سنہ 1950 کی دہائی میں جب انڈیا میں عورتوں کے لیے کشتی لڑنا اپنے آپ میں ایک غیر معمولی بات تھی، حمیدہ بانو نامی ایک 32 سالہ پہلوان نے مرد پہلوانوں کو ایک دلچسپ چیلنج دیا اور کہا ’جو مجھے دنگل میں ہرا دے گا، وہ مجھ سے شادی کر سکتا ہے۔‘
اس چیلنج کے تحت وہ فروری 1954 سے دو مرد پہلوان چیمپیئنز کو پہلے ہی شکست دے چکی تھیں جن میں سے ایک پٹیالہ سے تھا اور دوسرا کلکتہ سے، اور اسی سال مئی میں اپنی تیسرے دنگل کے لیے وہ بڑودہ کی طرف گامزن تھیں۔
ان کے دورے نے شہر میں ایک سنسنی پیدا کر دی۔ بڑودہ کے رہنے والے اور کھو کھو کے انعام یافتہ کھلاڑی 80 سالہ سدھیر پرب اس وقت سکول میں پڑھتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ ’یہ دنگل لوگوں کے لیے کافی پرکشش تھا۔ کسی نے اس طرح کے کشتی کے بارے سنا ہی نہیں تھا۔‘
کشتی دیکھنے کے لیے بیٹھنے کا انتظام قدیم یونانی لڑائیوں کی طرز پر ہوا۔ لیکن حمیدہ بانو کو شائقین کے تجسس کو ختم کرنے میں محظ چند سیکنڈ ہی لگے۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق ’یہ مقابلہ محض ایک منٹ اور 34 سیکنڈ تک چلا، جب خاتون نے انھیں چت کر دیا اور ریفری نے پہلوان کو حمیدہ کی شادی کی حد سے باہر قراردے دیا۔‘
اسی کے ساتھ حمیدہ بانو کے داو پیچ کے شکار بابا نامی پہلوان نے فوراً اعلان کر دیا کہ یہ ان کا آخری میچ تھا۔
بعد میں انڈیا کی پہلی خاتون پیشہ ور پہلوان کے طور پر شہرت پانے والی حمیدہ بانو اپنی دلیری سے ملک کے روایتی افسانوں کو الٹ رہی تھیں جن میں کشتی کو خصوصی طور پر مردوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔
’علی گڑھ کی ایمازون‘
حمیدہ بانو عام لوگوں میں اس قدر دلچسپی کا باعث بن چکی تھیں کہ ان کا وزن، قد اور خوراک تک خبروں کا موضوع بن گئے۔
اس وقت کی رپورٹس کے مطابق ان کا وزن 237 پاؤنڈ تھا، اور قد پانچ فٹ تین انچ تھا۔ ان کی روزانہ کی اوسط خوراک میں 12 پاؤنڈ دودھ، 6 پاؤنڈ سوپ، 4 پِنٹ پھلوں کا جوس، ایک مرغی، 2 پاؤنڈ مٹن، ایک پاؤنڈ مکھن، 6 انڈے، 2 پاؤنڈ بادام، 2 بڑی روٹیاں اور 2 بریانی کی پلیٹیں شامل تھے۔
خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ایک دن میں نو گھنٹے سوتی تھیں اور مزید چھ گھنٹے ورزش کرتی تھیں۔
انھیں ’علی گڑھ کی ایمازون‘ کہا جانے لگا جہاں پر وہ اپنے آبائی شہر مرزا پور سے سلام نامی ایک پہلوان کی استادی میں کشتی کی تربیت کے لیے منتقل ہو گئی تھیں۔
ان کی تعریف میں ایک کالم نگار نے 50 کی دہائی میں لکھا کہ ’علی گڑھ کی ایمازون‘ پر ایک نظر ڈالنا آپ کی ریڑھ کی ہڈی کے کانپنے کے لیے کافی ہے۔
انھوں نے لکھا، ’ان سے کسی بھی عورت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، بلکہ حریفوں کی کمی نے انھیں مخالف جنس کے لوگوں کو چیلنج کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔‘
حمیدہ بانو کے رشتے داروں سے بات چیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حریفوں کی کمی کے علاوہ معاشرے کی قدامت پسندی نے انھیں گھر کو ترک کر کے علی گڑھ منتقل ہونے پر مجبور کیا تھا۔
خاتون کی مرد کے ساتھ کشتی، تانگے اور لاریوں پر پوسٹر
سنہ 1950 کی دہائی تک وہ اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ 1954 میں ہی اپنے چیلینچ کے دنوں میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اب تک اپنے تمام 320 مقابلے جیت چکی ہیں۔
ان کی شہرت اس وقت کی تحریروں میں صاف نظر آتی ہے بلکہ کئی افسانہ نگار بھی جب اپنے کرداروں کی طاقت کی بات کرتے تھے تو انھیں تشبیہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
یہ باتیں بروڈہ والوں کے لیے بھی پرتجسس تھیں۔ سدھیر پرب بتاتے ہیں کہ وہ دنگل اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انڈیا میں پہلی بار کوئی خاتون مرد پہلوان سے کشتی کر رہی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’1954میں لوگ زیادہ قدامت پسند تھے۔ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ایسی کشتی ہو سکتی ہے۔شہر میں ان کی آمد کا اعلان تانگے اور لاریوں پر بینرز اور پوسٹر لگا کر کیا گیا تھا جیسے کہ فلموں کی تشہیر کے لیے کیا جاتا تھا۔‘
اگرچہ اس وقت کے اخبارات کے مطابق یہ واضح ہے کہ انھوں نے بابا پہلوان کو ہرایا تھا، پرب کہتے ہیں ’مجھے یاد ہے کہ وہ ابتدائی طور پر چھوٹے گاما پہلوان سے لڑنے والی تھیں جو کہ لاہور کے مشہور گاما پہلوان کے نام سے منسوب تھے اور جن کی سرپرستی بڑودہ کے مہاراجہ کرتے تھے۔‘
لیکن چھوٹے گاما پہلوان نے آخری لمحات میں حمیدہ بانو سے کشتی لڑنے سے انکار کر دیا۔ پرب بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے کہا کہ عورت کے ساتھ میں کشتی نہیں لڑوں گا۔‘
اگر کسی کے لیے ایک خاتون سے کشتی کرنا شرمناک بات تھی، تو چند کے لیے ایک عورت کا نہ صرف مردوں کو عوامی سطح پر للکارنا بلکہ انھیں فیصلہ کن شکست دینا غصے کا باعث بھی بنا۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق پونے میں رام چندر سالونکے نامی ایک مرد پہلوان کے ساتھ مقابلہ شہر میں کشتی کی کنٹرولنگ باڈی راشٹریہ تعلیم سنگھ کی مخالفت کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔
ریاست مہاراشٹر کے کولہاپور میں ایک اور مقابلے میں جب انھوں نے سوما سنگھ پنجابی نامی ایک مرد مخالف کو شکست دی تو کشتی کے شائقین نے انھیں ’بو‘ کیا اور ان پر پتھراؤ کیا۔ یہاں تک کہ ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس کو بلانا پڑا۔ لوگوں نے اس مقابلے کو ’فرضی‘ (فارس) قرار دیا۔
لیکن اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ مصنف رنونجئے سین اپنی کتاب ’نیشن ایٹ پلے: اے ہسٹری آف اسپورٹ ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ان تقریبات میں کھیلوں اور تفریح کی شباہت اس حقیقت سے واضح ہوتی ہے کہ حمیدہ بانو کے مقابلے کے بعد دو پہلوانوں کے درمیان مقابلہ ہونا تھا، جس میں ایک لنگڑا اور دوسرا اندھا تھا۔
’لیکن اس میچ کو تفریح کے طور پر، یا شاید طنز کے طور پر، ترک کر دیا گیا کیونکہ نابینا پہلوان نے دانت میں درد کی شکایت کی جس کے نتیجے میں اس کا حریف فتح یاب ہو گیا۔‘
سین کے مطابق حمیدہ بانو کو آخرکار ریاست کے وزیر اعلیٰ مورارجی دیسائی سے ان کے دنگل پر ’پابندی‘ کے خلاف شکایت کرنی پڑی لیکن دیسائی کا جواب تھا کہ ’مقابلے پر پابندی جنسی بنیادوں پر نہیں بلکہ منتظمین کے بارے میں کئی شکایات کی وجہ سے لگائی گئی تھی، جو کہ بظاہر بانو کے خلاف ’ڈمی‘ پہلوان اتار رہے تھے۔‘
’کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچی کو نہ ہرا سکا تھا‘
حمیدہ بانو کے خلاف کشتیوں میں ’ڈمی‘ پہلوان یا کمزور مخالفین کا استعمال اس وقت ایک وسیع پیمانے پر نظریہ تھا۔
حمیدہ کی شہرت کے بارے میں بات کرتے ہوئے مہیشور دیال اپنی 1987 کی کتاب ’عالم میں انتخاب – دلی‘ میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے یوپی اور پنجاب میں کئی کشتیاں لڑی تھیں، اور دور دراز سے لوگ انھیں اور ان کی کشتی کو دیکھنے کے لیے آتے تھے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’وہ بالکل مرد پہلوانوں کی طرح لڑتی تھیں۔ اگرچہ کچھ کا یہ کہنا تھا کہ حمیدہ بانو اور مرد پہلوان کا آپس میں خفیہ معاہدہ ہو جاتا تھا اور وہ جان کر حمیدہ بانو سے ہار جاتا تھا۔‘
حالانکہ کئی مرد مصنفوں نے ان کے کارناموں کا مذاق اڑایا ہے یا ان پر سوالہ نشان لگایا ہے۔
فیمنسٹ مصنفہ قرۃ العین حیدر اپنی آٹوبایوگرافیکل کہانی ’ڈالن والہ‘ میں حمیدہ بانو کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ممبئی میں 1954 ایک ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں انھوں نے کمال دکھایا تھا۔
وہ لکھتی ہیں ’بقول فقیرا (انکا ملازم) کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکر پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمروں کو گھور رہی تھیں۔‘
اس وقت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ حمیدہ بانو نے 1954 میں ممبئی میں روس کی ’مادہ ریچھ‘ کہلانے والی ویرا چستیلین کو بھی ایک منٹ سے کم وقت میں شکست دی تھی اور اسی سال انھوں نے یورپی پہلوانوں سے کشتی کرنے کے لیے یورپ جانے کے اپنے ارادوں کا اعلان کیا تھا۔
لیکن ان مشہور دنگلوں کے فوراً بعد حمیدہ کشتی کے منظر سے غائب ہو گئیں اور اس کے بعد ریکارڈز میں ان کا نام صرف تاریخ کی حیثیت سے نظر آتا ہے۔
’انھیں روکنے کے لیے سلام پہلوان نے انھیں لاٹھیوں سے مارا‘
حمیدہ بانو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے میں نے ان کے قریبی رشتہ داروں اور جاننے والوں کو تلاش کیا جو کہ اب ملک اور دنیا کے مختلف کونوں میں رہتے ہیں۔ ان سے گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حمیدہ بانو کا یورپ جانے کا اعلان ان کی کشتی کے کیریئر کے زوال کی وجہ ثابت ہوا۔
ان کے پوتے فیروز شیخ، جو کہ اب سعودی عرب میں رہتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ’ممبئی میں ایک غیر ملکی خاتون ان سے کشتی لڑنے آئی تھیں۔ وہ دادی سے ہار گئیں اور وہ ان سے متاثر ہو کر انھیں یورپ لے جانا چاہتی تھیں لیکن ان کے ٹرینر سلام پہلوان کے لیے یہ خیال قابل قبول نہیں تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں روکنے کے لیے سلام پہلوان نے لاٹھیوں سے مارا، ان کے ہاتھ توڑ دیے۔‘
اس وقت تک دونوں علی گڑھ سے اکثر بمبئی اور کلیان آتے رہتے تھے، جہاں ان کا دودھ کا کاروبار تھا۔
کلیان میں حمیدہ بانو کے اس وقت کے پڑوسی راحیل خان بھی، جو کہ اب آسٹریلیا میں رہتے ہیں، ان پر تشدد کے اسی طرح کے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سلام پہلوان نے درحقیقت ان کی ٹانگیں بھی توڑ دی تھیں۔ مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ وہ کھڑی نہیں ہو پاتی تھیں۔ ان کے پیر بعد میں ٹھیک ہو گئے لیکن وہ برسوں تک بغیر لاٹھی کے ٹھیک سے چل نہیں پاتی تھیں۔‘
دونوں کے درمیان لڑائیاں معمول بن گئیں۔ سلام پہلوان علی گڑھ واپس چلے گئے لیکن حمیدہ بانوں کلیان میں ہی رک گئیں۔
راحیل بتاتے ہیں کہ ’1977میں جب سلام پہلوان حمیدہ بانو کے پوتے کی شادی میں کلیان ایک بار پھر آئے تھے، تب دونوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔ لاٹھی لے کر نکل گئے تھے دونوں طرف سے لوگ۔‘
حالانکہ سلام پہلوان اثر رسوخ کے مالک تھے۔ ان کے رشتے داروں کے مطابق ان کی سیاست دانوں اور فلمی ستاروں سے قربت تھی اور خود بھی ایک نواب کی طرح زندگی گزارتے تھے۔
لیکن فیروز بتاتے ہیں کہ سلام نے حمیدہ کے تمغے اور دیگر سامان بیچ دیے جس کے نتیجے میں جب ان کی آمدن کا ذریعہ ختم ہو گیا تو انھیں کافی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑا۔
کیا حمیدہ بانو کی سلام پہلوان سے کبھی شادی ہوئی؟
اگرچہ وہ کلیان میں جس کمپلیکس میں رہتی تھیں وہ کافی بڑا تھا، جس میں ایک مویشیوں کا تبیلا تھا اور بے قاعدہ تعمیر شدہ عمارتیں تھیں جو انھوں نے کرائے پر دے رکھی تھیں۔ لیکن کرائے میں طویل عرصے تک اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اس معمولی رقم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی تھی۔
راحیل بتاتے ہیں کہ ان کے والدین پڑھے لکھے تھے جس کی وجہ سے حمیدہ اکثر ان سے ملنے آتی تھیں۔ راحیل کی والدہ فیروز اور ان کے بہن بھائیوں کو انگریزی سکھاتی تھیں۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جیسے جیسے سلام کے ساتھ لڑائیوں میں اضافہ ہوا، وہ اکثر اپنی بچت محفوظ رکھنے کے لیے میری ماں کے پاس لاتی تھیں۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے آخری دنوں میں کافی مشکلیں آن پڑی تھیں۔ ’وہ کلیان میں اپنے گھر کے سامنے کھلے میدان میں بوندی بیچا کرتی تھیں‘۔
حالانکہ انھوں نے اپنے بچوں کو علی گڑہ یا مرزا پور جانے سے سختی سے منع کیا تھا، سلام پہلوان کی بیٹی سہارا، جو کہ علی گڑھ میں مقیم ہیں، نے مجھے بتایا کہ جب وہ بستر مرگ پر تھے تو حمیدہ ان سے ملنے ایک بار علی گڑھ واپس آئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پہلوانی: جب ضیا الحق نے بھولو برادران کے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی
گوجرنوالہ کے باسیوں کو پہلوانی کی کچھ عادت سی ہے
’مٹی کے اکھاڑوں سے میٹ ریسلنگ کا سفر آسان نہیں‘
اس ہفتے حمید بانو کے موضوع پر جب سہارا سے فون پر میری بات ہو رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ حمیدہ بانو کو اپنی ماں کہنے سے گریز کر رہی ہیں۔
میری طرف سے مزید اصرار کرنے پر انھوں نے بتایا کہ حمیدہ ان کی سوتیلی ماں تھیں۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حمیدہ کی شادی سلام پہلوان سے ہوئی تھی؟ سہارا کہتی ہیں کہ ’ہاں، ہوئی تھی۔‘
مرزا پور میں حمیدہ بانوں کے ایک رشتے دار نے بھی بتایا کہ سلام پہلوان سے ان سے ان کی ’شادی‘ آزادی سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
حمیدہ بانو کے والدین ان کے مردوں کا کھیل کھیلنے یعنی کشتی لڑنے کے خلاف تھے۔ اسی دوران سلام پہلوان ان کے شہر کے دورے پر گئے جس نے انھیں باہر نکلنے کا موقع فراہم کیا۔
سہارا کہتی ہیں، ’والد صاحب مرزا پور گئے تھے کشتی کے لیے۔ وہاں ان کی ملاقات حمیدہ سے ہوئی اور وہ انھیں یہاں علی گڑھ لے آئے۔‘
’وہ ان کی مدد چاہتی تھیں۔ ان کی کشتیاں میرے والد کی مدد سے ہوتی تھیں، اور وہ ان کے ساتھ رہتی تھیں۔‘
حالانکہ اپنے رشتوں کی درجہ بندی حمیدہ بانو اور سلام پہلوان خود بہتر کرتے، حمیدہ کے پوتے فیروز، جو حمیدہ بانو کے ساتھ ان کے آخری وقت تک موجد تھے، سہارا اور دوسرے رشتے داروں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’وہ سلام پہلوان کے ساتھ رہتی ضرور تھیں لیکن ان سے شادی کبھی نہیں کی۔‘
وہ اپنے اور اپنے دادی حمیدہ بانو کے رشتوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’دراصل، دادی نے میرے والد کو گود لیا تھا۔ لیکن میرے لیے تو وہ میری دادی ہیں۔‘
حمیدہ بانو اور سلام پہلوان کے خاندان کے رکن کے متضاد دعوؤں کے باوجود ان کے ذاتی رشتوں کی باریکیاں آج اہم نہیں ہیں لیکن یہ اہم ضرور ہے کہ یہ تقریباً یقینی ہے کہ ’کوئی مائی کا لال‘ پیدا نہیں ہوا جو ’اس شیر کی بچی‘ کو تاحیات کشتی میں ہرا سکا۔