Getty Imagesبھوٹان کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات بھی ہیں
بھوٹان ایشیا کے دو بڑے ممالک، چین اور انڈیا، کے درمیان واقع ہے۔ لیکن اسے اپنی اس اہمیت کی کافی قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
بھوٹان ان دو ممالک میں سے ایک ہے جس کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعات ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔ دوسرا ملک انڈیا ہے، جس کا چین کے ساتھ ہمالیہ کی سرحد کے حوالے سے ایک پرانا تنازع ہے۔
چین کی عالمی ساکھ کی وجہ سے بھوٹان پر دباؤ ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ سرحدی معاہدہ کر لے، لیکن کسی بھی معاہدے کی منظوری کے لیے اسے اپنے اتحادی انڈیا سے بھی اجازت لینا پڑتی ہے۔
تھمفو اور دلی کے دیرینہ قریبی تعلقات ہیں اور انڈیا بھوٹان کو لاکھوں ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد دیتا رہا ہے۔
بھوٹان اور چین کے ہمالیہ کے شمال اور مغرب میں سرحدی تنازعات ہیں۔
تمام متنازع مقامات میں سے سب سے اہم مسئلہ سطح مرتفع ڈوکلام کا ہے، جو کہ انڈیا، بھوٹان اور چین کے جنکشن کے قریب واقع ہے۔ چین اور بھوٹان دونوں ہی اس علاقے پر حاکمیت جتاتے ہیں اور انڈیا تھمفو کی پوزیشن کی حمایت کرتا ہے۔
انڈیا کی تھمفو کی حمایت کرنے کی اپنی وجوہات ہیں، کیونکہ علاقے میں کہیں بھی چین کے تسلط سے 22 کلو میٹر لمبے سیلیگری کوریڈور کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے جو کہ انڈیا کے مین لینڈ کو اس کی شمالی ریاستوں سے جوڑتا ہے۔
Getty Imagesچینی سرحد کے ساتھ انڈیا کے فوجی
بھوٹان کے وزیرِ اعظم لوٹے شیرنگ نے حال ہی میں بیلجیئم کے اخبار لا لبرے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی حدود پر بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اکیلے بھوٹان کے لیے نہیں ہے کہ یہ مسئلہ حل کرے۔ ہم تین ہیں۔ یہاں کوئی بڑا یا چھوٹا ملک نہیں ہے، تینوں برابر ملک ہیں، ہر کوئی ایک تہائی کا نمائندہ ہے۔ ہم تیار ہیں۔ جیسے ہی دیگر دو پارٹیاں تیار ہوتی ہیں، ہم بات کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے اس بات کی بھی امید ظاہر کی کہ بھوٹان اور چین ایک دو ملاقاتوں میں اپنی حدود کی حد بندی کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک 1984 سے سرحدی تنازع پر مذاکرات کر رہے ہیں۔ شیرنگ نے کہا کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ چین نے اس کے علاقے میں کوئی دخل اندازی نہیں کی ہے۔
ٹرپل فرنٹیئر
شیرنگ کے بیان نے انڈیا میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، خصوصاً اس کے میڈیا میں، جس میں کئی تجزیہ کار بھوٹان اور چین کے درمیان تینوں ممالک کے سرحدی علاقے پر کسی ممکنہ معاہدے کے متعلق تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ تمبو ڈوکلام پر اپنے دعوے کے حوالے سے زیادہ زور نہیں دے رہے ہیں۔
سابق سینیئر انڈین سفارتکار اور ہمالیہ پر امور کے ماہر فونچوک سٹوبڈان کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو تشویش ہے کہ چین انڈیا کو ہراس کرنے کے لیے بھوٹان پر سرحد کے حوالے سے دباؤ ڈال رہا ہے۔‘
انڈین میڈیا میں واویلے کے بعد شیرنگ نے اس ماہ اپنے بیان کی وضاحت کی۔ انھوں نے ہفت روزہ ’دی بھوٹانیز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کوئی نئی چیز نہیں کہی ہے اور (بھوٹان) کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
اگرچہ بھوٹان میں رہنے والے زیادہ تر لوگ انڈین میڈیا میں شیرنگ کے بیان پر ردِ عمل دیکھ کر حیران ہوئے تھے لیکن چین کا خیال ہے کہ تھمفو کو انڈیا کی حمایت کے بغیر کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔
شہنگائی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینیئر فیلو لیو زونگیی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں انڈیا رکاوٹ ہے۔ اگر چین اور بھوٹان اپنا سرحدی تنازع حل کر لیں گے تو پھر صرف انڈیا رہ جائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ انڈیا ایسا ہونے دے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ 1996 میں چین اور بھوٹان حتمی معاہدے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے، لیکن ایسا انڈیا کی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہو سکا۔
چین کی طاقت
بھوٹان اور چین کے درمیان سرحدی مسائل بھی انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر کئی دہائیوں پرانی کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی سرحد موجود ہے جس کی مکمل حد بندی نہیں کی گئی ہے اور ان کے علاقائی دعوے ایک دوسرے سے متصاد ہیں۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ سرحد 3,488 کلومیٹر طویل ہے، جبکہ چین اسے تقریباً 2000 کلومیٹر سمجھتا ہے۔
ڈی فیکٹو یا موجودہ سرحد انڈیا کے شمالی لداخ کے علاقے سے شروع ہوتی ہے اور مشرق میں ریاست اروناچل پردیش تک جاتی ہے (جسے چینی لوگ جنوبی تبت کہتے ہیں)۔
چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کو بہت سے بھوٹانی بھی قریب سے دیکھ رہے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں کہ بیجنگ کے ساتھ جلد ہی معاہدہ طے پانا ملک کے لیے بہتر ہوگا۔
ایک بھوٹانی ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’چین ایک حقیقت ہے۔ کیا بھوٹان کے پاس چین کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ رکھنے کی چوائس ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک ایسی بات ہے جسے ہونا چاہیئے۔‘
یہ بھی پڑھیئے
دنیا سے الگ تھلگ خوش و خرم بھوٹان
بھوٹان میں صحت مند زندگی کا تین سو سال پرانا نسخہ
انڈیا اور بھوٹان نے 1949 میں ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں دہلی کے سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ 2007 میں ایک نظرثانی شدہ معاہدے نے تھمفو کو خارجہ پالیسی اور فوجی خریداری میں مزید آزادی دی تھی۔
سینکڑوں انڈین فوجی بھوٹان میں تعینات کیے گئے ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ وہ بھوٹانی فوجیوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کا فوجی ہیڈ کوارٹر ہا کے قصبے میں واقع ہے، جو ڈوکلام سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
Getty Imagesتاریخی تعلقات: سنہ 2018 میں لوٹے شیرنگ اور نریندر مودی کی ملاقات کی ایک تصویر
بھوٹان کے کالم نگار ونگچا سانگے کہتے ہیں کہ اگر دلی اس بات پر اصرار نہ کرتا کہ بھوٹان ڈوکلام کو رکھے تو بھوٹان چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کر سکتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم کس طرح ڈوکلام پر دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ڈوکلام کا جو حصہ اب ہمارے پاس ہے وہ اب بھی ہمارا ہے۔ جو ہمارے پاس نہیں ہے، ہم وہ چین سے نہیں لے سکتے۔‘
سانگے نے کہا کہ کیونکہ بھوٹان اپنی بہت سے ضروریات کے لیے انڈیا کی درآمدات پر انحصار کرتا ہے، خصوصاً تیل پر، تھمفو کو چاہیئے کہ وہ شمالی ہمسائے کی طرف ایک اور روٹ کھول کر اپنی ترسیل کو متنوع بنائے۔
انڈیا کے شکوک
بھوٹان کے وزیرِ اعظم کے بیان کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے بہت ہی محتاط بیان جاری کیا ہے۔
انڈیا کی خارجہ امور کی وزارت کے مستقل سیکریٹری ونے موہن کواترا نے اپریل کے اوائل میں کہا تھا کہ ’مشترکہ قومی مفادات، بشمول سیکیورٹی کے مفادات کے حوالے سے انڈیا اور بھوٹان کے درمیان قریبی رابطہ، قریبی تعاون ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے پہلے والے بیانات دہراؤں گا جن میں ٹرپل جنکشن (ڈوکلام) بارڈر پوائنٹس کے تعین پر واضح اور شفاف طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔‘
انڈیا ڈوکلام کی سٹریٹیجک اہمیت کے حوالے سے ڈوکلام کے گرد کسی بھی قسم کی دوبارہ ترتیب نہیں چاہتا۔ دوسری طرف بھوٹان جیسے ملک کے لیے بیجنگ پر یہ دباؤ ڈالنا بہت مشکل ہے کہ وہ اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے۔
ایسے وقت میں جب لوگ ایشیا کی صدی کی بات کر رہے ہیں دنیا کی ابھرتی ہوئی دو اہم معیشتوں کے درمیان موجود ہونے سے بھوٹان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، لیکن دلی اور بیجنگ کے درمیان جاری تناؤ کی وجہ سے تھمفو کی مشکل بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔