محمد بشیر: وہ جج جن کی عدالت کے کٹہرے میں چار پاکستانی وزرائے اعظم کھڑے ہوئے

بی بی سی اردو  |  May 12, 2023

مہینوں کی کشیدگی اور سیاسی کشمکش کے بعد پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو آخر کار نو مئی بروز منگل کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار گیا گیا، جس کے بعد پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت سے ان کا آٹھ روزہ ریمانڈ لے کر اپنی تحویل میں لے لیا۔

گذشتہ روز پاکستان کی سپریم کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے گرفتاری کے طریقے کو غیر قانونی قرار دیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتساب عدالت کی طرف سے عمران خان کے آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور آج عمران خان کو دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ نیب نے عدالت سے عمران خان کا 14 روزہ ریمانڈ طلب کیا تھا تاہم جج محمد بشیر نے صرف آٹھ دن کا ریمانڈ دیا۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد نیب عدالت کے جج محمد بشیر زیر بحث ہیں اور اس سے قابل بھی وہ سرخیوں میں آتے رہے ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے پاکستان کے چار وزرائے اعظم ان کی عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔

11 سال سے احتساب عدالت کے جج کے عہدے پر براجمان

جسٹس محمد بشیر اسلام آباد کی تینوں نیب عدالتوں میں انتظامی جج ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں نیب کا جو بھی کیس آئے گا، اس کی سماعت جج محمد بشیر کریں گے۔

ان کے پاس کیس سننے یا کیس کو نہ سننے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ اگر وہ چاہیں تو مقدمہ ان تینوں عدالتوں کے کسی دوسرے جج کو منتقل کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی وزارت قانون کے قواعد کے مطابق نیب ججوں کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے تاہمجج محمد بشیر گزشتہ 11 سال سے اسلام آباد کی نیب کورٹ نمبر ایک میں تعینات ہیں۔

جج محمد بشیر کو سنہ 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تعینات کیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 2018 میں نواز شریف نے ایک بار پھر انھیں تین سال کے لیے اس عہدے پر مقرر کیا۔

ان کی دوسری مدت ملازمت سنہ 2021 میں ختم ہوئی لیکن اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انھیں دوبارہ تین سال کے لیے جج مقرر کیا۔

BBCنیب جج کیسے تعینات ہوتے ہیں؟

عامر سعید عباسی نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے سینیئر کورٹ رپورٹر ہیں۔ عامر عباسی نے ’دنیا نیوز‘ کے ایک پروگرام میں بتایا کہ تقرری کے لیے جج کے نام کی تجویز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے وزارت قانون کو جاتی ہے۔ اس کے بعد وزارت قانون اس تجویز کو کابینہ کے سامنے رکھتی ہے۔

کابینہ کی رضامندی کے بعد یہ فائل صدر کے پاس جاتی ہے، جہاں اس پر حتمی فیصلہ دیا جاتا ہے۔

سیشن جج محمد بشیر کا نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو چیف جسٹس نے تجویز کیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جج محمد بشیر کو پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے دور میں توسیع ملی تھی اور جس وزیر اعظم نے انھیں توسیع دی، وہ ان کے سامنے بطور ملزم پیش ہوئے۔

چار وزرائے اعظم ان کے سامنے کیسے پیش ہوئے؟

جج محمد بشیر کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 2012 کے بعد سے آج تک انھوں نے اپنی عدالت میں چار وزرائے اعظم کو بطور ملزم پیش ہوتے دیکھا۔

ان میں پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ نون کے شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف اور اب تحریک انصاف کے عمران خان شامل ہیں۔

نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو جج محمد بشیر نے ہی ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں بدعنوانی کا مجرم قرار دے کر جیل بھیجا تھا۔

Getty Images

صحافی عامر سعید عباسی کے مطابق جج محمد بشیر کا کیریئر بہت دلچسپ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ججوں کی تقرری صرف ایک مدت کے لیے کی جاتی ہے لیکن محمد بشیر کو اس عہدے پر چار مرتبہ بیٹھنے کا موقع ملا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے بہت کم کیسز ہیں جب کسی جج کی بار بار ایک عہدے پر تقرری ہوئی ہو۔

عامر عباسی کے مطابق سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کو جج محمد بشیر کی عدالت سے کافی ریلیف ملا جب وہ پانچ مقدمات میں بری ہو گئے۔

سنہ 2017 میں جب اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو محمد بشیر کی عدالت نے انھیں اشتہاری ملزم قرار دے دیا۔

سزا سے بچنے کے لیےاسحاق ڈار بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جج محمد بشیر نے اپنے پہلے فیصلے کو مسترد کر دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اسحاق ڈار کو گرفتار کرنے سے روک دیا کیونکہ وہ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت میں وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے پاکستان واپس آنے والے تھے۔

اسحاق ڈار نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اثاثہ جات کیس میں عدالتی کارروائی کا سامنا کریں گے۔

BBCاور اب عمران خان۔۔۔

اور اب عمران خان ان کی عدالت میں ہیں کیونکہ القادر ٹرسٹ کیس انھیں جج محمد بشیر کی اے سی ون عدالت میں لے آیا ہے۔

بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ’جج محمد بشیر کسی بھی کارروائی کے دوران بہت تحمل سے فریقین کو سنتے ہیں، دلائل کو کافی وقت دیتے ہیں اور دلائل کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ تقریباً تمام مرکزی دھارے کی جماعتوں نے اُن کے انصاف کا مزہ چکھا ہے۔‘

سینیئر تجزیہ کار کامران خان کا کہنا ہے کہ سزا کے فیصلوں کو ایک طرف رکھیں تو دلچسپ بات ہے کہ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے پسندیدہ جج محمد بشیر اتنی پیچیدہ شخصیت ہیں کہ ان پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More