این ڈی اے حکومت کے برسر اقتدار آنے کے چند ہی دنوں کے اندر، نرسمہا راؤ نے نئے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی اور کہا کہ ’مواد تیار ہے، آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘
پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے 15 دن بعد وزیرِ اعظم واجپائی نے ڈاکٹر عبدالکلام آزاد اور ڈاکٹر چدمبرم کو فون کیا اور انھیں جوہری دھماکوں کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔
اس وقت کے صدر کے آر نارائنن 26 اپریل سے 10 مئی تک جنوبی امریکی ممالک کے دورے پر روانہ ہونے والے تھے۔ انھیں خاموشی سے مطلع کر دیا گیا کہ وہ اپنا سفر کچھ عرصے کے لے ملتوی کر دیں۔
ڈاکٹر چدمبرم کی بیٹی کی شادی 27 اپریل کو ہونی تھی۔ وہ شادی بھی کچھ دنوں کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی کیونکہ شادی میں چدمبرم کی غیر موجودگی اس بات کا اشارہ دیتی کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
ڈاکٹر کلام نے مشورہ دیا کہ دھماکہ بدھ پورنیما کے دن کیا جائے جو 11 مئی 1998 کو پڑ رہا تھا۔
سائنسدانوں کو فوج کی وردی پہننے کی اجازت دی گئی
20 اپریل 1998 تک ’بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر‘ (بی اے آر سی) کے اعلیٰ سائنسدانوں کو انڈیا کے ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ تمام افراد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں پوکھران کی طرف جانا شروع ہو گئے تھے۔
انھوں نے اپنے گھر یہی بتایا تھا کہ وہ یا تو دہلی جا رہے ہیں یا کسی ایسی جگہ پر کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جہاں اگلے 20 دنوں تک ان سے فون پر رابطہ نہیں ہو سکے گا۔
مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے ہر سائنسدان مختلف ناموں سے سفر کر رہے تھے اور سیدھا پوکھران جانے کے بجائے بہت گھوم کر اور متبادل راستوں سے وہاں پہنچ رہے تھے۔ ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ڈی آر ڈی او کی ٹیم میں کل 100 سائنسدان تھے۔
جیسے ہی وہ پوکھران پہنچے، ان سب کو فوجی وردی پہننے کے لیے دی گئی۔ ان سب کو لکڑی کے پارٹیشنز والے اور کم اونچی چھت والے کمروں میں رکھا گیا اور ان کمروں میں صرف ایک ہی بستر دستیاب تھا۔
سائنسدانوں کو فوج کی وردی پہننے میں دشواری کا سامنا تھا کیونکہ وہ اس قسم کے کپڑے پہننے کے عادی نہیں تھے۔
ٹینس بال کا دھوکہ
ایٹم بم کا کوڈ نام ’کینٹین سٹورز‘ رکھا گیا تھا۔ بم دھماکوں کے لیے گرین سگنل ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ممبئی کے زیر زمین والٹ میں رکھے ان بموں کو پوکھران تک کیسے پہنچایا جائے۔
یہ والٹ 80 کی دہائی میں بنائے گئے تھے اور ہر سال وشواکرما پوجا کے دن کھولے جاتے تھے۔ کبھی کبھی جب وزیر اعظم بی اے آر سی کا دورہ کرتے تھے تو انھیں وہ والٹس دکھائے جاتے تھے۔
ایک بار وہ والٹ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سندر جی کو بھی دکھایا گیا۔ چھ پلوٹونیم بم ایک گیند کی شکل میں بنائے گئے تھے جو کہ ٹینس بال سے تھوڑا ہی بڑا تھا۔
ان گیندوں کا وزن تین سے آٹھ کلو کے درمیان تھا۔ ان سب کو بلیک باکس میں رکھا گیا تھا۔ ان ڈبوں کی شکل سیب کے کریٹوں جیسی تھی لیکن ان کے اندر پیکنگ اس طرح کی گئی تھی کہ پوکھران لے جاتے وقت دھماکہ خیز مواد کو نقصان نہ پہنچے۔
بی اے آر سی کے سائنسدانوں کا سب سے بڑا درد سر ان گولوں کو اپنے ہی سیکورٹی اہلکاروں کو بتائے بغیر وہاں سے ہٹانا تھا۔
سیکورٹی اہلکاروں کو بتایا گیا کہ کچھ خاص آلات کو جنوب میں ایک اور نیوکلیئر پلانٹ میں لے جانا ہے۔ اس کے لیے رات کو خصوصی گیٹ سے ٹرکوں کا قافلہ آئے گا۔
گیندوں کو چار ٹرکوں کے ذریعے ایئرپورٹ لے جایا گیا
ممبئی میں آدھی رات کے بعد بھی کافی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹریفک جام سے بچنے کے لیے ان ٹرکوں کو صبح دو سے چار بجے کے درمیان بلایا جائے گا اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سینیئر صحافی راج چینگپا اپنی کتاب ’ویپنز آف پیس دی سیکریٹ، سٹوری آف انڈیاز کوسٹ ٹو بی اے نیوکلیئر پاور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یکم مئی کی صبح سویرے چار ٹرک خاموشی سے بی اے آر سی پلانٹ پہنچے۔ ہر ایک ٹرک پر پانچ مسلح فوجی سوار تھے۔
’ٹرکوں پر بکتر بند پلیٹیں لگائی گئی تھیں تاکہ ان پر بمباری نہ ہو سکے۔ دو کالے کریٹوں کو فوری طور پر دوسرے سامان کے ساتھ ایک ٹرک پر لاد دیا گیا۔ اس ٹیم کے ایک سینیئر رکن امنگ کپور نے کہا کہ ’ہسٹری از آن دی موو۔‘
یہ چار ٹرک تیز رفتاری سے ممبئی ایئرپورٹ کی طرف بڑھے جو وہاں سے 30 منٹ کی دوری پر تھا۔
حکومت کی جانب سے ایئرپورٹ پر تمام ضروری منظوریاں پہلے ہی لے لی گئی تھیں۔ ٹرکوں کو سیدھا ہوائی پٹی پر لے جایا گیا جہاں ایک ٹرانسپورٹ طیارہ ان کا انتظار کر رہا تھا۔
طیارے کے اندر صرف چار سکیورٹی اہلکار موجود تھے۔ بیرونی دنیا کو یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ یہ فوج کی معمول کی نقل و حرکت ہے۔
کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس جہاز میں جو کچھ رکھا گیا تھا وہ منٹوں میں پورے ممبئی شہر کو تباہ کر سکتا ہے۔ اے این 32 طیارے نے صبح سویرے ممبئی ایئرپورٹ سے اڑان بھری۔ دو گھنٹے بعد وہ جیسلمیر ہوائی اڈے پر اترا۔ وہاں ٹرکوں کا ایک اور قافلہ ان کا انتظار کر رہا تھا۔
ہر ٹرک پر ہتھیاروں کے ساتھ سپاہی بیٹھے تھے۔ جب وہ ٹرکوں سے اترے تو انھوں نے اپنے ہتھیاروں کو تولیوں سے چھپا لیا۔ یہ صبح کا وقت تھا جب ٹرک جیسلمیر ہوائی اڈے سے پوکھران کے لیے روانہ ہوئے۔
راج چینگپا لکھتے ہیں کہ ’پوکھران میں یہ ٹرک سیدھے ’پریئر ہال‘ کی طرف چلے گئے جہاں یہ بم اکٹھے کیے گئے تھے۔ جب پلوٹونیم کی گیندیں وہاں پہنچیں تو انڈیا کے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین راجگوپالا چدمبرم کی جان میں جان آئی۔ انھوں نے انھوں نے اس موقع پر کہا کہ میں ان کا ’بہت بے صبری سے انتظار کر رہا تھا‘۔
انھیں یاد آیا کہ سنہ 1971 کے مقابلے میں اس بار چیزیں کتنی مختلف تھیں جب انھوں خود جوہری مواد اپنے ساتھ پوکھران لانا پڑا تھا۔
بچھو اور بلڈوزر
بی اے آر سی کے ڈائریکٹر انیل کاکوڈکر کے والد ٹیسٹ سے چند دن قبل وفات پا گئے تھے۔ انھیں اپنے والد کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے پوکھران چھوڑنا پڑا، لیکن وہ دو دن کے اندر ہی واپس آ گئے۔
جس دن کمبھکرنا شافٹ کو دھماکے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا تو وہاں ایک بچھو نے ایک سپاہی کو ہاتھ پر ڈنک مارا لیکن اس نے بغیر شور مچائے اور طبی امداد لیے اپنا کام جاری رکھا۔
جب اس کے ہاتھ میں سوجن بڑھ گئی تو لوگوں کی توجہ اس کی جانب ہوئی اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔
بلڈوزر جو ’تاج محل‘ شافٹ سے ریت نکال رہا تھا، غلطی سے ایک بڑے پتھر سے ٹکرا گیا جو بڑی تیزی سے شافٹ کے منھ پر جا لگا۔ اگر یہ شافٹ کے اندر گرتا تو یقیناً وہاں لگائی گئی تاریں خراب ہو جاتیں۔
ایک نوجوان نے اس بڑے پتھر کو 150 میٹر گہرے شافٹ کے اندر جانے سے روکنے کے لیے غوطہ لگایا۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مزید چار جوانوں نے اس پتھر کو روکنے میں اپنی پوری طاقت لگا دی۔
ٹیسٹ سے چند روز قبل جب شافٹ کو ’پلی سسٹم‘ سے نیچے اتارا جا رہا تھا تو اچانک بجلی چلی گئی اور لوگ شافٹ کے اندر پھنس گئے۔ بجلی واپس آنے میں گھنٹوں لگ گئے اور اس دوران انھوں نے آپس میں لطیفے سناتے ہوئے وقت گزارا۔
بجلی کی مسلسل بندش کام میں رکاوٹ کا باعث بن رہی تھی۔ جب بجلی تھی تو بھی اس میں بہت اتار چڑھاؤ آتا تھا جس کی وجہ سے سامان جلنے کا خطرہ مسلسل رہتا تھا۔
آخر کار یہ فیصلہ کیا گیا کہ جنریٹر جس کا کوڈ نام ’فارم ہاؤس‘ تھا اس جگہ پر منتقل کیا جائے جہاں کام چل رہا تھا۔
گرج چمک کا خطرہ
پوکھران کا موسم بھی سائنس دانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔ ایک رات بادل گرجنے کے ساتھ ایک خوفناک طوفان آیا۔ تمام سائنسدان ابھی ’پریئر ہال‘ سے واپس آئے تھے جہاں وہ نیوکلیئر ڈیوائس کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
سائنسدان ایس کے سکّا اور ان کی ٹیم کو خدشہ تھا کہ اگر پریئر ہال پر آسمانی بجلی گرتی ہے تو اس سے نہ صرف آلات کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ انھیں وقت سے پہلے دھماکے کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ ایک رات اتنا زوردار طوفان آیا کہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
حادثاتی طور پر آگ لگنے کے امکان سے بچنے کے لیے ایئر کنڈیشن چلانے کی بھی اجازت نہیں تھی اور سائنسدانوں کو انتہائی مشکل حالات میں کام کرنا پڑ رہا تھا۔ گرمی ایسی تھی کہ سائنسدان ہر وقت پسینے میں شرابور رہتے تھے۔
امدادی عملے کو جان بوجھ کر پتلا رکھا گیا تھا، اس لیے سکّا جیسے سینئر سائنسدان بھی پیچ کس رہے تھے اور تاروں کو ٹھیک کر رہے تھے۔
کاکوڈکر کو پہچان لیا گیا
جب یہ تمام تیاریاں جاری تھیں تو سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ ایک پرائیویٹ کمپنی تیل تلاش کرنے کے لیے قریب ہی کھدائی کر رہی ہے۔
انیل کاکوڈکر نے فیصلہ کیا کہ وہ وہاں جائیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کس ٹیکنالوجی کے ذریعے کھدائی کر رہے ہیں۔
کاکوڈکر اپنی سوانح عمری ’فائر اینڈ فیوری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہم سب فوجی وردی میں وہاں پہنچے۔ وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے میری ٹیم کے ایک رکن ولاس کلکرنی کو ایک طرف لے جا کر میری طرف اشارہ کیا اور پوچھا کہ ’یہ کاکوڈکر صاحب ہیں۔‘
’کلکرنی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ کاکوڈکر نہیں ہیں، لیکن وہ شخص کہتا رہا کہ وہ ڈومبیولی کا رہنے والا ہے اور کاکوڈکر کو کئی بار دیکھ چکا ہے۔ ہم نے سوچا کہ وہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔‘
دوسری طرف وزیر اعظم واجپائی نے اچانک وزیر خزانہ یشونت سنہا کو ان کی جگہ دہلی بھیج دیا۔
یشونت سنہا اپنی سوانح عمری ’ریلنٹلیس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’واجپائی مجھ سے اپنے دفتر میں نہیں ملے۔ مجھے اس کمرے میں لے جایا گیا جہاں وہ آرام کیا کرتے تھے۔
’مجھے فوراً معلوم ہو گیا کہ وہ مجھے بہت اہم اور رازدارانہ بات بتانے والے ہیں۔ اس دوران انھوں نے مجھے انڈیا کے جوہری تجربے کی تیاریوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔‘
’انھوں نے کہا کہ عالمی طاقتیں اس کے لیے انڈیا کے خلاف کچھ اقتصادی پابندیاں لگا سکتی ہیں، اس لیے ہمیں ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
’اسی لیے میں نے آپ کو پہلے سے خبردار کرنے کا سوچا تاکہ جب ایسا ہو تو اس کے لیے پہلے سے تیار رہیں۔‘
امریکی سیٹلائٹ کو چکمہ
پوکھران میں سائنسدانوں کی ٹیم صرف رات کو کام کر رہی تھی تاکہ سیٹلائٹس ان کی نگرانی نہ کر سکیں۔ ان دنوں کی تاریک راتیں ان کی یادوں کا حصہ بن چکی تھیں۔
راج چینگپا لکھتے ہیں کہ ’ایک رات سائنسدان کوشک نے رات میں ایک سیٹلائٹ دیکھی، تین گھنٹے کے اندر اندر اس نے چار سیٹلائٹ گنے جو وہاں سے گزر رہے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی مسئلہ ہے، ورنہ ایک رات میں اتنی ساری سیٹلائٹس کی موجودگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ہم نے اس لیے زیادہ محتاط رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران شرما نے کہا کہ ’ہم کسی قسم کا خطرہ مول لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
سنہ 1995 میں جب نرسمہا راؤ نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو امریکی سیٹلائٹس انڈیا کے ارادوں کا علم ہو گیا تھا۔
اس وقت امریکی سیٹلائٹس نے شافٹ کو بند کرنے کے لیے ریت کی بڑی مقدار کا استعمال بھی دیکھا تھا۔ وہاں بڑی تعداد میں گاڑیوں کی آمدورفت نے بھی امریکیوں کو چوکنا کر دیا تھا۔
سال 1998 میں بھی سی آئی اے نے پوکھران کے اوپر چار سیٹلائٹ رکھے تھے لیکن ٹیسٹ سے کچھ دیر پہلے صرف ایک سیٹلائٹ پوکھران کی نگرانی کر رہا تھا اور وہ بھی صبح 8 بجے سے 11 بجے کے درمیان اس علاقے کے اوپر سے گزرا۔
ٹیسٹ سے ایک رات پہلے، صرف ایک امریکی تجزیہ کار کو سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لینے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اس نے اگلے دن اپنے افسران کو پوکھران سے لی گئی کچھ تصاویر دکھانے کا بھی انتخاب کیا تھا، لیکن جب افسران نے ان تصویروں کا معائنہ کیا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
دھماکے دوپہر 3.45 بجے ہوئے
ٹیسٹ کے دن 11 مئی کو عبدالکلام نے برجیش مشرا کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر فون کیا اور بتایا کہ ہوا کی رفتار کم ہو رہی ہے اور اگلے کچھ گھنٹے میں ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔
کنٹرول روم میں پوکھران دھماکے سے وابستہ سائنسدان موسم کی رپورٹ کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔
برجیش مشرا دہلی میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر اضطراب کا شکار تھے۔ واجپئی کے سکریٹری شکتی سنہا کچھ اہم فائلز واجپائی کے پاس لا رہے تھے۔ اس دن شکتی سنہا کی سالگرہ بھی تھی لیکن وہ جان بوجھ کر سالگرہ کی مبارک دینے والوں کی کال نہیں اٹھا رہے تھے۔
دوسری جانب پوکھران میں محکمہ موسمیات کی رپورٹ آ چکی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ ٹھیک تین بج کر 45 منٹ پر مانیٹر پر ریڈ لائٹ آئی اور ایک سیکنڈ میں تینوں مانیٹروں پر چمکتی ہوئی روشنی نمودار ہو گئی۔
اچانک تمام تصاویر منجمد ہو گئیں، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ شافٹ کے اندر لگے کیمرے دھماکے سے تباہ ہو گئے تھے۔ زمین کے اندر کا درجہ حرارت لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
’تاج محل شافٹ‘ میں ہونے والے دھماکے سے ہاکی کے میدان کے برابر ہوا میں ریت اٹھ رہی تھی۔ اس وقت ہیلی کاپٹر بھی ہوا میں اڑ رہے تھے اور ڈی آر ڈی او کے کرنل امنگ کپور نے بھی دھول کا سیلاب اٹھتے دیکھا۔
’بھارت ماتا کی جے ہو!‘ کے نعرے
نیچے موجود سائنسدانوں نے محسوس کیا کہ ان کے پیروں تلے زمین بری طرح ہل رہی ہے۔ وہاں اور ملک بھر میں درجنوں سیسموگرافس کی سوئیاں بری طرح سے ہل رہی تھیں۔
سائنسدان اپنے بنکروں سے باہر نکلے اور اپنی آنکھوں سے ریت کی دیوار کے اٹھنے اور گرنے کا ناقابل فراموش منظر دیکھنے کے لیے باہر بھاگے۔
سیکڑوں فوجیوں نے محفوظ فاصلے سے اس منظر کو دیکھتے ہوئے ’بھارت ماتا کی جے ہو‘ کا نعرہ بلند کیا۔ وہاں موجود سائنسدان کے سنتھانم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سارا منظر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔‘
چدمبرم نے کلام سے مصافحہ کیا اور کہا ’میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم 24 سال بعد بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‘
’ہم نے دنیا کی ایٹمی طاقتوں کا تسلط ختم کر دیا ہے، اب ہمارے سوا ارب آبادی کے ملک کو کوئی نہیں بتا سکتا کہ کیا کرنا ہے، اب ہم فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘
دوسری طرف وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں فون کے پاس بیٹھے برجیش مشرا نے پہلی گھنٹی پر فون اٹھایا۔
اس نے ریسیور پر کلام کی کانپتی ہوئی آواز سنی ’سر، ہم کامیاب ہو گئے۔‘ مشرا فون پر چلائے: ’خدا آپ کا بھلا کرے۔‘
واجپائی نے بعد میں کہا کہ ’اس لمحے کو بیان کرنا مشکل ہے، لیکن ہم نے بے پناہ خوشی اور تکمیل محسوس کی۔‘
شکتی سنہا، جو بعد میں اٹل بہاری واجپائی کے سیکریٹری رہے، نے اپنی کتاب ’واجپائی: دی ایئرز دیٹ چینجڈ انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ ’واجپائی کابینہ کے چار وزیر، ایل کے اڈوانی، جارج فرنینڈز، یشونت سنہا اور جسونت سنگھ کھانے کی میز کے گرد بیٹھے تھے۔‘
’واجپائی کی رہائش گاہ میں صوفے پر بیٹھے وزیر اعظم گہری سوچ میں مگن تھے۔ کوئی کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔‘
سنہا لکھتے ہیں کہ ’وہاں موجود لوگوں کے چہروں پر خوشی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی لیکن نہ تو کسی نے چھلانگ لگائی، نہ کسی کو گلے لگایا اور نہ ہی کسی کی پیٹھ پر تھپکی۔ لیکن اس کمرے میں موجود تقریباً سبھی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘
’بہت دیر بعد واجپائی کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ تناؤ سے چھٹکارا پانے کے بعد انھوں نے بھی زور دار قہقہہ لگایا۔‘
دو دن بعد مزید دو دھماکے
اس کے بعد واجپائی اپنے گھر سے باہر آئے جہاں تمام بڑے میڈیا نامہ نگار لان میں موجود تھے۔ واجپائی کے ڈائس پر پہنچنے سے چند سیکنڈ قبل پرمود مہاجن نے اس پر انڈیا کا جھنڈا لگا دیا۔
اس موقع پر دی جانے والی پریس بریفنگ جسونت سنگھ نے پہلے ہی تیار کر رکھی تھی۔ واجپائی نےآخری وقت میں اس بیان میں ترمیم کی تھی۔
بیان کا پہلا جملہ تھا ’مجھے ایک مختصر اعلان کرنا ہے۔‘ واجپائی نے اپنے قلم سے کچھ الفاظ نکالے اور پھر اعلان کیا کہ ’آج سہ پہر تین بج کر 45 منٹ پر تین جوہری تجربے کیے گئے ہیں۔ میں ان سائنسدانوں اور انجینیئروں کو مبارکباد دیتا ہوں جنھوں نے یہ کامیاب تجربات کیے۔‘
دو دن بعد پوکھران کی سرزمین ایک بار پھر لرز اٹھی اور انڈیا نے مزید دو ایٹمی تجربات کیے۔ ایک دن بعد واجپائی نے اعلان کیا کہ ’انڈیا اب جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاست ہے۔‘