جب وہ اپنی زچگی کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ان کے چہرے پر خوشی چھا جاتی ہے۔
ماریہ باراؤ کے چہرے پر مسکراہٹ ہے اور انھوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’میں بہت خوش ہوں کہ اب جو مجھ سے اس حوالےسے بات کرتا ہے تو میں ہر ایک کو یہ بتاتی ہوں کہ میرے بیٹے کی وجہ سے میری زندگی میں اچھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔‘
ایکٹسریمادورا سے تعلق رکھنے والی ماریہ، جو سات برس تک سویل میں مقیم رہیں جب 45 سال کی عمر کے بعد ماں بننے کے اپنے فیصلے پر بات کرتی ہیں تو ان کے پاس اس حوالے سے صرف اچھے الفاظ ہیں۔ ان کی رائے میں یہ ان کی زندگی کا ایک خاص لمحہ تھا۔
قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق وہ ان 1,652 خواتین میں سے ایک ہیں جو 2021 میں سپین میں 45 سال سے زیادہ عمر میں مائیں بنیں۔
یورپی یونین کی طرف سے تیار کردہ ایک مطالعہ کے مطابق سپین یورپی ملک بھی ہے جہاں 40 سال سے زیادہ عمر کی ماؤں کی شرح9.9 فیصد ہے جو سب سے زیادہ ہے۔ یہ شرح سلوواکیہ میں 3.2 فیصد، ڈنمارک اور بیلجیم میں چار فیصد ہے۔
معاون تولیدی تکنیک اور بیضہ کو منجمد کرنے اور عطیہ کرنے میں پیشرفت، جو کہ سپین جیسے بہت سے ممالک میں قانونی ہے، بہت سی خواتین کو زچگی کے عمل میں تاخیر کے قابل بناتی ہے۔
یہ ایک ایسا رجحان ہے جو لاطینی امریکی ممالک میں بھی زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے اگرچہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
مثال کے طور پر چلی میں 45 سے 49 سال کی عمر کے درمیان بچوں کو جنم دینے والی خواتین کی تعداد دس سالوں میں دوگنی ہو گئی ہے۔
چلی کے قومی ادارہ برائے شماریات کے مطابق سنہ 2020 میں، اس عمر کی خواتین کے ہاں کل 585 بچے پیدا ہوئے جو کہ کل آبادی کا 0.3 فیصد بنتی ہے۔ دریں اثنا میکسیکو میں صرف 0.19 فیصد (3,096 خواتین) کی عمریں 45 سے 49 سال کے درمیان تھیں۔
ماریہ کے خیالات بھی واضح تھے کہ وہ ماں بننا چاہتی ہیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ سوچتی تھیں کہ ان کا شریک حیات کوئی شخص ہو گا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ لہٰذا برسوں تک ذہنی دباؤ جیسے مسائل سے نمٹنے کے بعد انھوں نے 45 سال کی عمر میں یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ خود ہی اپنی زندگی کا ایک اور باب شروع کریں گی۔ وہ اب ماں بننے کے فوائد کے پر غور کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہاں، مجھے لگتا ہے کہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے مجھے معاملات سے نمنٹے میں مدد ملی کیونکہ آخر میں آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی تو پہلے ہی کافی جی چکے ہیں۔ ایسے میں آپ کے پاس زندگی کا ایک اور فلسفہ ہے جو 20 یا 30 کی عمر میں ممکن نہیں ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ ہم زندگی کو پہلے ہی ایک اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ بچہ گر جاتا ہے یا وہ کچھ کھاتا نہیں ہے اس سے انھیں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ زندگی آپ کو ایک اور پہلو کی طرف مبذول کرتی ہے۔ ماریہ اب سمتبر میں 48 برس کی ہو جائیں گی۔
آئیے ماریہ کی کہانی ان کی اپنی ہی زبانی ان سے سنتے ہیں۔
ارادہ کر لیں
میں ہمیشہ سے ماں بننا چاہتی تھی، لیکن یہ سچ ہے کہ میں ہمیشہ سے ہی ایک خاندان چاہتی تھی۔ میں ہمیشہ اپنے بچوں کے لیے ایک باپ کی خواہشمند تھی۔ لیکن چونکہ میں نے دیکھا کہ یہ نہیں ہو رہا ہے تو پھر تقریباً دس قبل حاملہ ہونے سے پہلے مجھے پتا چلا کہ اگر میں بچہ پیدا کرنا چاہتی ہوں تو میں یہ کیسے کر سکتی ہوں، مگر یہ قدم میں نے اس وجہ سے نہیں اٹھایا کہ مجھے ہمیشہ یہ امید تھی میرے ساتھ کوئی شریک حیات ہوگا۔
جب میں 45 سال کی عمر کو پہنچی تو میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو اب میری بہترین دوستوں میں سے ایک ہیں اور وہ کورونا وبا کے دنوں میں میری پڑوسن تھیں۔
وہ بغیر شادی کے ہی ایک لڑکی کی ماں ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آخر کار اسی کو دیکھ کرمجھے بھی یہ خیال آیا کیونکہ میں بہت ڈرتی تھی، مجھے عمر کا ڈر نہیں تھا، مجھے اس بات کا بہت ڈر تھا کہ کیا میں خود بچہ پیدا کر سکوں گی ۔ اس کی پیدائش کا نہیں بلکہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کے بارے میں سوچ کر میں خوفزدہ ہو جاتی تھی۔
یہ وہی خوف تھا جو میرے اندر گھر کر گیا تھا۔
جب میں اپنی پڑوسی سے ملی تو میں نے دیکھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور اسی وقت مجھے اپنی عمر کے بارے میں تھوڑا سا شبہ تھا کہ اب ایسا سب ممکن ہو سکے گا۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ ’دیکھو آپ کی عمر 45 سال ہے، آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا آپ یہ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے بارے میں بھول جائیں کیونکہ آپ کہتی ہیں کہ آپ یہ نہیں کرنے جا رہی ہیں، یہ سچ نہیں ہے، آپ اسے اپنے سر سے کبھی نہیں نکال سکیں گی‘۔
اس وقت انھوں نے مجھے کہا کہ ’اس کے بارے میں سوچو۔ اپنے آپ کو اس کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے کچھ وقت دو۔‘ سنہ 2020 میں کرسمس کے موقع پر میں نے اس پر سوچا اور پھر ماں بننے کا فیصلہ کر لیا۔
’میں خوش قسمت تھی، پہلی بار میں حاملہ ہوئی‘
ایک بار جب میں نے فیصلہ کر لیا، یہ مجھ پر واضح تھا کہ میں سب سے محفوظ طریقے سے یہ سب کرنے جا رہی ہوں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آپ بالکل کسی تکلیف سے بچ سکیں گی۔
ہاں جب وقت آیا تو ماہر امراض نسواں نے مجھ سے کہا کہ خود کو حمل کراؤ اور میں نے نہ کر دی۔ میں منطقی طور پر موجود امکانات کے اندر براہ راست اس محفوظ ترین چیز پر جانا چاہتی تھی جو ’وِٹرو ٹریٹمنٹ‘ یعنی سپرم براہ راست جسم کے اندر منتقل کرنے کے ذریعے ہی ممکن تھا۔
میں خوش قسمت تھی اورمیں یوں پہلی بار ہی حاملہ ہوگئی۔
میں نے دونوں عطیہ کردہ ’سپرم‘ اور ’اِگ‘ سے فائدہ حاصل کیا۔ جیسا کہ میں کہتی ہوں کہ میں محتاط تھی، حالانکہ یہ سچ ہے کہ میرے گائناکالوجسٹ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اسے اپنے بیضہ کے ساتھ آزمانا چاہتی ہوں۔
ٹیسٹ رپورٹس دیکھ کر میرے گائناکالوجسٹ نے مجھے بتایا کہ میری حیاتیاتی عمر واقعی میری عمر سے کم تھی اور میرے بیضہ کے ساتھ حاملہ ہونے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ مجھ پر واضح تھا کہ میں صرف دو بار ہی ایسا کرسکتی ہوں۔
میں نے سنا تھا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو سالہا سال انتطار کرتے ہیں اور میں بہت واضح تھی کہ میں یہ نہیں چاہتی تھی۔ مجھے علم تھا کہ میرے پاس صرف دو ہی مواقع ہیں۔ اس وجہ سے میں کسی اور آپشن کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھی۔
میں پہلی بار حاملہ ہوئی اور مجھے حمل کے دوران کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میرے پاس ایک کامل حمل، ایک بہترین ’ڈلیوری‘، اور ایک بچہ تھا جس کے بارے میں میں مجھے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی۔
کوئی ڈر، فکر نہیں
اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ میں آگے بڑھنے جا رہی ہوں، یہ واضح تھا کہ میں حاملہ ہونے جا رہی ہوں۔ میں کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ میں نے صرف سوچا کہ حمل ٹھیک ہونے والا ہے اور ’ڈلیوری‘ اچھی طرح سے ہونے والی ہے۔
میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ میری عمر کی وجہ سے حمل غلط ہو سکتا ہے یا کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے، حالانکہ میں جانتی تھی کہ یہ امکان موجود ہے۔ لیکن میں اس کے بارے میں کیوں سوچوں گی؟ اگر ایسا ہوا بھی تو میں اسے ٹھیک کر دوں گا۔
اس کے علاوہ میرے گائناکالوجسٹ نے مجھے ہر وقت بہت زیادہ ذہنی سکون دیا۔ وہ ہمیشہ آپ کو خطرات کی آگاہ کرتے ہیں، لیکن اس نے مجھے بہت ذہنی سکون دیا۔
ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ فکر نہ کرو، جو بھی ہو، وہ سب دیکھنے کے لیے موجود ہیں۔ انھوں نے میرے معاملے کو ایک معمول کے طور پر لیا۔۔۔ لیکن یہ سچ ہے کہ چونکہ مجھے شوگر تھی تو اس وجہ سے انھوں نے میرا کچھ زیادہ ہی خیال رکھا۔
یوں تمام مراحل احسن انداز میں طے پا گئے۔
انھوں نے مجھے ایک ہفتے کی ڈیلیوری کی تاریخ دی۔ حالیہ ہفتوں میں انھوں نے مجھے ہفتہ وار معائنہ شروع کر دیا۔
جب حمل کا 38 واں ہفتہ چل رہا تھا تو میرے گائنا کالوجسٹ نے میری طرف دیکھا اور مجھے بتایا کہ پیٹ میں نومولود کی حفاظت کے لیےامینیٹک سیال یا سیال انفسی امبولزم (حفاظتیپانی کی تہہ) موجود نہیں ہے۔
لڑکے کا وزن اب نہیں بڑھ رہا تھا، لیکن وہ ٹھیک تھا۔ تاہم، یہ وہ چیز ہے جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے، اس کا میری عمر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر آپ کا مائع ختم ہوجائے تو بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔
آپریشن کے بعد کا وقت بہت اچھا گزرا۔ مجھے تین ٹانکے لگائے اور میں پہلے ہی بستر سے اٹھ رہی تھی اور اسی دن اس قابل تھی کہ چل سکوں۔
بچہ 4 دسمبر 2021 کو پیدا ہوا اور مجھے 6 دسمبر کو ڈسچارج کر دیا گیا۔ 7 تاریخ کو میں بیماری کی چھٹی مانگنے کے لیے کلینک تک تقریباً 45 منٹ پیدل گئی اور میں بھی واپس چل کر آئی۔
میں ٹھیک تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جینیاتی وجہ تھی یا کھیلوں کی وجہ سے فٹ تھی۔ میں نے حمل کے دوران بھی زیادہ وزن نہیں بڑھایا۔
46 کی عمر میں زیادہ برداشت اور صبر
مجھے لگتا ہے کہ اگر میرا بیٹا دس برس قبل پیدا ہوتا تو شاید میں اس کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتی، کیونکہ میں بھی اس وقت مختلف شخصیت کی مالک ہوتی۔
میں نے بہت زیادہ اضطراب کے ساتھ وقت گزارا اور میں اس حوالے سے کافی وقت سے ہی سوچ میں تھی۔
مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا ایک ایسے وقت پر حاصل کیا ہے جب مجھے یہ چاہیے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے اس سے پہلے اس کی کوشش کی ہوتی تو میں حاملہ نہ ہوتی اور نہ ہی مجھے اس کا تجربہ ہوتا جیسا کہ میں اس وقت تجربہ کر رہی ہوں۔
اگر میں دس سال پہلے حاملہ ہو جاتی تو مجھے لگتا ہے کہ میرا بچے کے ساتھ تجربہ بالکل مختلف ہوتا، لیکن میں اس سے بھی بدتر سوچتی ہوں۔
اس وقت میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اب میں جانتی ہوں کہ یہ اچھا نہیں تھا۔ میں بہت پریشانی کے ساتھ رہتی تھا۔ جب میں اضطراب کے بارے میں بات کرتی ہوں، تو میں ایک ایسی بیماری کے بارے میں بات کرتی ہوں جس کا علاج، تشخیص، روزانہ کیا جاتا ہے۔
آہ ایسا نہیں ہے، آج مجھے برا لگ رہا ہے۔ نہیں، مجھے بات کرنے کے لیے ایک بڑی پریشانی تھی۔ میں کھا نہیں سکتی تھی۔ میں اس اس اضطراب پر قابو پانے کے لیے کچھ دیر بعد ڈرپ کا سہارا لیتی۔
اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ میں اس وقت بچے کے ساتھ ایسے ہی رہتی۔ میں نے آخر کار ایک ماہر نفسیات کی مدد سے اس پر قابو پا لیا اور اگر میں سچی بات بتاؤں تو اس نے مجھے دوبارہ چرچ کے قریب بھی کر دیا۔
’کسی کو حیرت نہیں ہوئی‘
کسی بھی وقت مجھے یہ نہیں لگا کہ لوگ اب میرے بارے میں کوئی رائے بنا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ لوگوں کی اکثریت نے مجھے بتایا کہ یہ وقت تھا کیونکہ میں ہمیشہ سے ماں بننا چاہتی تھی۔ تو کسی کو ایسی کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
مجھے لگتا تھا کہ اب بہت باتیں ہوں گی اور لوگ رائے قائم کریں گے، ہو سکتا ہے لوگوں نے کچھ ایسا کیا بھی ہو مگر میرے سامنے کبھی مجھے محسوس نہیں ہوا کہ میرے بارے میں کوئی ایسا سوچ رہا ہے۔
میں آپ کو ایک بات بھی بتاتی ہوں: میں ایک ایسی شخصیت کی مالک ہوں جو دوسروں کی باتوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتی۔ میرے خیال میں یہ بھی وقت گزر گیا ہے اور کوئی بھی آ کر آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔
میرے خاندان والے بچوں کے دیوانے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ میرے والد، جیسا کہ وہ بہت خوفزدہ ہیں، ڈرتے تھے کہ میرے ساتھ کچھ نہ ہو جائے۔ وہ دوسری طرح سے سوچنے والے بھی متعدد لوگ ہیں۔
ان کو یہ ڈر تھا کہ میری عمر میں میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس لیے کہ وہ بہت خوفزدہ ہے۔ دراصل جب میں نے انھیں بتایا کہ پرسوں وہ میرا آپریشن کریں گے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ جب تک بچہ پیدا نہ ہو مجھے فون مت کرنا۔ مگر یہ سب ہو خوف کی وجہ سے کہہ رہے تھے۔
دوسری خواتین کو ایسا کرنے کی ترغیب دیں
دوسرے کیا کہیں گے ہمیں اس سے زرا اعتراض برتنا ہے۔ اور اگر کسی کی خواہش اولاد کی ہے تو میں سو فیصد یہ تجویز کرتی ہوں کہ وہ یہ راہ اختیار کریں۔ چونکہ انھوں نے یہ کیا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی باقی لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں۔
یہ آپ کا فیصلہ ہے۔ یہ آپ کی زندگی ہے۔ یہ تمھارا بیٹا ہے۔ وہ اس سے لطف اندوز ہوں گی، کوئی اور نہیں، اس میں شک نہ کریں۔
میں نہیں جانتی کہ کیا ہم واقعی فوائد کے بارے میں بات کر سکتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ آخر میں ہم بڑھے ہو رہے ہیں اور سوچ میں پختگی بھی آ رہی ہے۔
ہم چیزوں کو موازنہ کرتے ہیں یا پھر ہم بہت سی چیزوں کو کم اہمیت کم کر رہے ہیں، جن کے بارے میں پہلے شاید ہم نے کہا تھا: اوہ، میرے خدا، میں یہ کیسے کرنے جا رہی ہوں، یا میں اس کی اجازت کیسے دوں گی۔ خاص طور پر جب بچے کو تعلیم دینے کی بات آتی ہے۔ مثال کے طور پر پارک میں جب آپ ہوتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ یہ گر سکتے ہیں، ٹھیک ہے، اسے گرنے دو۔ کہ یہ گندا ہو سکتا ہے تو پھر ایسے میں اسے گندا ہونے دیں۔
ہم اس بارے میں واضح ہیں کہ کیا سب سے اہم ہے اور کیا نہیں ہے۔ یہی میرا احساس ہے۔ عمر کے ساتھ مختف چیزوں کے بارے میں ہمارے تصورات بدلتے ہیں اور پرورش کے وقت۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ بدتر تعلیم دینے جا رہے ہیں۔ جب مجھے اسے ڈانٹنا پڑتا ہے تو میں اسے ڈانٹتی ہوں، لیکن سچ یہ ہے کہ آپ دوسری چیزوں سے اس کا موازنہ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تولیدی صحت: کیا عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ساری عمر قائم رہ سکتی ہے؟
دنیا بھر میں 550 سے زیادہ بچوں کے مشتبہ باپ پر سپرم کا عطیہ دینے کی پابندی عائد
میں نے خواتین کے دماغ کا 20 سال مطالعہ کرنے کے بعد کیا سیکھا؟
سیکس ایجوکیشن: کیا یہ غلط فہمی ہے کہ جنسی تعلق کے نتیجے میں سپرم بیضہ کی جانب دوڑ لگاتا ہے؟
خرابیاں؟
ہاں یہ سچ ہے، اگر میں آپ کو نہ بتاؤں تو میں آپ سے جھوٹ بول رہی ہوں گی کہ کبھی کبھار میں سوچتی ہوں، اگر اسے میرے وقت سے پہلے میری ضرورت ہو تو کیا ہوگا؟
پر میں آخر میں خود سے بھی کہتی ہوں، ٹھیک ہے، مجھے کوئی نہیں بتاتا کہ 30 سال کی عمر میں میرے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ میں وقتاً فوقتاً حیران ہوتی ہوں۔
لیکن کسی قسم کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ میں بغیر کسی پریشانی کے اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے گراؤنڈ میں آتی ہوں۔
یہ واضح ہے کہ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کوئی کیسا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ 45 سال کی عمر والے نے 30 سال کی عمر میں بھی خود کو زمین پر نہ گرایا ہو۔
اور یقیناً میں تھک جاتی ہوں۔ جنوری اور فروری کے مہینے بہت سی بیماریوں میں گزارے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، چاہے ہماری عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو۔
یہ واحد موقع ہے جب میں نے اپنے آپ کو بتایا ہے، میں اب یہ نہیں سکتی۔ ورنہ میں ہفتے میں تین دن اس کے ساتھ تیراکی کرتی ہوں۔ میں ہر روز اس کے ساتھ پارک جاتی ہوں۔ گھر میں خود کو فرش پر پھینک دیتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے نوجوانی کی عمر میں مزید کام کیے ہوتے۔
اگرچہ میں اس کے ساتھ اکیلی ہوں، لیکن کئی بار میں ان لوگوں کو جوڑے کے طور پر دیکھتی ہوں اور میں بہت ساری چیزیں دیکھتی ہوں جو میں خود سے کہتی ہوں، آخر میں میں اسے کسی سے لڑے بغیر، اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دینے جا رہی ہوں۔ کسی سے کوئی بحث نہیں۔ اور یہ بات ہے۔
یہ میرے لیے بہتر یا برا ہوگا، لیکن یہ میرا فیصلہ ہوگا۔
یہ سچ ہے کہ جب وہ 20 سال کا ہو گا تو میں 67 سال کی ہو جاؤں گا، لیکن یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں سوچ رہتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اب کے 67 یا 68 سال وہ والے نہیں رہے جو 20 سال پہلے تھے۔
اگر یہ دس سال پہلے میرے پاس ہوتا تو اس سے بچے کی زندگی اجیرن ہوجاتی اور میں اسے دکھی کردیتی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم واقعی اس طرح نہیں رہ سکتے تھے۔
اس وقت میں اس سے سو فیصد لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ اور بچہ بھی۔ بوسکو ایک خوش مزاج لڑکا ہے۔ وہ سارا دن ہنستا رہتا ہے۔ وہ ایک بے چین بچہ ہے۔
اگر میں تلخ ہوتی تو میرا بیٹا خوش نہیں رہ سکتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ آخر میں ہر چیز کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔