’بحران سے نکلنے کے لیے نظام بدلنا ہوگا‘ مفتاح اسماعیل

بی بی سی اردو  |  May 13, 2023

Getty Images

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنما مفتاح اسماعیل کے پاس پاکستان کے معاشی مسائل کا واحد حل ہے اور وہ نظام میں تبدیلی۔ وہ سسٹم بدلنا چاہتے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ لیکن ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ نظام کو بدلنے سے جو چیز روک رہی ہے وہ نظام ہی ہے۔

مفتاح صاحب آج کل برطانیہ کے دورے پر ہیں جہاں وہ پاکستان کے اقتصادی مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر بات کر رہے ہیں۔ لندن کی سویس (سکول آف اوریئنٹل اینڈ ایفریقن سٹڈیز) یونیورسٹی میں انھوں نے ’ری امیجننگ پاکستان: رووٹ کاز آف اکنامک کرائسز‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کا اگر ترجمہ کریں تو شاید یہ کچھ اس طرح ہو: ’پاکستان کا دوبارہ تصور: اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ۔‘

مفتاح صاحب سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اقتصادی بحران کی وجہ کیا ہے اور یہاں لگتا ہے کہ وہ کچھ کچھ عمران خان کے ساتھ بھی کھڑے ہیں جو ’نیا پاکستان‘ بنانا چاہتے ہیں۔ جب تک کچھ نیا نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک چیزیں نہیں بدلیں گی۔ لیکن سوال گھوم پھر کر پھر وہیں آ جاتا ہے کہ ’بدلنا چاہتا کون ہے یا یوں کہیے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔‘

سڑکوں پر نکل کر جلاؤ گھیراؤ سے تو شاید ہی کوئی اقتصادی مسئلہ حل ہوتا ہو یا اربوں کھربوں روپے کا قرض واپس ہو سکے۔ تو پھر حل کیا ہے؟ مفتاح اسماعیل نے ماہرِ معیشت اور سیاست دان کی بجائے ایک نہایت شفیق استاد کی طرح سویس کے ہال میں موجود شرکاء کو بتایا کہ ہر مشکل کی بہترین چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک موقع بھی لاتی ہے اور عقل مند وہ ہوتے ہیں جو اس موقعے کو استعمال کریں۔

BBC

’ہم شاید ڈیفالٹ نہ کریں لیکن ہم اس کی صرف جا رہے ہیں۔ لیکن ہر ایک مشکل کے پیچھے ایک موقعہ بھی ہوتا ہے،‘ مفتاح اسماعیل نے ایسے انداز میں یہ جملہ ادا کیا جیسے کہیں نہ کہیں انھیں امید ہے کہ چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان کی زیادہ تر باقی گفتگو اتنی پرامید نہیں لگتی تھی۔

انھوں نے نہایت سادہ پیرائے میں اپنی بات دہراتے ہوئے ایک سوشیالوجسٹ کی طرح بتایا کہ پاکستانی معاشرے کے اس بند گلی کی طرف جانے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ انھوں نے بات ہی پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے سے شروع کی جسے وہ ایلیٹ کلچر کہتے ہیں۔

’پاکستان ایک ایلیٹ کیپچرڈ سٹیٹ یا اشرافیہ کے زیر تسلط ریاست ہے۔ جو پاکستانی معاشرے کو اس طرح کنٹرول کرتے ہیں جو باقی دنیا سے کافی زیادہ مختلف ہے۔ پوری دنیا میں حکمران اشرافیہ کے پاس پاورز ہوتی ہیں لیکن پاکستان اس حوالے سے ایک خاص کیس ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایلیٹ کپچرڈ سوسائٹی (اشرافیہ کے زیر تسلط معاشرے) ہے اس لیے ریاست کے پاس گروتھ یا ترقی کے لیے کوئی خواہش ہی نہیں رہ جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ریاست کو کنٹرول کر رہے ہیں وہ پہلے ہی بہت امیر اور طاقتور ہیں اور ان کی گروتھ کے لیے ضروریات بہت کم ہیں اور وہ حالات کو جوں کے توں رکھنا چاہتے ہیں۔‘

مفتاح اسماعیل کے بقول جب کوئی ریاست ترقی کرنا ہی نہیں چاہتی اور وہ صرف سٹیٹس کو ہی رکھنا چاہتی ہے تو ایسی ریاست غیر موثر ہو کر رہ جاتیہے۔ ’اس لیے پاکستانی ریاست پوری دنیا میں ان ریاستوں میں سے ہے جو سب سے زیادہ غیر موثر ہے اور اس کی گورننس بھی بالکل اسی طرح ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف سیاسی یا معاشرتی بحران نہیں ہے بلکہ معاشی بحران بھی ہے اور اس بحران سے باہر نکلنے کے لیے قوم کا بنیادی ڈھانچہ بدلنا پڑے گا۔ ’جب تک ہم اس قوم کا ڈھانچہ یا طرز حکمرانینہیں بدلیں گے شاید پاکستان اس بحران سے کبھی بھی باہر نہ نکل سکے۔‘

انھوں نے ایلیٹ کیپچرڈ سٹیٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی مثال تو تعلیم کا نظام ہے۔ ’اس کی ایک مثال ہی لے لیجیے۔ ہماری سپریم کورٹ کے آدھے یا شاید آدھے سے زیادہ ججز ایک سکول سے آتے ہیں اور وہ ہے ایچیسن کالج لاہور۔ عمران خان کی بھی تقریباً 60 فیصد کابینہ وہیں سے آئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 200000 سکول ہیں، لیکن اگر صرف ایک سکول سے ہی آپ کے آدھے سے زیادہ جسٹسز اور چیف جسٹسز آتے ہیں تو یہ کیسے منصفانہ ہو گا۔ اسی طرح ایک اور بھی سکول ہے اور وہ ہے کراچی گرائمر سکول۔

’اس وقت کے چیف جسٹس ایچیسن سے ہیں اور جب یہ ریٹائر ہو جائیں گے تو اگلے چیف جسٹس کراچی گرائمر سکول سے ہوں گے۔ اسی طرح کے چند ایک اور سکول بھی ہیں جن سے پڑھے ہوئے 25، 30 ہزار بچے پاکستان میں ہر بڑا عہدہ سنبھالتے ہیں۔ انھیں بچوں کے والدین آج کل ہر پوزیشن کنٹرول کرتے ہیں۔‘

انھوں نے سوال کیا کہ پھر ہم معاشرے میں کیسے انصاف لا سکتے ہیں جب کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہے ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس تین پاکستان ہیں۔ ایک پاکستان ایک فیصد ایلیٹ کا ہے، دوسرا پاکستان کے تقریباً 1 فیصد اور تیسرے پاکستان کے 90 فیصد غریب آدمیوں کا پاکستان ہے جن کے آدھے سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے اور تقریباً ایک کروڑ بچے مدرسوں میں جاتے ہیں۔

تعلیم کے بعد انھوں نے بتایا کہ سیاست کس طرح ایلیٹ کا کھیل ہے اور وہ کیسے سیاست اور صنعت کو ’کیپچر‘ کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ تقریباً سبھی پارٹیاں نسل در نسل آ رہی ہیں حتکہ کچھ سیکولر اور مذہبی پارٹیاں بھی۔

صنعت بھی اسی طرح چند خاندانوں کے قبضے میں اور اسی طرح بینک اور دیگر کاروباری شعبے۔ پاکستان آرمی بھی ان ہی خاندانوں کی طرح صنعتی شعبے اور بینک چلاتی ہے۔

’کونسینٹریشن آف ویلتھ یا دولت کا ارتکاز انہی کے پاس ہے۔ پہلے بھی یہی خاندان تھے اور اب بھی یہیں ہیں۔ پاکستان میں کچھ نہیں بدلتا۔ کچھ انٹرسٹ گورپس ہیں جو اپنا فائدہ چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں سیاستدان دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات کو روشن بنانے کے لیے کام کرتے ہیں اور اس طرح ملک کی ترقی بھی ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جسے ریاست کو ترقی یا گروتھ کی کوئی خواہش نہیں، بس ایلیٹ کنٹرول ہی رہنا چاہیئے۔

’ہم نے ہر چیز کر کے دیکھ لی، جمہوری نظام، مارشل لا، ہائبرڈ، بہت زیادہ ہائبرڈ، کم ہائبرڈ، لیکن جو نہیں کیا وہ ترقی ہے۔‘

انھوں نے پاکستان کے اقتصادی بحران کی ایک وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی ٹھہرایا۔ پاکستان میں آبادی واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے ہم بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر مفتاح سمجھتے ہیں کہ اگر عورت خود مختار نہیں ہو گی تو وہ اپنے جسم اور اپنی اقتصادی حالت کے متعلق نہیں سوچے گی۔ جب ماں ہی کمزور ہو گی تو بچہ کیسے صحت مند ہو گا۔

انھوں نے کچھ اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بچوں کو مکمل غذا نہیں ملتی اور ان کی نشو نما میں کمی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور کوئی بھی حکومت اس کے متعلق کچھ بھی نہیں کرتی۔ بچے چھوٹی عمروں میں ہی مر رہے ہیں اور ہماری ’انفینٹ مورٹیلیٹی سب سحارا افریقہ سے بھی بری ہے‘۔

انھوں نے اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ پاکستان میں بچے پیدا کرنے والی عمر کی خواتین میں آئرن کی بہت کمی ہے۔ ان کی تعداد تقریباً 42 فیصد ہے اور وہ کم وزن والے بچے کو جنم دیتی ہیں، جو یا تو مر جاتے ہیں یا پھر ان کی نشو نما رک جاتی ہے یعنی وہ سٹنٹڈ ہو جاتے ہیں۔

انھبوں نے کہا باقی مسائل تو ایک طرف لیکن آبادی کو تو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ’آبادی میں اضافے پر قابو پانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اگر حکومت یہ نہیں کر سکتی تو پھر کیا کر سکتی ہے۔ ہمارے پاس موقع ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔ اپنی عورتوں کو تعلیم دیں، تاکہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھیں۔ انھیں گھر سے باہر کام کرنے کی آزدی دیں۔ پاکستان میں آدھے کے قریب پریگنینسیز ان وانٹڈ ہوتی ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ ہوں گی تو آبادی پر کنٹرول کریں گی۔‘

BBC

ڈاکٹر مفتاح نے اپنے لیکچر میں انتہا پسندی اور سٹیٹ اوونڈ انٹرپرائزز (سرکاری شعبے میں صنعتیں) پر بھی بات کی اور کہا کہ قومی صنعتیں تو اکثر ٹیکس ہی نہیں دیتیں اور اپنے انتہائی نقصان اور اخراجات کی وجہ سے وہ وفاق پر ایک بوجھ ہیں۔

’پاکستان کا ٹیکس ریوینیو (محصولات زر) اس سال تقریباً75 سو ارب روپے ہو گا۔ اس میں صوبائی حصہ 60 فیصد ہو گا اور 45 سو ارب صوبائی حکومتوں کو چلا جائے گا۔ اس سال آپ نے سود کی مدد میں 65 سو ارب ادا کرنا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ کو قرض کا سود دینے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑے گا۔ جو کہ ڈیتھ ٹریپ میں پھنسنے کی ’کلاسک ڈیفینیشن‘ ہے۔ آپ کو سود دینے کے لیے بھی ادھار لینا پڑتا ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ایسا ہوتا رہے گا اور اس وقت تک ہوتا رہے جب تک آپ اپنے بجٹ کا ڈھانچہ نہیں بدلتے۔ ابھی تو صرف ایف بی آر ہی ٹیکس اکٹھا کرتا ہے لیکن ڈھانچہ بدلنے کے لیے آپ کو مزید ٹیکس اکھٹا کرنے والے ادارے چاہیئں۔ چاہے وہ لوکل حکومت ہو، صوبائی یا پھر کچھ اور۔ پاکستان میں 22لاکھ دکانیں ہیں جن میں سے صرف 30 ہزار ٹیکس دیتی ہیں۔ ہم اپنی بری گورننس، ٹیکس سٹرکچر اور اپنے بھوکے بچوں کی وجہ سے دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔‘

انھوں نے تجویز کیا کہ ہیلتھ کارڈ کی طرز پر لوگوں کو اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے ایجوکیشن وؤچر بھی دیے جانے چاہیئں۔ اگر کوئی اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھانا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر وہ پرائیویٹ سکول میں پڑھانا چاہتے ہیں تو حکومت اسے اتنے ہی پیسے کا ایجوکیشن وؤچر دے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا حل ہے کہ جو بھی ادارہ بوجھ ہے اسے پرائیویٹائز کر دیں۔ یہی ایک حل ہے۔ جب تک آپ ریوینیو سٹریکس کو احسن طریقے سے ریفارم نہیں کریں گے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘

سویس میں مفتاح اسماعیل کے لیکچر کا انعقاد بلومزبری پاکستان، سویس پاکستان ڈسکشن فورم اور سویس آئیکوپ سٹوڈنٹ سوسائٹی نے کیا تھا اور اس کی میزبانی ماہر اقتصادیات اور سویس میں اکنامکس کے استاد نادر چیمہ کر رہے تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More