جب ہیریئٹ گرین نامی خاتون اپنے ہونٹ موٹے کرنے کا انجکشن لگوانے کے بعد سیلون سے نکلیں تو انھیں یقین دلایا گیا کہ انجکشن کے بعد ہونے والی اضافی سوجن چند دن میں کم ہو جائے گی، لیکن تین ماہ بعد بھی اُن کے ہونٹ اتنے ہی پھولے ہوئے تھے۔
ان کے ہونٹ اتنے سوج چکے تھے کہ وہ اپنا منھ تک ٹھیک سے بند نہیں کر پا رہی تھیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ ہیریئٹ کو ڈاکٹروں نے بتایا اب انھیں اپنے ہونٹوں کو پہلے جیسا بنانے کے لیے تین طرح کے پروسیس (علاج) کی ضرورت تھی، جس کی کل لاگت 700 پاؤنڈ سے زیادہ تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے ہونٹ اتنے خراب ہو گئے تھے کہ میں اپنا منھ تک بند نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میرے ہونٹوں پر دو سخت گانٹھیں پڑ گئی تھیں۔‘
ہیریئٹ نے، جو کسٹمر سروسز کال ہینڈلر کے طور پر کام کرتی ہیں، دسمبر میں لپ فلر کروانے سے پہلے کبھی کاسمیٹک سرجری نہیں کروائی تھی۔
انسٹاگرام اور ٹِک ٹاک انفلو ئینسرز کا کردار
انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر جبڑے کے فلرز، اینٹی رِینکل (چہرے کی جھریوں سے نجات کے) انجکشن اور ہونٹ فلرز کو فروغ دینے والے انفلوئینسرز کو دیکھنے کے بعد ہیریئٹ نے اپنے ہونٹوں کو پرکشش اور دلکش بنانے کا فیصلہ اس امید پر کیا کہ اس سے انھیں اپنے ہونٹوں کے حوالے سے جو احساسِ کمتری ہے وہ دور ہو جائے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان دنوں سوشل میڈیا پر ہماری نسل کے جو معیار اور پیمانے ہیں، میں نے سوچا کہ میں بھی یہ کرنا چاہوں گی۔‘
’اس بارے میں بہت زیادہ دباؤ ہے اور بہت سی باتیں سنی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔‘
لیکن ہیریئٹ کو اب احساس ہوا کہ یہ انڈسٹری ’ایک مائن فیلڈ‘ (یعنی خطرناک) ہے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شیئر ہونے والی تصاویر ’ہمیشہ آپ کو حقیقت نہیں دکھاتی ہیں۔‘
’نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں۔ آپ کو ہمیشہ من چاہا نتیجہ نہیں ملتا ہے۔ جب میں مسکراتی ہوں تو میں اب بھی اتنا ہی غیر محفوظ محسوس کرتی ہوں جیسا کہ میں پہلے کرتی تھی۔‘
’مسئلہ سنگین سے سنگین تر‘
ابتدائی علاج کی لاگت 165 پاؤنڈ تھی لیکن اب تک ہیریئٹ ڈاکٹر صبا راجہ کو، جو ناروچ میں اپنا جمالیاتی کلینک چلاتی ہیں، اپنے ہونٹوں کو درست کرنے کے لیے سات سو پاؤنڈ سے زیادہ رقم ادا کر چکی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ کو ہیریئٹ کے ہونٹوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی طرح کا علاج کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ہر ماہ میں ان نوجوان لڑکیوں کے سوالوں کا جواب دیتی ہوں جو آنکھوں کے نچلے حصے کو بھرنے یا ہونٹوں کا حجم بڑھوانے کے علاج کروانے کے لیے عطائیوں کے پاس گئیں اور اب انھیں پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔‘
ڈاکٹر راجہ اس صنعت کو ’وائلڈ ویسٹ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں، لوگ مریضوں کو ’اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر‘ اور ’کچن میں‘ اس طرح کے انجکشن لگاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’اینٹی رِینکل انجکشن صرف ڈاکٹری نسخے پر ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن انجیکٹر کوئی بھی خرید سکتا ہے۔ ڈرمل فلر (ہونٹوں اور چہرے کے لیے)کسی ویب سائٹ یا کہیں اور سے کوئی بھی خرید سکتا ہے جس کسی نے بھی اس کا ایک دن کا کورس کر رکھا ہو۔‘
وہ کہتی ہیں ’بہت سارے نان میڈیکل پریکٹیشنرز سستے فلر آن لائن خرید رہے ہیں، انھیں اس کا کوئی اندازہ نہیں کہ یہ کہاں سے آیا اور اس کی کوالٹی کیا ہے۔ ہمیں واقعی سخت ضابطوں اور تربیتی معیار کی ضرورت ہے۔‘
برٹش کالج آف ایستھیٹک میڈیسن کے سالانہ سروے سے پتا چلا ہے کہ ان کے 400 ارکان میں سے 82 فیصد نے پچھلے سال ایسے لوگوں کا علاج کیا ہے جنھیں کسی دوسرے نان پریکٹیشنر کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔ سروے سے معلوم ہوا کہ تقریباً 2,000 معاملات، جو کہ ایسے معالات کا59 فیصد ہیں، بیوٹیشن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کاسمیٹک سرجری کے غیر منظم کورس جو صرف چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں
بیوٹی کی جعلی مصنوعات فروخت کرنے والے گرفتار
سوشل میڈیا پر اچھا لگنے کے لیے کاسمیٹک سرجری کا رجحان
’مستقل اندھے پن کا خطرہ‘
سب سے زیادہ پیچیدگیاں ڈرمل فلرز نے پیدا کیں۔ سنہ 2021 میں فلر کروانے والے ہر پانچ کیسوں میں سے ایک میں پیچیدگی پیدا ہوئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ڈرمل فلرز غلط ہاتھوں میں کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘
برٹش ایسوسی ایشن آف ڈرمیٹالوجسٹ کی ڈاکٹر تمارا گریفتھس کا خیال ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ ڈرمل فلرز ہیں کیونکہ ’انھیں کوئی بھی انجکشن کے ذریعے لگا سکتا ہے‘ اور یہ دیگر کاسمیٹک طریقۂ کار کے مقابلے میں ’زیادہ خطرہ‘ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مستقل نابینا پن اس کے ممکنہ خطرات میں سے ایک ہے۔ حالانکہ یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ لیکن برطانیہ میں اس کی مثال موجود ہے۔‘
اس سے خون کی رگوں میں رکاوٹ کا خدشہ بھی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ماہِر امراض جلد کافی عرصے سے اس’انتہائی غیر منظم اور ممکنہ طور پر بہت خطرناک شعبے‘ کے بارے میں فکر مند ہیں۔
’یہاں ایسے لوگوں کا ایک گروہ ہے جو ایک دن انسٹاگرام پر موجود ہوتے ہیں، انجکشن لگاتے ہیں، اور دوسرے دن غائب ہو جاتے ہیں، جو اپنی اہلیت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔‘
سرجری یا فلر کروانے سے پہلے تحقیق
وہ مزید کہتی ہیں کہ جو لوگ غیر جراحی کاسمیٹک سرجری یا ایسے پروسیس کروانا چاہتے ہیں انھیں اپنی تحقیق خود کرنی چاہیے اور اس حوالے سے کسی رجسٹرڈ کمپنی یاکسی ایسے شخص کے پاس جانا چاہیے جو نامور ہو اور اس کا تعلق پیشہ ورانہ ادارے سے ہو۔
اس سال کے شروع میں حکومت نے انگلینڈ میں غیر جراحی کاسمیٹک طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک لازمی لائسنسنگ سکیم بنانےکے لیے اراکین پارلیمنٹ کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا ۔
محکمۂ صحت اور سماجی نگہداشت کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اس سکیم پر کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے بغیر لائسنس کے مخصوص غیر سرجیکل طریقہ کار کو انجام دینا جرم بن جائے گا۔
ایک ترجمان نے کہا، ’کوئی بھی شخص جو غیر جراحی کاسمیٹک سرجری یا کاسمیٹک طریقہ کار پر غور کر رہا ہے، اسے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سوچنا چاہیے اور، اگر وہ اس سِمت آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ایک معروف، بیمہ شدہ اور اہل پریکٹیشنر کو تلاش کرنے کے لیے وقت نکالیں۔‘
ہیریئٹ کے لیے یہ سکیم بہت دیر سے آئے گی لیکن تین طرح کے پروسیس کے بعد وہ آخر کار اب اپنے ہونٹوں سے خوش ہیں اور اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انھیں امید ہے کہ ان کے تجربے سے دوسری خواتین کو آگاہی ملے گی اور وہ احتیاط برتیں گی۔
’اگر آپ ہونٹ فلر یا کچھ بھی کروانے جا رہی ہیں تو اس سے پہلے اپنی تحقیق کر لیں اور صرف سوشل میڈیا کی تصویروں پر نہ جائیں، کیونکہ ان تصاویر کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘