انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں نہ بارش ہوئی نہ موسم خراب تھا اور نہ ہی لائٹس کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن اچانک آئی پی ایل کا 58 واں میچ عارضی طور پر روکنا پڑ گیا۔
یہ میچ سن رائزرس حیدرآباد (ایس آر ایچ) اور سپر جائنٹس لکھنؤ (ایل ایس جی) کے درمیان کھیلا جا رہا تھا اور دونوں ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں اپنی امید قائم رکھنے کے لیے میچ جیتنا ضروری تھا، ایسے میں مقابلہ سخت ہونا حیرت کی بات نہیں تھی۔
حیدرآباد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ سب کچھ درست چل رہا تھا کہ 19 ویں اوور میں فیلڈ امپائر نے اویس کی ایک گینڈ کو نو بال قرار دیا، سامنے جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر بیٹسمین ہنرک کلاسن تھے۔ یہ بال بظاہر کمر کے اوپر سے گزر رہی تھی جس کی وجہ سے اسے نو بال قرار دیا گیا تھا۔
بہر حال اس فیصلے کے خلاف لکھنؤ کی ٹیم نے تھرڈ امپائر سے ریفرل لے لیا اور تھرڈ امپائر نے اس گیند کو لیگل ڈیلیوری قرار دیا، جسے نہ تو کلاسن نے پسند کیا اور نہ ہی حیدرآباد کے ناظرین نے۔
ایک گیند بعد ہی اچانک کھیل کو عارضی طور پر روک دینا پڑا اور کھیل تقریبا دس منٹ تک رکا رہا۔ امپائر کے فیصلے پر ایسا رد عمل نادر تھا۔
امپائر کا یہ فیصلہ بظاہر حیدرآباد کے ناظرین کو پسند نہیں آیا اور انھوں نے فیلڈ کی جانب اور لکھنؤ کے کھلاڑیوں کے بیٹھنے کی طرف چیزیں پھینکنی شروع کر دیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے نٹ اور بولٹ بھی بھینکے۔
مفددل ووہرا نے کرک بز کے حوالے سے ٹویٹ کیا کہ ایل ایس جی کے ڈگ آؤٹ کی جانب حیدرآباد کی بھیڑ نے نٹس اور بولٹس پھینکے۔
اس پر ایل ایس جی کے فیلڈنگ کوچ اور اپنے زمانے کے جنوبی افریقہ کے مایہ ناز کھلاڑی جونٹی روڈس نے لکھا کہ ’ڈگ آؤٹ کی جانب نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی طرف پھینکے۔ انھوں نے پریرک مانکڈ کے سر کو نشانہ بنایا جب وہ فیلڈنگ کر رہے تھے۔‘
https://twitter.com/JontyRhodes8/status/1657434782907920384
جونٹی روڈس نے نوین سورگم نامی صارف کے ایک ٹویٹ کے جواب میں لکھا 'کیچڑ کی طرح صاف دوست۔'
نوین نے میدان میں ہونے والے واقعات کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ 'یہاں کچھ ہو رہا ہے۔ کلاسن ایل ایس جی کے ڈگ آؤٹ کی طرف دیکھ کر بڑبڑا رہے ہیں، وہ آخری بال کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔
’فیلڈ امپائر ڈگ آؤٹ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ چیزوں کو پُرسکون کر سکیں۔‘
https://twitter.com/JontyRhodes8/status/1657447393821065216
وہ لکھتے ہیں کہ 'اینڈی فلاور بھی امپائر سے بات کر رہے ہیں۔ یہ مزید خراب ہو رہا ہے کیونکہ دو جنوبی افریقی کھلاڑی کلاسن اور ڈی کاک بھی بات کر رہے ہیں۔ دونوں فیلڈ امپائر اب تقریبا باؤنڈری کے پاس ہیں۔ کیا ایل ایس جی کے ڈگ آؤٹ کی جانب کچھ پھینکا گیا ہے۔ بہر حال جو کچھ ہوا اسے حل کر لیا گیا ہے اور اب کرکٹ کی جانب واپس آتے ہیں۔'
کچھ لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ کھیل اس لیے رکا تھا کہ کسی نے گوتم گمبھیر پر چپل پھینکی تھی اور وہ 'کوہلی کوہلی' کا نعرہ لگا رہے تھے۔
کوہلی کوہلی کا شور
حیدرآباد کے ناظرین نے اتنے پر ہی بس نہیں کیا۔ لکھنؤ کی ٹیم کے مینٹور اور انڈیا کے سابق کپتان گوتم گمبھیر کے منظر نامے پر آتے ہی 'کوہلی کوہلی' کا شور مچانا شروع کر دیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ حال ہی میں کوہلی اور گوتم گمبھیر کے درمیان تلخ کلامی کے منظر دیکھے گئے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ دونوں کھلاڑیوں میں بہت زیادہ ہم آہنگی نہیں ہے اور ایک قسم کا مسابقہ رہتا ہے جس کا اظہار وقتا فوقتا ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کوہلی، گمبھیر اور نوین کی ’لڑائی‘ میں پاکستانی شائقین کو شاہد آفریدی کیوں یاد آ رہے ہیں
لکھنؤ سپر جائنٹس کی جیت اور ’ادب سے ہرانے‘ کی بازگشت
کم خرچ میں بہتر نتائج دینے والے ’مِسٹری سپنرز‘
جب بنگلور میں ایل ایس جی کی ٹیم نے آخری گیند پر ہاری بازی جیت لی تھی تو گوتم گمبھیر نے وہاں کی بھیڑ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا جسے بنگلور کے حامیوں نے بہت پسند نہیں کیا۔
پھر جب کوہلی کی ٹیم رائل چیلنجرز بنگلور اپنا دوسرا میچ کھیلنے لکھنؤ پہنچی تو کوہلی نے بھیڑ کو خوب شور مچانے پر ابھارا اور ميچ انتہائی جوش و جنون کے ساتھ کھیلا گیا اور پھر آر سی بی کی جیت کے بعد کھلاڑیوں میں تلخ کلامی اور مصالحت کا ایک سلسلہ نظر آیا جسے انڈین میڈیا میں خوب جگہ ملی۔
https://twitter.com/sarphiribalika_/status/1657356404917952514
دریں اثنا حیدرآباد کے میچ کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے لیکن کرکٹ کے مداح اسے اچھا شگون نہیں مانتے۔
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ باقی آئی پی ایل کے میچز حیدرآباد میں نہیں ہونے چاہییں جبکہ ایک دو صارف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ورلڈ کپ کا میچ بھی حیدرآباد میں نہیں ہونا چاہیے۔
بہر حال کلاسن اور عبدالصمد کی اچھی اننگز کی بدولت حیدرآباد کی ٹیم نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 182 رنز بنائے جسے نکولس پورن کی آتشی بلے بازی کی وجہ سے لکھنؤ نے چار گیند پہلے ہی حاصل کر لیا۔
نکولس پورن نے 13 گیندوں پر چار چھکے اور تین چوکوں کو مدد سے 44 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے جبکہ دوسری جانب پریرک مانکڈ نے سات چوکوں اور دو چھکے کی بدولت 64 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ اس طرح انھوں نے حیدرآباد کے ناظرین کو اپنے بیٹ سے جواب دیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سن رائزرس حیدرآباد کے تین میچز بچے ہیں لیکن اس کی ٹاپ چار ٹیموں میں پہنچنے کی امید تقریبا معدوم ہو چلی ہے جبکہ لکھنؤ کی ٹیم فی الحال چوتھے نمبر پر ہے اور اس کے حالات امید افزا ہیں۔