Getty Images
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے احتساب عدالت کو پولیس لائنز میں منتقل کیا گیا کیونکہ ملزم عمران خان کو سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے راولپنڈی نیب کے دفتر میں رکھنے کی بجائے پولیس لائنز میں رکھا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا تو مجھ سمیت میڈیا کے نمائندے اس خوش فہمی میں تھے کہ بدھ کے روز جب احتساب عدالت میں اس مقدمے کی سماعت ہو گی تو پولیس اور عدالتی عملہ کمرہ عدالت جانے میں ان کی معاونت کرے گا لیکن جب پولیس لائنز ہیڈ کوراٹر پہنچے تو حالات بالکل مختلف تھے۔
کسی پولیس اہلکار نے صحافیوں کو اس شاہراہ تک بھی جانے کی اجازت نہیں دی جس پر پولیس ہیڈ کوراٹر کا مرکزی دورازہ ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا سب سے پہلے عدالت میں جانے کے لیے پولیس لائنز پہنچے اور انھیں کسی بھی پولیس اہلکار نے روکنے کی جرات نہیں کی۔
عدالتی وقت شروع ہونے کے تین گھنٹے بعد پولیس حکامخفیہ دروازے سےعمران خان کے چار وکلا کو پولیس لائنز ہیڈ کوراٹر لے جانے میں کامیاب ہوئے جہاں پر عمران خان کے خلاف دو مقدمات کی سماعت ہونا تھی۔
صحافیوں کی ایک قابل ذکر تعداد جو وہاں پر موجود تھی، وہ ابھی تک اس خوش فہمی میں تھے کہ ان میں سے بھی کچھ افراد کو کمرہ عدالت تک لے جایا جائے گا لیکن کسی پولیس افسر نے اس بارے میں صحافیوں سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی تاہم جب میڈیا نے ایک اعلیٰ پولیس افسر سے اس کی شکایت کی کہ انھیں کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی تو انھوں نے شفاف الفاظ میں کہا کہ یہ اختیار ان کے پاس نہیں تھا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ آج عمران خان کے خلاف ان دونوں مقدمات کی عدالتی کارروائی ٹیکسٹ مسیج کے ذریعے مقامی نجی ٹی وی چینلز کے بیورو چیفس کو بھجوائی گئی، جو آگے یہ پیغامات بیٹ رپورٹرز کو بھجواتے تھے۔
ان ٹیکسٹ میسجز کی تصدیق کے لیے کمرہ عدالت میں موجود عمران خان کے وکلا سے رابطہ کیا جاتا تھا۔
Getty Images
پولیس لائنز کے باہر موجود صحافیوں کو پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی کوریج کرنے کی اجازت نہیں تھی اور مقامی میڈیا پر صرف وہی فوٹیجز چل رہی تھیں جو اسلام آباد پولیس کی جانب سے فراہم کی جارہی تھیں۔
پی ٹی آئی کے وکلا نے اس ٹیکسٹ میسج کی بھی تصدیق کی جس میں عمران خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ انھیں خطرہ ہے کہ کہیں اس کے ساتھ بھی مقصود چپڑاسی والا سلوک نہ ہو ۔
مقصود چپڑاسی موجودہ وزیراعظماور اس وقت کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ والے مقدمے میں اہم گواہ تھے، جن کی موت پر عمران خان نے بطور وزیراعظمتحفظات کا اظہار کیا تھا۔
عمران خان کی وکلا ٹیم میں شامل ایک وکیل شیرعالم خان نے دعویٰ کیا کہ پولیس لائنز کے اندر جہاں پر عارضی طور پر عدالت قائم کی گئی تھی وہاں پر پولیس کی بجائے فوجی اہلکاروں کی ایک قابل ذکر تعداد کو تعینات کیا گیا تھا۔
انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حراست کے دوران اگرچہ عمران خان کو جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن ان کو ذہنی ٹارچر دیا گیا۔
شیر عالم خان کے بقول عمران خان نے کمرہ عدالت میں انھیں بتایا کہ انھیں رات سونے نہیں دیا گیا اور ساری رات سڑکوں پر گھماتے رہے اور بعدازں چار بجے کے قریب ایک گندے سے کمرے میں بند کر دیا گیا اور انھیں زمین پر بچھانے کے لیے کوئی چادر بھی نہیں دی۔
شیر عالم خان نے کہا کہ عمران خان نے انھیں بتایا ہے کہ انھوں نے گذشتہ چوبیس گھنٹے سے باتھ روم استعمال نہیں کیا۔
شیر عالم خان نے بتایا کہ کمرہ عدالت میں عمران خان بار بار اپنے سر پر ہاتھ لگا رہے تھے اور پھر انھوں نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گرفتاری کے دوران رینجرز اہلکاروں نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ شیر عالم خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے انھیں بتایا ہے کہ ان کا کوئی مقدمہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں نہ لگایا جائے کیونکہ انھیں اب ان پر اعتماد نہیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عمران خان کے کہنے پر عدلیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں ریلیوں کا انعقاد کیا تھا، جس میں پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم کی جانب سے عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی مذمت کی تھی۔
توشہ خانہ مقدمے میں متعلقہ عدالت کی طرف سے عمران خان پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے تاہم عمران خان کی لیگل ٹیم کے سربراہ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج پر اعتماد نہیں تھا اس لیے انھوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر انھوں نے فرد جرم عائد کرنی ہے تو اس سے متعلق اپنے حکم نامے میں ان کے مؤکل کے تحفظات کا بھی ذکر کیا جائے۔
القادر ٹرسٹ کے مقدمے کی سماعتاسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی اور یہ وہی جج ہیں جنھوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں تین مرتبہ توسیع کی گئی ہے۔
اس کو حسن اتفاق کہیے کہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج بھی وہی، وکیل بھی وہی رہے لیکن اس مرتبہ صرف ملزم تبدیل ہوا۔
جج محمد بشیر، نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر مظفر عباسی اور خواجہ حارثبھی وہی لیکن اس مرتبہ ملزم نواز شریف نہیں بلکہ عمران خان ہیں۔ خواجہ حارث پہلے نواز شریف اور اب عمران خان کی طرف سے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں دسمبر سنہ 2018 میں میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی اور اس وقت ہی حکومت نے نیب اور بالخصوص ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل سرار مظفر عباسی کی کارکردگی کو سراہا تھا اور آج وہی اہلکار کرپشن کے کیس میں عمران خان کے خلاف پیش ہو رہا ہے۔
مظفر عباسی کا کہنا ہے کہ ’وہ فیس (چہرہ) کو نہیں بلکہ کیس کو دیکھتے ہیں۔‘