چھ وجوہات جنھوں نے کرناٹک انتخابات میں بی جے پی کی کشتی کو ڈبو دیا اور کانگریس نے فتح سمیٹی

بی بی سی اردو  |  May 15, 2023

Getty Images

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی شکست پر غور کرنے کے لیے ایک اجلاس طلب کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف کانگریس پارٹی کی جیت کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے دوڑ شروع ہو گئی ہے۔

کرناٹک انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس دونوں نے اپنی پوری کوشش کی، لیکن بی جے پی کی کچھ غلطیوں اور چالوں نے کانگریس پارٹی کا کام آسانا کر دیا۔

یہ چھ باتیں ماہرین کی رائے کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں کہ انتخابات کے پیش نظر بی جے پی سے کیا غلطیاں ہوئیں اور کانگریس کی کیا چالیں تھیں۔

Getty Imagesبی جے پی کی چھ غلطیاں1- حکومت مخالف لہر کا کوئی مناسب کاؤنٹر نہیں

تقریباً تمام ماہرین اس بات پر متفق نظر آئے کہ کرناٹک انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی بڑی وجہ حکومت مخالف لہر تھی، جس کے لیے پارٹی مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔

ایک خاص مدت تک اقتدار میں رہنے کے بعد ووٹر اکثر حکمران جماعت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو جاتے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ بی جے پی سنہ 2019 سے اقتدار میں تھی۔

بی جے پی کو بے روزگاری اور آسمان چھوتی مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس نے ان مسائل کو خوب اجگار کیا مگر ماہرین کے مطابق بی جے پی اس پر کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی۔

2- سٹار کمپیئنر مودی اور پارٹی کے دیگر مرکزی رہنماؤں پر حد سے زیادہ انحصار

سیاسی ماہر وجے گروور نے بی بی سی کو بتایا کہ انتخابی مہم میں مقامی رہنماؤں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور مرکزی رہنماؤں پر حد سے زیادہ انحصار ہوتا ہے۔ برینڈ مودی کا زیادہ استعمال بھی کام نہ آیا۔

بی جے پی کا خیال تھا کہ وزیراعظم مودی کی ریلیوں اور روڈ شو سے کم از کم 20 اضافی سیٹیں اس کی گود میں گر جائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

Getty Images3- منقسم کرنے والی سیاست

کرناٹک میں کانگریس کے سوشل میڈیا صدر نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’مودی نے ووٹروں کو منقسم کرنے کی کوشش کی جس قدر وہ کر سکتے تھے۔ امت شاہ اور ہمنتا بسوا سرما نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں اقلیتوں کے خلاف اس سے بھی بدتر باتیں کہیں، لیکن وہ ناکام رہے۔‘

4- پارٹی میں دھڑے بندی اور بغاوت

دائیں بازو کے مفکر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سواروکمل دتہ نے انتخابی مہم کے دوران کرناٹک کا دورہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پارٹی میں جس طرح کی بغاوت اور اختلاف تھا، خاص طور پر مرکزی علاقہ اور مہاراشٹر سے ملحق کرناٹک کے علاقوں میں، اس نے پارٹی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔‘

ان کے مطابق ’اس کے علاوہ، جگدیش شیٹر کے مطالبات کو پارٹی کے اندر ہی کہیں سنا جانا چاہیے تھا، جو کسی وجہ سے بی جے پی نے نہیں کیا۔ پارٹی کو وسطی کرناٹک اور شمالی کرناٹک میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔‘

دیگر مقامی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر لڑائی، اندرونی کشمکش اور دھڑے بندی نے کرناٹک میں بی جے پی کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔

اگر پارٹی اندرونی تقسیم پر قابو پانے کے بعد اتحاد کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تو اس کا اثر اس کی انتخابی کارکردگی پر پڑ سکتا ہے۔

Getty Images5- مضبوط لیڈر یدی یورپا کو نظر انداز کرنا

اس میں تقریباً تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پارٹی نے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے قدآور لیڈر یدی یورپا کو نظر انداز کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔

یہی نہیں، بی جے پی نے اپنے گزشتہ دور اقتدار میں کئی وعدے کیے تھے، لیکن انھیں پورا کرنے میں ناکام رہی۔ اس سے ووٹر کا اعتماد اور حمایت متاثر ہوئی اور اس کے نتیجے میں پارٹی کی کارکردگی متاثر ہوئی۔

6- کانگریس کی 'پے، سی ایم' مہم کا صحیح طریقے سے مقابلہ نہیں کیا گیا

کرناٹک سٹیٹ کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے شکایت کی کہ ہر ٹینڈر کو پاس کرنے کے لیے 40 فیصد کمیشن کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جسے کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا۔

پارٹی نے ایک مشہور یو پی آئی ایپ کا کیو آر کوڈ استعمال کیا اور اسے پے سی ایم (PayCM) کوڈ کہا۔ پارٹی نے اسے یہ پیغام دینے کے لیے استعمال کیا کہ حکومت میں بدعنوانی بڑھ گئی ہے۔

ڈاکٹر دتہ نے کہا کہ ’کانگریس نے تین چار ماہ تک جو 40 فیصد رشوت خوری کی مہم چلائی، اس نے کہیں نہ کہیں عوام کو متاثر کرنے کا کام کیا، اگرچہ بدعنوانی کا یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا، لیکن ایک بیانیہ کے طور پر یہ کام کر رہا ہے۔‘

Getty Images

یہ بھی پڑھیے

’پاکستان کا ذکر کر کے بھی مودی کو کرناٹک کے الیکشن میں شکست ہوئی‘

لائیو ٹی وی پر قتل ہونے والے انڈیا کے ’گینگسٹر سیاستدان‘ جو اپنا موازنہ نیلسن منڈیلا سے کرتے تھے

جاسوسی کے الزام میں قید آٹھ سابق انڈین نیوی افسران کا معاملہ انڈیا اور قطر کے تعلقات کو کیسے چیلنج کر رہا ہے؟

کانگریس پارٹی کی جیت کی چھ وجوہات کیا تھیں؟1- وقت سے پہلے انتخابی حکمت عملی کی تیاری اور اس پر عمل درآمد شروع کرنا

سیاسی تجزیہ کار وجے گروور کے مطابق کانگریس پارٹی نے زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد نئی انتخابی حکمت عملی تیار کی، بی جے پی کے بیانیے کا مقابلہ کیا اور بدعنوانی کو حکمران جماعت کے خلاف اپنے اہم انتخابی ایشو کے طور پر ترجیح دی۔

پارٹی نے اس کے لیے مہینوں پہلے تیاری کر لی تھی۔

بومئی نے بھی ہار قبول کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے ان سے پہلے انتخابی تیاری شروع کر دی تھی۔

سینیئر صحافی عمران قریشی کا ماننا ہے کہ اس سٹریٹجک اقدام سے کانگریس کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔

2- حکومت مخالف فائدہ

کانگریس پارٹی نے بومئی حکومت کے خلاف عوامی غصے کو اپنے فائدے کے لیے خوب استعمال کیا۔

کنڑ میں شائع ہونے والے ریاست کے سب سے بڑے اخبار 'وجئے کرناٹک' کی سرخی ہے کہ عوام کے غصے نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر پھینک دیا ہے۔

3- مقامی مسائل کو اجاگر کرنا

اپنی انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم مودی نے مقامی بی جے پی حکومت سے زیادہ مرکزی حکومت کی کامیابیوں کو شمار کیا۔

دوسری طرف کانگریس پارٹی نے نہ صرف مقامی لیڈروں کو اہمیت دی بلکہ مقامی مسائل کو بھی انتخابی مسئلہ بنایا۔

اب آئیے نندنی دودھ بمقابلہ امول دودھ۔ جیسے ہی امول نے اعلان کیا کہ وہ ریاست میں آن لائن فروخت کے لیے میدان میں اتر رہی ہے، کانگریس انھیں مقامی بمقابلہ غیر ملکی کمپنی کے مسئلے کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

ڈاکٹر دتہ کہتے ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ کانگریس نے نندنی امول تنازع کو کامیابی سے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ نندنی ایک مقامی کمپنی ہے اور بی جے پی امول کو لا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

Getty Images4- اقتصادی معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا

کانگریس پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کو بڑی جگہ دی اور 'بجرنگ دل اور بجرنگ بالی' کے ایشو کا بی جے پی نے صحیح طریقے سے مقابلہ کیا۔

اس کے ارد گرد اپنی موثر مہم کی وجہ سے پارٹی نے عام لوگوں سے رابطہ قائم کیا اور ان کے ووٹ حاصل کیے۔

5- انڈیا جوڑو یاترا پارٹی کا اثر

راہول گاندھی کی 'بھارت جوڑو یاترا' جنوری میں ختم ہو گئی تھی لیکن پارٹی کارکنوں میں جو جوش و خروش پیدا ہوا وہ مئی میں ہونے والے انتخابات میں کام آیا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 'بھارت جوڑو یاترا' نے پارٹی میں نئی ​​جان ڈالی اور اسے انتخابات میں فائدہ ہوا۔

Getty Images6- خواتین پر خصوصی توجہ

کانگریس نے غریب اور دیہی خواتین کو راغب کرنے کے لیے زمینی سطح پر کام کیا۔ پارٹی ایسی سکیمیں لے کر آئی جس سے زیادہ خواتین کو فائدہ پہنچے گا، جیسے کہ ہر گھر کی خاتون سربراہ کو 2,000 روپے ماہانہ دینے کا وعدہ۔

کانگریس نے اپنے انتخابی وعدوں میں تمام گھرانوں کو 200 یونٹ مفت بجلی کی پیشکش بھی کی۔

جہاں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندان پبلک ڈسٹری بیوشن سکیم کے تحت چار کلو چاول بھی مفت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کانگریس نے فی شخص دس کلو مفت چاول دینے کا وعدہ کیا ہے۔

یہ تمام یقین دہانیاں رائے دہندگان کے لیے یقینی طور پر پرکشش لگیں، خاص طور پر خواتین جو کہ ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اپنے کام کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More