’ایک مستحکم پاکستان امن کے لیے ضروری ہے‘

بی بی سی اردو  |  May 10, 2023

Getty Imagesعمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری اور ان کی گرفتاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کی خبریں انڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر سب سے اہم خبروں میں شائع اور نشر کی گئی ہیں۔

ٹی وی چینلوں پر کلرات پرائم ٹائم میں پی ٹی آئی کے رہنما کی گرفتاری کے پس منظر میںپاکستان پر اس کے اثرات اور فوج کے کردار پر مفصل بحث ومباحثے ہوئے۔ کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر احتجاجیوں کی توڑ پھوڑاور بیرکوں و چوکیوں کو مسمار کرنے جیسے مناظر نمایاں طور پر دکھائے گئے۔

سوشل میڈیا پر بھی طرح طرح کے پیغامات پوسٹ کیے گئے جن میں پاکستان کی صورتحال پرکچھ میں تشویش ظاہر کی گئی اور بعض میں طنز ومزاح کے پیغامات تھے۔

انڈیا کے ایک سرکردہ ہندی چینل ' آج تک ' نے کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر احتجاجیوں کے حملے اور لوٹ مار کے حوالے سے شہ سرخی لگائی تھی ’احتجاجی قورمہ اور بریانی سب لوٹ لےگئے‘، بعضچینلوں نے خبر دی ہے کہ عمران کے بعد اب پورے پاکستان میں ان کی جماعت کے اعلی رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔

ان پہلوؤں پر بھیتبصرے ہو رہے ہیں کہ عمران خان ڈٹے رہیں گے یا گھٹنے ٹیک دیں گے ۔

ملک کے سرکردہ اخبار ' دی ہندو' نے پاکستان قومی اسمبلی کی سابق رکن فرح ناز اصفہانی کا تقریـبآ پورے صفحے کا ایک مضمون شائعکیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’عمران کی غیر مستقل سیاست نے پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ پاکستانی سٹیبلشمنٹ سے ان کے ٹکراؤ کا ابھی صرف آغاز ہے‘۔

روونامہ ہندوستان ٹائمز نے ' ایک غیر مستحکم پاکستان کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہے ' کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ’ کئی ہفتوں کی کشمکش کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمران اتحاد نے براہ راست ٹکرانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اقتصادی بحران سے گزرہا ہے حکومت بظاہر کنفیوزنظر آتی ہے۔

پاکستان میںپالیسی اور سیاست میں یہ جمودجنوبی ایشیا بالخصوص انڈیا کے لیے قطعی بہتر نہیں ہے۔اب جب کہ پاکستان میں انتخابات قریب آرہے ہیں انڈیا کو انتہا پسند سرگرمیوں اور کراس بارڈو فائر بندی پر گہری نظر رکھنی چاہئیے جو دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری کا سبب بنے ہوئے ہیں‘۔

اخبار ' انڈین ایکپریس' نے اپنے اداریے میں عمران کی گرفتاری کو فوج کی سکرپٹ قرار دیا ہے ۔ اخبار نے لکھا ہے ’اگر ہر چیز فوج کی سکرپٹ کے مطابق جاتی ہے تو عمران خان کو ایک یا کئی معاملات میں سزا ہو سکتی ہے اور انھیں انتخابات کے لیے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انھوں نے اپنے پیشرو نواز شریف کو نا اہل کرانے میں کردار ادا کیا تھا ۔

ہو سکتا ہے کہ عمران خان مستقبل میں دوبارہ اقتدار میں آ جائیں لیکن اس مرحلے پر ان کی پارٹی کی قیادت کسی ایسے رہنما کے ہاتھ میں ہونی چاہئیےجو سٹیبلشمنٹ کو زیادہ قابل قبول ہو‘۔

https://twitter.com/ANI/status/1656186423672967168

ٹی وی چینلز پاکستان کے محتلف صوبوں میں فوج کی تعیناتی کی خبریں دے رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بھی عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے پیغامات پوسٹ کیے گئے ہیں۔ کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ نے ٹوئیٹ کیا ہے ’ایک غیمر مستحکم پاکستان ہمارے لیے خطرناک ہے ۔ ہمیں ایک مستحکم پاکستان کی ضرورت ہےجو برصغیر میں امن کے لیے لازمی ہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کہ جو بھی ہو اچھا ہو اور وہاں کے عوام ایک پر امن زندگی گزاریں ‘۔

https://twitter.com/kadak_chai_/status/1656170219340173313

ایک صارف نے لکھا ہے ’گزشتہ برس سری لنکا نے خانہ جنگی دیکھی اب یہ پاکستان کی خانہ جنگی ہے۔اںڈین مسلمان جو ہمیشہ انڈیا میں فاشسزم ، اسلاموفوبیا کی باتیں کرتے ہیں انہیں خوش ہونا چاہئیے کہ وہ دنیا کے محفوظ ترین ملک میں رہ رہے ہیں‘۔

ایم کے تیاگی نام کے ایک صارف نے ٹوئٹ کیا ہے’عمران خان کے حامی ان کی گرفتاری سے اس قدر برہم ہیں کہ انھون نے پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹرز اور کور کمانڈر کے گھر کے ساتھ دو ہوائی جہاز بھی پھونک دیے ۔ یا اللہ ان مومنوں کو اور طاقت عطا فرما تاکہ یہ پاک ارمی کے ساتھ دہشت گردی کے کیمپ بھی جلا کر خاک کر دیں ۔ آمین‘

ویدھی سنگھ نے لکھا ہے’ تم لوگ پاکستان کو پھونکتے رہو ، ہم ہندوستانی آپ کے ساتھ ہیں‘۔

https://twitter.com/Suhelseth/status/1656238880197349376

انڈیا کے معروف میڈیا شخصیت سہیل سیٹھ نے پوسٹ کیا ہے ’پاکستان میں سروے کیا جائے تو مجھےکوئی حیرانی نہیں ہوگیاگر 90 فی پاکستانی خوشی سے انڈیا آنا چاہیں خاص طور سے اںڈیا کی ترقی دیکھ کر۔ وہ اپنے حکمرانوں اور بے حس فوج سے برگشتہ ہونگے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ آئیں ‘۔

اںڈیا میں پاکستان کی بدلتی ہوئی صورتحال میں دلچسپی بدستور برقرار ہے اور وہاں ہونے والے واقعات کو ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز میں مسلسل دکھا رہے ہیں ۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More