’پاکستان کا ذکر کر کے بھی مودی کو کرناٹک کے الیکشن میں شکست ہوئی‘

بی بی سی اردو  |  May 13, 2023

Getty Images

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں پولنگ کے بعد اب ووٹوں کی گنتی جاری ہے مگر ابتدائی رجحانات اور نتائج کے مطابق کانگریس پارٹی آگے نظر آ رہی ہے۔

224 نشستوں والی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے 113 سیٹیں درکار ہیں اور فی الحال کانگریس نے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ رجحانات کے مطابق اکثریت کا ہندسہ عبور کر لیا ہے جبکہ حکمراں جماعت بی جے پی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے تک کے رجحانات میں کانگریس 130 سیٹوں پر آگے ہے اور بی جے پی 66 سیٹوں پر آگے ہے جبکہ جے ڈی ایس سمیت دیگر جماعتوں کو 28 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔

ریاست کے 36 گنتی مراکز پر ووٹوں کا شمار جاری ہے۔

کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے کانگریس کی جیت کے پیش نظر کہا ہے کہ یہ مینڈیٹ نریندر مودی، امت شاہ اور جے پی نڈا کے خلاف ہے۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ راہل گاندھی 2024 میں وزیر اعظم بنیں گے۔

کانگریس لیڈر نے کہا: 'پی ایم مودی 20 بار کرناٹک آئے، آج سے پہلے کسی وزیر اعظم نے اس طرح مہم نہیں چلائی۔'

سابق وزیر اعلیٰ نے کرناٹک انتخابات کے نتائج کو اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات کی بنیاد قرار دیا۔

انھوں نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ تمام غیر بی جے پی پارٹیاں اکٹھی ہوں گی اور بی جے پی کو شکست دیں گی۔ مجھے امید ہے کہ راہل گاندھی ملک کے وزیر اعظم بنیں گے۔'

ریاست کرناٹک میں زبردست انتخابی مہم کے بعد 10 مئی کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور کانگریس پر حملہ آور ہوئے تھے۔ کئی متنازع معاملے سامنے آئے تھے۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس بار ریاست میں 73.19 فیصد پولنگ ہوئی، جو ریاست کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔

Getty Imagesکرناٹک اسمبلی

بعض نیوز چینلوں کے ایگزٹ پول میں ریاست میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی جیت کی پیشین گوئی کی گئی تھی جبکہ بعضے میں معلق حکومت کی بات کہی گئی تھی۔

سنہ 1985 کے بعد سے ریاست میں کسی بھی پارٹی کی مسلسل دو بار حکومت نہیں بنی۔

ایچ ڈی کمارسوامی کی جنتا دل سیکولر (جے ڈی ایس) رجحانات میں تیسری سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنےنظر آ رہی ہے۔

پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ معلق اسمبلی کی صورت میں حکومت بنانے میں جے ڈی ایس کا کردار اہم ہو جائے گا۔ لیکن موجودہ رجحانات میں کانگریس کو جو برتری نظر آ رہی ہے اس کے پیش نظر ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

دہلی میں کانگریس کے صدر دفتر کے باہر کانگریس کے کارکنان اور رہنما جشن مناتے نظر آ رہے ہیں جبکہ ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں بھی ایسا ہی سماں نظر آ رہا ہے۔

دریں اثنا سوشل میڈیا پر گرما گرم مباحثے جاری ہیں۔

BBCبنگلور میں کانگریس کے دفتر کے باہر کا منظر

ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈز میں 'کرناٹک الیکشن رزلٹو'، 'بی جے پی مکت ساؤتھ انڈیا'، مینیفسٹو میٹرز، ووٹ کاؤنٹنگ، کرناٹک چناؤ جیسے ہیش ٹیگز شامل ہیں۔

بہت سے لوگ اسے بی جے پی کے بجائے نریندر مودی کی شکست بتا رہے ہیں۔

روشنی کے آر رائے نامی ایک صارف نے نریندر مودی کے ذریعے اٹھائے جانے والے معاملوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’وہ ہندو مسلم لے آئے، وہ پاکستان (کا ذکر) لے آئے، انھوں نے وکٹم کارڈ کھیلا، انھوں نے جیتنے کے لیے سب کچھ کیا جو کر سکتے تھے۔

’اس کے باوجود وہ 75 سیٹ سے اوپر نہیں جا رہے ہیں۔ یہ مودی کی ہار ہے۔ یہ الیکشن ان کے چہرے پر لڑا گیا تھا۔‘

https://twitter.com/RoshanKrRaii/status/1657231994634514432

جے اے ميگرے نامی صارف نے ایک خاکروب کی ویڈیو ڈالتے ہوئے لکھا: 'کنول کو کامیابی کے ساتھ ہٹا دیا گيا۔ جشن منانے کا وقت ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس فاتح۔'

واضح رہے کہ کنول بی جے پی کا انتخابی نشان ہے اور اس انتخاب میں آپریشن کنول کا بھی ذکر ہوا تھا۔

https://twitter.com/ja_magray/status/1657239320342986753

جہاں اسے لوگ مودی کی شکست بتا رہے ہیں وہیں اسے کانگریس رہنما راہل کی کامیابی بتا رہے ہیں۔

کلاسک موجیٹو نامی ایک صارف نے لکھا: ’کرناٹک کی کہانی۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا پہلا اثر۔'

اس کے ساتھ انھوں نے راہل کی یاترا کی ایک تصویر ڈالی ہے جس میں 'ہی کیم، ہی واکڈ، ہی کنکرڈ' یعنی وہ آیا، وہ چلا اور اس نے فتح کیا لکھا ہے۔

https://twitter.com/classic_mojito/status/1657232860259164162

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی ریاست ’کرناٹک کی انتخابی بساط پر بہت کچھ داؤ پر ہے‘

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں حجاب پر تنازع

کیا ’دلت مسلمانوں‘ کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوششیں بی جے پی کی ’چالاکی پر مبنی سیاسی چال‘ ہے؟

بہوجن سماج پارٹی سے رکن پارلیمان کنور دانش علی نے ٹویٹ کیا: 'حجاب، حلال، بجرنگ بلی، کامن سول کوڈ، لو جہاد، دی کیرالہ سٹوری۔۔۔ پولرائز کرنے والا کوئی داؤ کام نہیں آیا۔

’کرناٹک کے عوام نے فرقہ پرستی کو دانستہ طور پر خارج کر دیا ہے۔ اب ملک کی باری ہے۔ 2024 میں ایسے ہی عوامی فیصلے آنے ہیں۔'

https://twitter.com/KDanishAli/status/1657274038623031297

سوریا بارن ٹو ون نامی صارف نے لکھا کہ 'جنوبی انڈیا اب سرکاری طور پر بی جے پی سے آزاد ہو گیا ہے۔'

پال کوشی نامی ایک صارف نے کانگریس رہمنا جے رام رمیش کی ایک ویڈیو کے ساتھ لکھا: 'کرناٹک کے انتخابات کا نتیجہ یا تو وزیر اعظم مودی کو رد کر دے گا یا پھر انھیں ثابت کر دے گا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی ریاستی یونٹ نے پارٹی کے طور پر صرف مودی کے چہرے کا استعمال کیا۔

’کوئی بھی مقامی مسائل پر بات نہیں کی گئی۔ شکست بی جے پی کو کو سنہ 2024 کے عام انتخابات کے لیے بیک فٹ پر لے آئے گی۔'

https://twitter.com/Paul_Koshy/status/1657202814324740098

اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ایک پیغام گردش کر رہا ہے جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گذشتہ چھ برسوں میں بی جے پی کو 19 ریاستوں میں ناکامی ملی ہے اور جہاں وہ حکومت میں ہے وہاں ایک چھوٹے پارٹنر کی حیثیت سے لیکن انڈین میڈیا میں ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سارے ملک میں مسٹر مودی ہی جیت رہے ہیں۔

جالیٹیشین نامی ایک صارف نے لکھا: 'میں سارے ساؤتھ انڈیا کا نفرت سے پاک ہونے پر احترام کرتا ہوں۔ کرناٹک والوں نے بی جے پی کو اس کی جگہ دکھا دی، ہم ہماری باری ہے کہ ہم بی جے پی کو 2024 میں رد کر دیں۔'

https://twitter.com/the_lad_one/status/1657255289585012737

کرناٹک میں اس سے قبل بھی کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ ووٹ آئے تھے لیکن سیٹیں بی جے پی کو زیادہ تھیں تو اس نے حکومت سازی کی تھی۔

موجودہ اسمبلی میں حکمراں بی جے پی کے 116 ایم ایل اے ہیں، کانگریس کے 69، جے ڈی ایس کے 29، بی ایس پی کے ایک اور دو آزاد ہیں۔ چھ نشستیں خالی ہیں جبکہ ایک سپیکر کی نشست ہے۔

لیکن جب 2018 میں انتخابی نتائج آئے تو اسمبلی کی تصویر مختلف تھی۔

بی جے پی 104 سیٹوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ کانگریس کو 80 اور جے ڈی ایس کو 37 سیٹیں ملیں۔

تاہم، 38.04 ووٹ شیئر کے ساتھ، کانگریس بی جے پی (36.22ووٹ شیئر) سے آگے تھی۔

بی جے پی نے اپنا دعویٰ پیش کیا اور حکومت بن گئی، لیکن یہ حکومت اعتماد کے ووٹ میں گر گئی اور پھر جنتا دل (سیکولر) اور کانگریس کی مخلوط حکومت بن گئی۔ جے ڈی ایس لیڈر ایچ ڈی کمارسوامی وزیر اعلیٰ بن گئے۔

14 ماہ کی یہ حکومت اس وقت گر گئی جب حکمران حکومت کے باغی ایم ایل اے نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔

بی جے پی ایم ایل اے کی تعداد 104 سے بڑھ کر 121 ہوگئی اور اس نے حکومت بنائی۔ تاہم اس دوران بی جے پی نے دو وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا۔

پہلے یدی یورپا اور پھر انھیں ہٹا کر بسواراج بومئی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More