انڈیا: گائے لے جانے والے مسلمان شہری کا قتل: ’اُس کی لاش ایک تھیلے میں لائی گئی‘

بی بی سی اردو  |  May 11, 2023

BBCجنوری میں حادثے کے بعد وارث کی موت ہو گئی

انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ کے ایک چھوٹے سے قصبے تورو میں جنوری کی ایک سرد صبح ایک کار ایک وین سے ٹکرا گئی۔

کار کے اندر تین مسلمان نوجوان وارث، نفیض اور شوکین تھے۔

وارث کی موت ہو چکی ہے۔ نفیض جیل میں ہے۔ اور شوقین ابھی تک اس رات کی ہولناکیوں سے نہیں نکلا ہے۔

شوکین کا الزام ہے کہ ان کے دوست کو ہندوؤں کے ایک گروپ نے اس وقت مار مار کر ہلاک کر دیا جب انھوں نے گاڑی کے پیچھے ایک گائے کو دیکھا۔

26 سالہ نوجوان کا دعویٰ ہے کہ یہ گائے نفیض کی تھی، جو اسے پڑوسی ریاست راجستھان کے ضلع بھیواڑی سے ہریانہ اپنے گھر لے جا رہا تھا۔ جب گاؤ رکشکوں نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا تو شوقین اور وارث ان کے ساتھ تھے۔

گو رکشک یعنی گائے کے محافظ ہندو مرد ہیں اور وہ زیادہ تر لاٹھیوں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ لوگ گائے کو مقدس مانتے ہیں اور گائے کے ذبیحہ کو روکنے کے لیے مویشیوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ گائے کا ذبیحہ کئی ریاستوں میں غیر قانونی ہے۔

تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ وارث کے جسم پر بظاہر زخم کے نشانات نہیں ہیں۔

تورو ہریانہ کے نوح ضلع میں آتا ہے۔ وہاں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ورون سنگلا نے کہا: 'ہمیں سڑک حادثے کے بارے میں ایک ٹرک ڈرائیور اور کچھ گو رکشکوں نے اطلاع دی۔ جب ہم جائے حادثہ پر پہنچے تو تینوں افراد کار کے اندر تھے۔ ہم انھیں قریبی ہسپتال لے گئے۔ ان میں سے ایک بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔'

انھوں نے مزید کہا کہ سبزیاں لے جانے والی وین کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ 'ڈرائیور تو محفوظ رہا لیکن اس کے بیٹے کو، جو مسافر سیٹ پر تھا، معمولی چوٹیں آئیں۔'

BBCشوکین ابھی بھی اپنے دوست وارث کی موت کے صدمے سے نہیں نکلا ہے

مسٹر سنگلا کا کہنا ہے کہ پولیس نے نفیض اور شوقین کو گائے کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا کیونکہ انھیں 'کار میں ایک گائے ملی۔'

لیکن شوکین، جو اب ضمانت پر رہا ہے، کا کہنا ہے کہ ان کی کار وین سے ٹکرا گئی کیونکہ ایک گاڑی ان کا پیچھا کر رہی تھی جو کہ گائے کے محافظوں کی گاڑی تھی۔

بی بی سی نے تورو میں ہونے والے حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے ایک فور بائی فور گاڑی حادثے کے کچھ لمحوں بعد کار کے قریب آتی ہے جس کی چھت پر سائرن لگا ہوا ہے۔

اس کے بعد جائے حادثہ پر موجود ایک مقامی شخص کی طرف سے بنائی گئی ایک ویڈیو کے مطابق،ایک گروپ جو بندوق سمیت دوسرے ہتھیاروں سے لیس دکھائی دے رہے تھے، کار کے پچھلے حصے سے گائے کو نکالتے ہیں اور تینوں مسلمان مردوں کو باندھ کر فور بائی فور گاڑی میں ٹھونس دیتے ہیں۔

شوکین نے الزام لگایا کہ پھر انھیں اور ان کے ساتھیوں کو اس گروپ نے مارا پیٹا اور پھر بعد میں وہی انھیں ہسپتال لے گئے جبکہ وارث نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔

انھوں نے کہا کہ 'وارث کی حادثے میں موت نہیں ہوئی۔ حادثے میں تو ایک بھی زخم نہیں آیا۔' انھوں نے مزید کہا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف 'ٹارگٹ کلنگ' تھی۔

کروڑوں ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور ہندو انڈیا کی آبادی کی اکثریت ہیں۔ اگرچہ گائے کا ذبیحہ پہلے سے ہی ایک حساس موضوع رہا ہے اور کچھ ریاستوں میں اس پر پابندی بھی عائد رہی ہے لیکن سنہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی سطح پر اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ ایک گرما گرم بحث کا مسئلہ بن گیا ہے۔

بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومتوں نے گائے کے ذبیحہ کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے۔ انڈیا کی 28 ریاستوں میں سے تقریباً دو تہائی ریاستوں میں اب گائے کے گوشت کی فروخت اور استعمال غیر قانونی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ہریانہ بھی ان میں شامل ہے۔

گو رکشکوں اور اس طرح کے گروپوں پر پرتشدد ڈھنگ سے اس پابندی نافذ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ اکثر گوشت بیچنے والے مسلمانوں اور مویشیوں کے تاجروں پر حملے کرتے ہیں یہاں تک کہ انھیں مار پیٹ کا نشانہ بناتے ہیں۔

پی ایم مودی نے ماضی میں ان گروپوں پر تنقید کی ہے لیکن اس کے بعد بھی کئی بڑے حملے ہوئے ہیں۔

BBCگائے کوہندو مذہب میں مقدس سمجھا جاتا ہے

نوح میں وارث کے گھر والے ابھی تک اس کی موت کے صدمے سے دوچار ہیں۔

وارث کے بڑے بھائی عمران کہتے ہیں کہ 'اگر کوئی جرم کرتا ہے، چاہے جیسا بھی جرم ہو، پولیس کو اسے سزا دینی چاہیے۔'

انھوں نے سوال کیا کہ ریاست میں نگرانی کرنے والے گروہوں کو 'قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق کیوں دیا گیا۔'

لیکن ہریانہ پولیس کے ایک انسپکٹر جنرل روی کرن نے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق ہوئی ہے کہ وارث کی موت حادثے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس کو اس معاملے میں کوئی نئی معلومات ملتی ہے تو وہ اس معاملے کی مزید تفتیش کرنے کو تیار ہیں۔

شوقین نے الزام لگایا کہ مونو مانیسر نامی شخص، جو کہ مشہور گو رکشک ہے جو گائے کے ٹرانسپورٹرز سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز کو باقاعدگی سے اپ لوڈ کرتا تھا، ان پر حملہ کرنے والوں کا لیڈر تھا۔

اس حادثے کے دن مونو مانیسر نے وارث اور ان کے دوستوں سے خود اور کچھ دوسرے لوگوں کے ذریعے کی جانے والی 'پوچھ گچھ' کی ویڈیو لائیو سٹریمنگ کی تھی۔ ویڈیو میں، جسے اب مسٹر مانیسر کے فیس بک پروفائل سے ہٹا دیا گیا ہے، ان تینوں مسلمان کے چہرے پر زخموں کے نشانات دیکھے جا سکتے تھے۔

شوکین نے الزام لگایا کہ 'مونو کہہ رہا تھا 'انھیں مارو' اور ہر کوئی ہمیں مار رہا تھا۔ یہ سب مونو کے کہنے پر کیا گیا۔'

بی بی سی نے مسٹر مانیسر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو پایا۔ مسٹر مونو مانیسر اس وقت مبینہ طور پر گو رکشا کے ایک اور معاملے میں پولیس کو پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ہیں۔ بہر حال جنوری میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے وارث کی موت میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں گائے کے گوشت پر قتل کے کیس میں 11 افراد کو عمر قید کی سزا

انڈیا میں گائے ذبح کرنے کے شبہے میں دو افراد پر تشدد

انڈیا: گائے کے نام پر ہجومی تشدد میں اضافہ

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے گروپ کو اطلاع ملی تھی کہ ایک گائے کو کار میں لے جایا جا رہا ہے اور وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے گاڑی کو تیزی سے بھاگتے دیکھا۔

انھوں نے کہا: 'میں حادثے کے تقریباً 35 منٹ کے بعد وہاں پہنچا۔ میں نے پولیس کی دو کاریں دیکھیں۔ کار میں سوار افراد کو تھوڑی چوٹ لگی تھی اس لیے میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ انھیں پانی دیں۔ بعد میں پولیس انھیں ہسپتال لے گئی۔' انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے وارث کی موت کے بارے میں حادثے کے چند گھنٹوں بعد ہی سنا تھا۔

BBCگو رکشک رات میں گشت کرتے ہیں تاکہ گائے کی سمگلنگ کو بند کیا جا سکے

عمران نے الزام لگایا کہ ان کے بھائی کی موت گائے کے محافظ گروپوں کے پرتشدد حملوں کے بڑے سلسلے کا محض ایک حصہتھی۔

انھوں نے وارث کی موت کو ایک اور ہائی پروفائل کیس سے جوڑا جس میں دو مسلمان نوجوانوں جنید اور ناصر کا قتل ہوا تھا اور وہ اس واقعے کے چند ہفتوں بعد خبروں کی سرخیوں میں آیا۔

جنید اور ناصر کی جلی ہوئی لاشیں فروری میں ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں ایک جلی ہوئی گاڑی سے ملی تھیں۔ ان کے رشتہ داروں نے الزام لگایا ہے کہ انھیں ایک ہندو سخت گیر گروپ کے ارکان نے قتل کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس گروپ نے ان پر گائے کی اسمگلنگ کا الزام لگایا تھا۔

مسٹر مانیسر سمیت پانچ افراد کو پولیس شکایت میں نامزد کیا گیا تھا لیکن پولیس نے کہا ہے کہ ابھی تک صرف تین مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

بی بی سی نے راجستھان کے بھرت پور میں جنید اور ناصر کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔

جنید کی بیوی ساجدہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: 'اس کی لاش ایک تھیلے میں لائی گئی تھی۔ وہ راکھ تھی۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا، بس ایک مٹھی بھر راکھ اور چند ہڈیاں۔'

انھوں نے کہا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ اب اکیلے اپنے چھ بچوں کی دیکھ بھال کیسے کریں گی۔

ان ہلاکتوں نے بھرت پور میں مسلمانوں کے احتجاج کو جنم دیا، جنھوں نے الزام لگایا تھا کہ گائے کے تحفظ کے قوانین کا استعمال انہیں نشانہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

BBCجنید کی اہلیہ ساجدہ کا کہنا ہے کہ اب وہ تنہا اپنے بچوں کو کس طرح پالیں گی

ناصر کے بڑے بھائی محمود نے الزام لگایا کہ 'ہر کوئی خوفزدہ ہے۔ ڈر یہ ہے کہ وہ آپ کو اٹھا لیں گے۔ وہ کسی کو بھی اٹھا کر لے جائیں گے، ماریں گے پیٹیں گے، پھر وہ ان پر گائے کی اسمگلنگ یا نقل و حمل کے الزامات لگا دیں گے۔'

وہاں سو میل سے ذرا زیادہ فاصلے پر ہریانہ کے مانیسر قصبے میں، مردوں کا ایک گروپ جو خود کو گو رکشک (گائے کا محافظ) کہتے ہیں، وہ ایک وسیع پناہ گاہ میں جمع ہیں۔

بی بی سی نے ان میں سے بہت سے لوگوں سے بات کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ پولیس کے ساتھ کام کرتے ہیں اور قانون کی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ ان پر بھی بعض اوقات گشت کے دوران حملہ کیا جاتا ہے۔

مسٹر مانیسر کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے گائے کے تحفظ کے مقامی لیڈر دھرمیندر یادو پوچھتے ہیں کہ 'اگر بازار میں کوئی عورت ہے اور ہم کسی کو اس کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کیا ہمیں پولیس کا انتظار کرنا چاہیے؟'

مسٹر یادو نے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے الزامات کی تردید کی۔انھوں نے کہا: 'ہمارے قوانین کہتے ہیں کہ ہمیں گائے کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا قانون جو بھی کہتا ہے اس پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہمارا دشمن گائے کا سمگلر ہے نہ کہ صرف مسلمان۔'

شوکین کا دعویٰ ہے کہ اب وہ اپنے گھر سے باہر نکلنے میں بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: 'وارث مر چکا ہے اور میں اس کی طرح مارا جانا نہیں چاہتا۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More