریری کی تصویریں فیس بک اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کیں تو لوگوں نے کتابیں بھیج کر مدد کی۔ اب دور دراز کی ریاستوں سے بھی ہمیں کتابیں مل رہی ہیں۔‘
نیمیش کے ساتھی ریحان رضا شاہ نے بتایا کہ ’یہاں ہر اتوار کو سو ڈیڑھ سو لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہ بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں کا ماحول بہت خوبصورت ہوتا ہے۔‘
درخت کے سائے میں جگہ جگہ سٹوڈنٹس، گروپ میں بیٹھے کتابوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کہیں کہیں آپس میں بحث و مباحثے بھی ہو رہے ہیں۔ ٹری لائبریری نے پڑھائی کے سنجیدہ عمل کو دلچسپ اور آسان بنا دیا ہے۔
نیمیش لاما کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ جس جگہ کو لوگوں نے جوئے اور شراب نوشی کا اڈہ بنا دیا تھا، آج اسی درخت کے نرم سائے میں لوگ پڑھائی کر رہے ہیں۔