Getty Images’موڈیز‘ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اپنے کم زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے ڈیفالٹ کر سکتا ہے
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے بغیر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ماہ یعنی جون کے مہینے کے بعد پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہے۔
’موڈیز‘ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان اپنے کم زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ زرمبادلہ کی کمی کے شکار ملک پاکستان کے لیے بیرونی فنانسنگ کی سہولت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سٹاف لیول معاہدے پر ابھی تک رضامندی ظاہر نہیں کی ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف قسط کے علاوہ دوسرے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی فنانسنگ بھی رُکی ہے ۔ ماضی قریب میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے با رہا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر ’جلد دستخط‘ ہونے کا عندیہ دیا گیا ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کے لیے اس وقت بیرونی فنانسنگ کے دروازے تقریباً بند ہیں اور سوائے چین کے کمرشل بینک کی جانب سے دیے جانے والے قرض پاکستان کسی دوسرے ملک یا ادارے سے فنڈنگ حاصل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اس کے زرمبادلہ ذخائر میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نظر نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں جن میں رواں برس فروری کے مہینے کے آغاز پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدے پر دستخط کے امکان کی وجہ سے کمی آئی تھی۔
واضح رہے کہ فروری کے آغاز میں اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں فریقین کے درمیان ورچوئل مذاکرات بھی ہوئے تھے تاکہپاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط جاری ہو سکے جس کی پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر کی وجہ کیا ہے؟
حالیہ دنوں میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ آف پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر کی کچھ ’تکنیکی‘ وجوہات ہیں۔
پاکستان نے جنوری کے مہینے سے لے کر اب تک آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے مختلف شرائط پوری کی ہیں جن میں بجلی کے شعبے میں سبسڈی کا خاتمہ اور بجلی کے بلوں میں اضافی سرچارج کی منظوری شامل ہے، اس کے ساتھ اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کےلیے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے اٹھارہ فیصد کر دی گئی جبکہ لگژری اشیا پر اس کی شرح پچیس فیصد کر دی گئی۔
اس کے ساتھ ڈیزل پر پٹرولیم لیوی بھی بڑھا دی گئی تاہم اس کے باوجود آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی بحالی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے بعد بھی اس کی جانب سے معاہدہ نہ ہونے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت علی خضر نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو یہیقین دہانیاں کروانی ہیں کہ جس کے تحت پاکستان اس مالی سال میں جاری کھاتوں کے خسارے کو دوست ممالک سے قرض اور امداد کی صورت میں پورا کرے گا۔
علی کے مطابق آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق یہ خسارہ چھ ارب ڈالر ہو گا جسے سعودی عرب، یو اے ای اور چین سے قرضہ یا ان کے پرانے قرضے کو رول اوور کر کے پورا کیا جائے گا ۔ ’آئی ایم ایف ان ممالک سے کمٹمنٹ چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کے اس خسارے کو پورا کریں گے تاکہ زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ کیا جا سکے۔‘
اسلام آباد میں معاشی امور کے صحافی مہتاب حیدر کے مطابق سب سے بڑی رکاوٹ ابھی تک چھ ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کے سلسلے میں مختلف ملکوں سے یقین دہانیاں حاصل کر کے ان سے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا ہے۔
انھوں نے کہا چھ ارب ڈالر میں سے ابھی بھی دو ارب ڈالر کا گیپ ہے جس کی وجہ سے پروگرام بحال نہیں ہو پا رہا۔
معاشی امور کے صحافی شہباز رانا کے مطابقدوست ممالک سے یقین دہانیوں کا مسئلہ تو برقرار ہے تاہم اس کے بعد ایک اور مسئلہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم پر غریب طبقے کو سبسڈی دینے کا اعلان بھی بن سکتا ہے اور آئی ایم ایف اس پر بھی سوال اٹھا سکتا ہے کہ اس کی فنانسنگ کا میکنزم کیا ہو گا۔
مہتاب نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کا رویہ بھی عجیب ہے اگر بیرونی فنانسنگ کی ساری یقین دہانیاں پاکستان نے حاصل کرنی ہیں تو پھر آئی ایم ایف کا اس سلسلے میں کیا کردار ہے؟‘
Getty Imagesبیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کیوں نہیں ہو رہیں؟
ایک جانب آئی ایم ایف پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے اور جاری کھاتوں کے چھ ارب ڈالر کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے یقین دہانیاں مانگ رہا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب تین ارب ڈالر کی یقین دہانی کروا دی گئی ہیں۔چین کے کمرشل بینک کی جانب سے پاکستان کے پرانے قرضے کے رول اوور کی سہولت فراہمکی گئی ہے۔
علی خضر نے پاکستان کے سیاسی بحران کو بھی اس سلسلے میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے،جس کے تحت پاکستان کے موجودہ مالی سال میں چھ ارب ڈالر کے جاری کھاتوں کے خسارے کو پورا کرنے کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے۔‘
آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں مزید تاخیر سے پاکستان کے دیوالیہ کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں؟
آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں مزید تاخیر سے کیا پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے کتنے امکانات ہیں،اس سلسلے میں بینک آف امریکہ نے حال ہی میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف سےڈیل جلد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بیرونی ادائیگی روک سکتاہے۔ تاہم بینک آف امریکہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین پاکستان کا دوست ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتا ہے۔
آئی ایم ایف ڈیل کے سلسلے میں تاخیر اور بیرونی قرضے کی ادائیگی کے روکنے کے سوال پر شہباز رانا نے بتایا کہ ’یہ ممکن ہے، کیونکہ جب پیسے ہی نہیں ہوں گے تو بیرونی قرضے کی ادائیگی کیسے ہو سکتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ پرانا قرضہ نیا قرضہ لے کر ادا کیا جاتا ہے اور اگر نیا قرضہ نہیں ملتا ہے تو پرانا قرضے کی ادائیگی کرنا مشکل ہو جائے گا۔
معاشی امور کے تجزیہ کار طاہر عباس کے مطابق اس بات کا امکان تھا کہ ڈیل جلد ہو جائے گی کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تقریباً سب شرائط پوری کر دی ہیں، اس لیے پیسے بھی آ جائیں گے اور حالات اس نہج پر نہیں پہنچیں گے کہ پاکستان اپنے بیرونی قرضے کی ادائیگی روک دے۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ پروگرام کو جون میں مکمل ہونا ہے، امید یہ ہے کہ یہ بحال ہو کر مکمل ہو گا اور پھر شاید پاکستان کا ایک مزید نئے پروگرام کی ضرورت پڑے۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کا ملکی معیشت پر کیا منفی اثر پڑا؟
آئی ایم ایف پاکستان میں پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں چاہتا ہے؟
آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟
ماہر معیشت عمار حبیب خان نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہوتی تو پھر بھی اس سال پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ پاکستان کو بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ میں اگلی ادائیگی اپریل 2024 میں کرنی ہے جس کی ادائیگی نہ کرنے سے کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے۔تاہم انھوں نے کہا کہ ڈیل نہ ہونے سے دوسری بہت ساری مشکلات بڑھیں گی جن میں درآمدی کارگو کی کلیئرنس میں مشکلات اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔
تاہم علی خضر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
انھوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ کی اگلی ادائیگی تو بلاشبہ اپریل 2024 میں کرنی ہے تاہم پاکستان نے چیناور متحدہ عرب امارات کے کمرشل بینکوں کو جو ادائیگیاں کرنی ہیں ان میں ناکامی سے بھی ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا اسی طرح ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو بھی پیسے واپس کرنا ہیں، جون تک یا تو پاکستان پیسوں کا انتظام کر کے چین ارو متحدہ عرب امارات کے کمرشل بینکوں کو قرضے واپس کرے گا یا پھر ان سے قرضوں کو رول اوور کروائے گا تو پھر ڈیفالٹ نہیں ہو گا۔‘