Getty Images
انڈیا میں گذشتہ ماہ ٹی وی کیمروں کے سامنے براہ راست قتل کیے جانے والے ’گینگسٹر سیاستدان‘ عتیق احمد کو ان کی زندگی میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھا جاتا رہا۔
انتہائی سفاکی سے قتل کیے جانے عتیق احمد کی زندگی کا باب ختم ہوتے ہی اتر پردیش کے شہر پریاگ راج میں چار دہائیوں پر محیط دہشت کا عہد بھی تمام ہوا۔
پریاگ راج، جسے پہلے الہ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا، گئے زمانوں میں کبھی اپنی بھرپور ثقافت کے لیے جانا پہچانا جاتا تھا۔
عتیق احمد کی ہنگامہ خیز زندگی کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے نئی دہلی سے بی بی سی کے نمائندے سوتک بسواس اور پریاگ راج سے وکاس پانڈے نے تحقیق کی اور جانا کہ وہ کیا حالات تھے جنھوں نے عتیق احمد کے لیے جرائم اور سیاست کے درمیان سرحدوں کو مٹا کے رکھ دیا تھا۔
جنوری 2005 کی ایک دھند زدہ صبح تھی جب کچھ عرصے قبل ہی قانون ساز کا عہدہ سنبھالنے والے راجو پال شمالی انڈیاکے شہر پریاگ راج میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک دو گاڑیاں تیزی سے نمودار ہوئیں اور ان کے آگے خطرناک طریقے سے مڑ کر رُک گئیں۔
نصف درجن سے زیادہ آدمیوں نے چھلانگ لگا کر راجو پالکی ٹویوٹا ایس یو وی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اپنی بندوقوں سے کئی گولیاں برسانے کے بعد وہ وہاں سےفرار ہو گئے۔
اس واقعے کے فوری بعد راہگیروں نے خون میں لت پت راجو پال کو گاڑی سے نکالا اور انھیں ہسپتال لے جانے کے لیے دوسری گاڑی میں منتقل کیا۔
تاہم حملہ آور اپنے قریب المرگ ہدف پر دوبارہحملہ کرنے کے لیے واپس پلٹ آئے۔
یہ تمام مناظر کرائم رپورٹر رویندر پانڈے نے کیفے ٹیریا میں کافی کے گھونٹ پیتے دیکھے۔ انھوں نے کاروں کے ایک قافلے کو دیکھا جو زخموں سے چور اس سیاست دان کو ہسپتال لے جانے والی گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔
BBC راجو پال
ان حملہ آوروں نے گاڑی کا ہسپتال پہنچنے تک تعاقب جاریرکھا اور چند مزید راؤنڈ فائر کیے تاکہ راجو کی موت کو یقینی بنایا جا سکے۔
ڈاکٹروں کو راجو پال کے جسم سے 19 گولیاں ملیں۔
راجو پال قانون ساز تھے تاہم مبینہ طور پر خود انڈرورلڈ سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ اس وقت ان کی شادی کو صرف نو دن ہوئے تھے۔
رویندر پانڈے نے اس قتل سے متعلق بتایا ’ہم نے شوٹنگ دیکھی، پورے شہر نے اس قتل کا منظر دیکھا۔ یہ واقعہ یہاں اس طرح کا پہلا واقعہ تھا لیکن ہر کوئی جانتا تھا کہ اس حملے کا ذمہ دار کون ہے۔‘
اس وقت پریاگ راج کے سب سے بڑے گینگسٹر عتیق احمد سیاست میں قدم رکھ چکے تھے۔ پانچ بار ریاست کی اسمبلی میں بطور قانون ساز منتخب ہونے کے بعد آخرکار قتل سے ایک سال پہلے عتیق احمد انڈیا کی پارلیمان کے رکن بن گئے تھے۔
پال کو مبینہ طور پر اس لیے مار دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے عتیق احمد کو چیلنج کرنے کی ہمت کی تھی۔ عتیق احمد نے ریاستی انتخابات میں اپنی الہ آباد کی نشست اپنے بھائی اور ساتھی اشرف کو سونپ دی تھیتاکہ وہ پھول پور سے پارلیمانی الیکشن جیت سکیں۔
تاہم انتخابات میں اشرف کو پال کے ہاتھوں چارہزار ووٹوں سے زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر پال کو قتل کروا کر اس شکست کا بدلہ لیا تھا۔
انھیں اس کیس میں مرکزی ملزم نامزد کیا گیا تھا۔
BBC
عتیق احمد کاٹریڈ مارک سفید پگڑی اور بل دار گھنی مونچھیں تھیں۔ تاہم وہ جہاں بھی جاتے خوف و دہشت کی ایک انجانی لہر دوڑ جاتی۔
عتیق احمد کے والد ایک غریب تانگہ چلانے والے تھے اور ان کی ماں انتہائی گھریلو اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔
تاہمعتیق احمد نے 40 سال سے زیادہ عرصے تک انڈیا کے دو مقدس ترین دریاؤں گنگا اور جمنا کے سنگم پر واقع ایک پرسکون شہر کی انڈرورلڈ دنیا پر اپنا راج قائم رکھا۔
پریاگ راج اپنے شاعروں، گلوکاروں، فنکاروں، ادیبوں اور وکیلوں کے لیے مشہور رہا ہے۔ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور بالی وڈ کے لیجنڈاداکار امیتابھ بچن یہاں پیدا ہوئے تھے لیکن ادب سے مالا مال اس پُرسکونشہر کی تہہ میں جرائم اور سیاست کا آتش گیر مرکب چھپا ہوا تھا۔
اس پرسکون شہر کیبدنامی میں عتیق احمد کا مکمل ہاتھ رہا۔ اپنے گھر میں وہ پانچ بیٹوں کے شفیق باپ تھے جن کا شوق نسلی کتے پالنا تھا۔
وہ شاندار دعوتیں کرتے اور اپنے دوستوں کے لیے مشاعروں کی میزبانی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی ایک ایسی ہی محفل میں بالی وڈ کے ایک مشہور گیت نگار نے بھی شرکت کی تھی۔
لیکن ان سب سے باہر انھوں نے مبینہ طور پر جائیدادوں اور کاروباروں پر قبضہ کیا، تاجروں سے بھتے لیے، خریداری کے لیے جعلی چیک جاری کیے اور اپنے حریفوں کو جیل بھیجا۔
اس کام میں مبینہ طور پر بہت سے پولیس افسران اور سیاست دانوں نے ان کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ عدالتیں بھی ان کے معاملے میں محتاط نظر آئیں۔
2012 میں ہائی کورٹ کے 10 ججوں نے اس مقدمےکی سماعت سے خود کو الگ کر لیا کہ جس میں ان کو ضمانت دینے کا معاملہ زیر سماعت تھا۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عتیق احمد کا پولیس کے پاس ایک لمبا چوڑا ریکارڈ تھا۔ وہ نام نہاد ’انٹر سٹیٹ گینگ 227‘ کے سرغنہ تھے اور ان پر قتل اور اغوا سمیت تقریباً سو مقدمات درج تھے۔ پھر بھی کافی عرصے تک وہ کھلے عام دندناتے پھرتے رہے۔
پریاگ راج کے ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر لال جی شکلا کہتے ہیں کہ عتیق احمد کے جرائم کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
’لوگ ان سے ڈرتے تھے اور سینکڑوں شکایات کی رپورٹ تک نہیں کرتے تھے۔‘
اس کے باوجود، اس سال مارچ میں ہی عتیق احمد کو اغوا کے ایک معاملے میں ملوث پا کر مجرمقرار دیا گیا اور انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اتنے برسوں میں یہ پہلی بار تھا جب انھیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ لال جی شکلاکے مطابق ’اس تاخیر کی وجہیہ تھی کہ عتیق احمد کوعلم تھا کہ نظام کو کیسے اپنے فائدے کے لیے چلانا ہے۔‘
’ان کے کیس کی اکثر تاریخ نہیں پڑتی تھی، دوسری جانب وہ گواہوں کو دھمکیاں دیتا تھے یہاں تک کہ کچھ گواہ جو ان سے خوفزدہ نہیں تھے وہ بھی کئی سالوں کی عدالتی تاریخوں کے بعد بالآخر تھک جاتے تھے۔‘
لیکن سزا سنائے جانے کے چند دن بعد 15 اپریل کی رات، یہ سب کچھ ایک بھیانک انداز میں ختم ہو گیا۔
Sanjay Banaodhaعتیق احمد کو سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے جانا جاتا تھا
عتیق احمد اور ان کے بھائی کو ایک درجن سے زیادہ مسلح پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں پریاگ راج کے ایک ہسپتال کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
جس وقت یہ قتل ہوا اس وقت پولیس عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو میڈیکل چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جا رہی تھی اور وہ کیمرہ پر انٹرویو دے رہے تھے۔
پولیس نے ان کے قتل کے الزام میںتین افراد کو گرفتار کیا جنھوں نے دونوں بھائیوں کو قتلکرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرم کی دنیا میں نام کمانا چاہتے تھے۔
اس قتل کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور ریاستی حکومت نے فوری طور پر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے قتل کے چند دن بعد عتیق محمد کا نام لیے بغیر کہا کہ ’اتر پردیش میں اب کوئی مافیا دہشت نہیں پھیلا سکتا۔‘
عتیق احمد 1962 میں پریاگ راج کے ایک مسلم اکثریتی محلے میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھوں نے غالبا غربت کے باعث ہائی سکول چھوڑ دیا تھا اور چھوٹے جرائم میں ملوث ہوتے گئے۔
1979 میں قتل کے ایک مقدمے میں انھیں ملزمنامزد کیا گیا تاہم ان پر الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اگلی دہائی کے دوران ہی انھوں نے ایک گینگسٹر کے طور پر اپنا نام بنا لیا۔
انھوں نے ریلوے یارڈز سے سکریپ میٹل چوری کیا، حریف ٹھیکیداروں کو دھمکیاں دے کر سرکاری ٹھیکے حاصل کیے اور دوسروں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کیے۔
انھوں نے گینگسٹر سے میونسپل کارپوریٹر بننے والے ’شوق الٰہی‘ کی قیادت میں ایک گینگ میں بھی شمولیت اختیار کی، اس گینگ کو چاند بابا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1989 تک، عتیق احمد سیاست میں کیریئر بنانے پر غور کر رہے تھے۔ شوق الہی اور عتیق احمدکے راستے اس وقت جدا ہو گئے جب وہ دونوں اس سال ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوئے۔
شوق الہی نے عتیق احمد کو اپنے مقابلے میں بیٹھ جانے کو کہا تاہم انھوں نے انکار کر دیا۔
اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ دونوں حریفوں کے حامیوں کے دوران ہنگامہ آرائی انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ہوئی یا ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران۔ تاہم شہر کی سڑکوں پر انتخابات کے بعد حریف غنڈوں کے حامیوں کے درمیان پرتشدد گینگ وار چھڑ گئی۔
ہنگامہ آرائی میں شوق الٰہی، جو عتیق احمد کےبنیادی ہدف تھے، مارے گئے۔
لال جی شکلا کو یاد ہے کہ انھیں قتل کے الزام سمیت تین بار گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ہر بار عتیق احمد کو ضمانت مل گئی۔
’عتیق احمد کے ہر جگہ رابطے اور حمایتی موجود تھے۔ ہر کوئی ان سے ڈرتا تھا۔‘
ان رابطوں کی بدولت ایک گینگسٹر کے طور پر عتیق احمد کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے اکثر اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے باعث زیر سماعتمقدمات میں جیل میں وقت گزارا۔
لیکن عتیق احمد نے اکثر اپنے حریفوں اور تاجروں کو پیسے بٹورنے کے لیے جیل تک میں بلایا، انھیں مارنے کا حکم دیا، اور یہاں تک کہ اپنی دہشت کے ثبوت کے طور پر اپنے مخالفین کے ساتھبدسلوکی کی ویڈیوز بھی عام کروائیں۔
2018 میں موہت جیسوال نامی ایک تاجر نے پولیس میں شکایتدرج کروائی تھی کہ انھیں لکھنؤ سے اغوا کر کے دیوریا جیل لے جایا گیا تھا، جہاں عتیق احمد کو رکھا گیا تھا۔
جیسوال نے صحافیوں کو بتایا کہ اسے عتیق احمد، ان کے حواریوں اور یہاں تک کہ جیل کے عملے نے بہت بے دردی سے پیٹا۔
پریاگ راج میں پولیس افسر شکلا عتیق احمد کے شہر میں ایک فلم تھیٹر، ایک ہوٹل، ایک ورکشاپ اور ایک ریستوران پر زبردستی قبضہ کرنے سے متعلقبتاتے ہیں۔
’ایک پرتشدد گینگ وار میں عتیق نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکساں طور پر ہراساں کرنا شروع کیا۔ درحقیقت، اس لڑائی میں بہت سے متاثرین کا تعلق مسلم کمیونٹی سے تھا۔‘
پریاگ راج کے ایک مقامی رہائشی راجکمار اوجھا نے عتیق احمد کی غنڈہ گردی کے حوالے سے کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ کس طرح عتیق احمد نے ان کے بھائیوں کے درمیان زمینی تنازعہ میں دھوکے بازی کی۔
’عتیق احمد نے ثالثی کی پیشکش کی اور زبردستی مہنگا خاندانی پلاٹ اپنی بیوی کے نام انتہائی ارزاں قیمت پر رجسٹر کروا لیا۔ جب میں بعد میں ان سے ملا توانھوں نے مجھے طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بھائیوں کو ٹھیک طرح سے سنبھال نہیں پایا تھا اور اس لیے یہ انجام ہوا۔‘
عتیق احمد کے رشتہ داروں میں سے ایک ذیشان علی نے ایکخوفناک واقعہشیئر کیا۔ یہ واقعہ دو سال قبل ان کے گھر میں پیش آیا تھا۔
ذیشان علی کے مطابق مسلح افراد کا ایک گروہ زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوا، اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ عتیق احمد کے نام ایک پلاٹ پر دستخط کریں۔
ذیشان علی کو عتیق احمد کا خود فون آیا جس میں انھیں اس حکم کیتعمیل کرنے کا کہا گیا۔
Zahidعتیق احمد اس پرانی تصویر میں شوق الہی عرف چاند بابا کی گاڑی چلا رہے ہیں
ذیشان علی کے مطابق ’عتیق احمد نے ان کو دو آپشنز دیے پہلا یہ کہ یا تو زمین کی ملکیت ان کے حوالے کر دیں یا زمین کی قیمت کے ایک تہائی کے برابر رقم انھیں نقد ادا کریں۔ میں خاموش رہا۔پھر عتیق احمد نے اپنے آدمیوں کو مجھے مارنے کا حکم دیا۔ انھوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا لیکن میں جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔‘
عتیق احمدکی دہشت کا اثر پریاگ راج سے آگے تک پھیل گیا۔
اسی طرح کے ایک واقعہ میں، انھوں نے ایک ایسے مسلح گینگ کی قیادت کی جو تقریباً 200 کلومیٹر دور ریاستی دارالحکومت لکھنؤ کے ایک عالیشان محلے میں سوشیل گرنانی نامی تاجر کی زیر ملکیت زمین کے ایک خالی پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔
وہ مسلح افراد کے جتھے کے ساتھوہاں پہنچے، اپنی بندوقیں نکالیں اور کہا کہ اب وہ اس زمین کے مالک ہیں۔
ایک سینئر پولیس اہلکار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط کے ساتھ اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ’ہم نے انھیں زبردستی زمین پر دعویٰ کرنے سے روک دیا۔‘
کچھ دن بعد، عتیق احمد اور ان کے آدمی مبینہ طور پر تاجر کی ملکیت والے ہوٹل میں گھس گئے اور مینیجر کو سی سی ٹی وی کیمروں کو بند کرنے کی ہدایت کی۔
اس کے بعد عتیق احمد نے مبینہ طور پر شہر کے ایک درجن سے زیادہ طاقتور لوگوں کے نام درج کیے اور مینیجر کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ ’جو چاہو کرو، میری تصویر لے لو اور اگر چاہو تو ان لوگوں کو دے دو۔‘
Ankit Srinivasریٹائرڈ پولیس افسر لال جی شکلا
سوشیل گرنانی نے بعد میں نیوز نیٹ ورکس کو بتایا: ’وہ ہمارے ہوٹل میں آئے اور کہا: یہ زمین کل تک آپ کی تھی، اب سے یہ ہماری ہے۔ اگر چاہو تو جاؤ اور وزیر اعلیٰ اور پولیس جس کو چاہو یہ سببتاؤ۔‘
جولائی 2008 میں عتیق احمد اور پانچ دیگر انڈین اراکین پارلیمنٹ اغوا، قتل، بھتہ خوری کے الزام میں 100 سے زیادہ مقدمات کا سامنا کرنے پر جیل میں قید تھے تاہم حکومت نے انھیں عدم اعتماد کے ووٹ میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے رہا کر دیا تھا۔
اس وقت کی تصاویر میں سفاری سوٹ میں چمکتے دمکتے چہرے کے ساتھ عتیق احمد کو پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
حکمراں کانگریس پارٹی کی زیرقیادت یو پی اے کی حکومت ووٹنگ میں جیت گئی جس کے بعد سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے ممبران پارلیمنٹ پھر جیل واپس چلے گئے۔
میلان ویشنو نے اپنی کتاب (When Crime Pays: Money and Muscle in Indian Politics)’وین کرائم پیز: منی اینڈ مسلز ان انڈین پولیٹکس‘ میں لکھتے ہیں:
’عتیق احمد کے خلاف مجرمانہ مقدمات کی لمبی فہرست تھی جن میں وہ ملزم نامزد تھے، عتیق احمد ایک مجرمانہ کاروبار چلانے میں اتنا ہی ماہر تھے جتنا کہ وہ حلقہ کی خدمت کر رہے تھے۔‘
پولیٹیکل سائنٹسٹ میلان وشنو نے ایک سیاست دان کے طور پر عتیق احمد کی زندگی کا ایک واضح خاکہ فراہم کیا ہے۔
’عتیق احمد کی جانب سے مقامی افراد کے لیے ’ہفتہ وار دربار‘ کا اہتمام کیا گیا جہاں عتیق احمد ایک کان پر اپنا موبائل فون پر رکھے ہوتے اور دوسری جانب حلقہ کے مسائل سن کر اپنے ذاتی معاون یا سٹینوگرافر کو فوری حل کرنے کی ہدایت کرتے۔ مقامی افراد کو ان کی اس بات نے حیران کیے رکھا۔‘
AFP2008 میں عتیق احمد جیل میں قید تھے جب حکومت نے انھیں عدم اعتماد کے ووٹ میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے رہا کیا
میلان وشنو نے لکھا ’عتیق احمد کی پارٹی کا ہیڈکوارٹر انتظامی دفتر کے برخلاف ایک اسلحہ خانے سے مماثلت رکھتا تھا جہاں دیواریں متاثر کن طور پر درآمد شدہ خودکار ہتھیاروں سے سجی ہوئی تھیں۔‘
عتیق احمد جیسے گینگسٹر کی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنا یا اپنی سیاسی جماعت بنانے کا مقصد بنیادی طور پر اپنا تحفظ تھا۔
وہ عام طور پر ان نشستوں پر جیت جاتے جہاں ذات پات یا مذہب کی وجہ سے سماجی تقسیم گہری تھی اور حکومت کو غیر جانبدارانہ طریقے سے خدمات اور انصاف کی فراہمی، یا تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا تھا۔
زیادہ تر گینگسٹر سیاستدانوں کی طرح عتیق احمد نے بھی الجھی ہوئی زندگی گزاری تھی۔ 1989 سے 2002 تک، انھوں نے مسلسل پانچ بار پریاگ راج میں ایک ہی نشست جیتی۔
انھوں نے ایک آزاد امیدوار کے طور پر سیاسی سفر کی شروعات کیں اور بعد میں بااثر علاقائی سماج وادی پارٹی کے رہنما بن گئے اور آخر کار وہ ’اپنا دل‘ نامی جماعت میں شامل ہو گئے جس کی شروعات ایک نچلی ذات کے رہنما نے کی تھی۔
عتیق احمد کو سماج وادی پارٹی کی حکمرانی کے دوران سب سے زیادہ کامیابی ملی تھی جہاں انھیں جماعت کے سینیئر رہنما ملائم سنگھ یادو کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے جانا جاتا تھا جو گذشتہ برس وفات پا گئے تھے۔
یہ سماج وادی پارٹی ہی تھی جس نے انھیں پھول پور سے الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا تھا۔ یہ وہی سیٹ ہے جس نے جواہر لعل نہرو کو تین بار پارلیمنٹ بھیجا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا کے سابق ایم پی عتیق احمد: دو دن پہلے بیٹے کا انکاؤنٹر، پھر بھائی سمیت کیمرے کے سامنے قتل
انڈیا: سابق ایم پی عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قتل کے ملزم کون ہیں؟
عتیق احمد کا قتل: ’سیاست دان تشدد کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘
Reuters
سماج وادی پارٹی کے لیڈر کے طور پر عتیق احمد نے پرتشدد حربے استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
وہ مبینہ طور پر علاقائی بہوجن سماج پارٹی کی دلت رہنما مایاوتی پر 1995 کے بدنام زمانہ ’گیسٹ ہاؤس حملے‘ میں ملوث تھے۔ مخلوط حکومت چلانے والی یہ جماعت اس وقت سماج وادی پارٹی کی حریف سجھی جاتی تھی۔
عتیق احمد مبینہ طور پر ایک گیسٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے والے اس گروہ کا حصہ تھے جہاں مایاوتی میٹنگ کر رہیتھیں۔ اس میٹنگ میں بحث کی جا رہی تھی کہ آیا حکومت سے دستبرداری اختیار کی جائے یا نہیں جب ان پر حملہ کیا گیا۔
جب مایاوتی 2002 اور 2003 کے درمیان اتر پردیش میں دوبارہ برسر اقتدار آئیں تو عتیق احمد پہلی بار کمزور ہوئے۔
ان کی بہت سی جائیدادوں کو (تجاوزات قرار دے کر) گرا دیا گیا جس میں ان کا وہ وسیع و عریض دفتر بھی تھا جہاں وہ لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ پھرانھیں جیل بھیج دیا گیا۔
تاہم ان کی قسمت نے اس وقت ایک بار پھر پلٹا کھایا جب 2003 میں سماج وادی پارٹینے ایک بار پھرانتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت تک وہ ایک تجربہ کار سیاستدان بن چکے تھے۔
عتیق احمد نے عوامی جلسوں میں ہجوم کے جزبات سے خوب کھیلا اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح بات کی۔
انھوں نے مساوات، سیکولرازم، سماجی انصاف اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بھی بات کی۔ ایسے ہی ایک جلسے میں خطاب میں عتیق احمد نے کہا تھا، ’تعلیم سب سے بڑی محبت ہے جو آپ اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں۔‘
Ankit Srinivas
جب رپورٹرز ان سے ان کے مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں دریافت کرتے تو عتیق احمد ان کو قائل کرنے کے لیے کہتے کہ ایک عدالت نے ان کے خلاف ایک دن ہی ریکارڈ 123 مقدمات کو خارج کر دیا تھا۔
عتیق احمد کے مطابق ’کیا ایسا کہیں دنیا میں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے جھوٹے مقدمات کا سامنا ہے۔‘
عتیق احمد نے خود کو سیاست میں ایک قربانی دینے والی شخصیت کے طور پر پیش کرتے۔ ان کا دعویٰتھا کہ ان کی ذاتی زندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اپنے لیے زندہ نہیں بلکہ لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پریاگ راج کے ایک ممتاز اخبار دی لیڈر کے ایڈیٹر انوپم مشرا کہتے ہیں کہ ’عتیق احمد کا غریبوں کو ان کے میڈیکل بلوں کی ادائیگی اور ان کے بچوں کو سکول بھیجنا اپنا امیج بہتر بنانے کے منصوبے کا حصہ تھا۔‘
عتیق احمد نے ایک بار کہا تھاکہ ان جیسا سیاسی طور پر کامیاب آدمی ہمیشہ دشمنوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا اور جیل جائے گا۔
انھوں نے اپنا موازنہ نیلسن منڈیلا سے کرتے ہوئے کہا کہ ’ان جیسے قابل احترام سیاستدان بھی 27 سال تک جیل میں رہے۔ منڈیلا ایک زمانے میں انتہائی مطلوب آدمی تھے پھر وہ اپنے ملک کے سب سے معزز حکمران بن گئے۔‘
Ankit Srinivasذیشان
عتیق احمد نے 2003 سے 2007 کے درمیان اپنی سیاسی طاقت کو مستحکم کیا لیکن سماج وادی پارٹی کی حکومت ختم ہونے سے پہلے 2007 میں نئے انتخابات کا مرحلہ آیا تو اس وقت ایک ہولناک کیس نے ان کے زوال میں اضافہ کیا۔
یہ مقدمہ تھا دو نوجوان لڑکیوں کو مدرسے سے اغوا کر کے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ اپنے حلقے کے مسلمانوں کی حمایت کھو دیں گے۔
اس واقعے سے کمیونٹی میں ان کے خلافشدید غم وغصہ پیدا ہوا تھا اور بہت سے لوگوں نے عتیق احمد اور ان کے غنڈوں پر انگلیاں اٹھائیں حالانکہ پولیس کو کی جانے والی شکایت میں ان کا نام نہیں لیا گیا تھا۔
ذیشان علی کہتے ہیں ’اس واقعے کے بعد سے عتیق احمد نے اپنی کمیونٹی کی ہمدردیاں اور اعتماد کھو دیا جو ان کا سب سے بڑا ووٹنگ بلاک تھا۔‘
اس واقعے کے دو سال بعد عتیق احمد پارلیمنٹ میں اپنی نشست ہار گئے اور اس کے بعد وہ کبھی الیکشن نہیں جیتے۔
لیکن انھوں نے الیکشنمیں حصہ لینا نہیں چھوڑا۔ چاہے وہ جیل کے اندر ہوں یا باہر، جرائم کی دنیا میں بھی وہ خوف کی علامت کے طور پر چھائے رہے۔
2017 میں آدتیہ ناتھ کی بی جے پی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے عتیق احمد نے اپنا زیادہ تر وقت جیل میں گزارا۔
رواں سال فروری کی شام کو اُمیش پال ( راجو پال کے قتل کے عینی شاہد اور وکیل)کو ان کے گھر کے باہر حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حملہ آور مبینہ طور پر عتیق احمد کے گینگ کا رکن تھا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں امیش کو اپنے گھر کے قریب ایک سفید ہنڈائی گاڑی سے باہر نکلتے اور فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ان کا مسلح سکیورٹی گارڈ اگلی سیٹ سے باہر نکلتا ہے تو اسی دوران ایک نوجوان ریوالور سے امیش پال پر گولی چلاتا ہے۔
48 سالہ امیش پال وکیل لڑکھڑاتے ہوئے ایک گلی میں جاتے ہیں جہاں چند دوسرے حملہ آور ان پر فائرنگ کرتے ہیں۔سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق مصروف گلی میں ایک بم پھٹنے سے دھوئیں کے بادل سے بنتے ہیں اور لوگ بے دریغ بھاگتے ہیں۔
عتیق احمد کے خاندان بشمول ان کی بیوی، بیٹے اور بھائی پر امیش کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
چونکہ عتیق احمد اور ان کے بھائی دیگر مقدمات کے سلسلے میں پہلے ہی جیل میں تھے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ انھوں نے امیش پال کو دن دیہاڑے بے دردی سے مارنے کا حکم دیا تھا۔ واضح رہے کہ راجو پال کے قتل کا مقدمہ ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔
BBCامیش پال کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج
عتیق احمد 2019 سے انڈین ریاست گجرات کی ایک جیل میں قید تھے۔ انڈیا کی اعلیٰ عدالت نے حکم دیا تھا کہ انھیںجیل کے اندر سے اپنا گینگ چلانے سے روکنے کے لیے اتر پردیش میں نہ رکھا جائے۔
اس وقت تک وہ اپنے سیاسی سرپرستوں کے حق میں دستبردار ہو چکے تھے۔ ان کے قتل سے چند دن پہلے، ان کا جوان سال بیٹا اسد، جو قانون کا طالب علم تھا، پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
اسد کو مبینہ طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں امیش پال کی شوٹنگ میں دیکھا گیا تھا اور اسی بنا پر امیش کے قتل میں ایک ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
پولیس نے اعلان کیا کہ انھوں نے عتیق احمد گینگسٹر کی 10 ہزار ملین روپے مالیت کی جائیدادیں، مکانات، دفاتر اورکاروبار کو ضبط اور مسمار کر دیا ہے۔
تشدد اور انتقام کا جو سلسلہ عتیق احمد نے شروع کیا وہ جیل جانے کے بعد بھی جاری رہا۔ فروری میں ایک اہم گواہ کو دن دیہاڑے ختم کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے تین ماہ بعدعتیق احمد کو بھی بھیانک انتقام کا سامنا کرنا پڑا۔
کیا کسی کی جانب سے عتیق احمد کے قتل کا حکم دیا گیا تھا؟ اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ جو بھی ہو، پریاگ راج کی انڈر ورلڈ کی سنسنی خیز کہانی کا آخری باب ابھی تک لکھے جانے کا منتظر ہے۔