انڈین میک اپ آرٹسٹ جو لڑکیوں کو ہنر سکھا کر ’ٹریفکنگ سے بچا‘ رہی ہیں

بی بی سی اردو  |  May 09, 2023

BBC

’کئی بار دلی اور ممبئی سے ایجنٹ آ کر یہاں سے لڑکیوں کو لے جاتے ہیں اور ان کو کوٹھے پر ڈال دیتے ہیں۔ آج اگر کوئی ایجنٹ دلی یا ممبئی سے آئے اور یہ کہے کہ وہ وہاں وہ بڑی بڑیتنخواہوں پر انھیں کام دلوائیں گے تو وہ پولیس کو فوراً فون کر کے انھیں گرفتار کروا دیں گی۔۔۔ اس علاقے میں یہ تبدیلی آئی ہے۔‘

انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کے علی پوار دوار ضلعمیں چائے کے باغات میں ہزاروں لڑکیاں کام کرتی ہیں لیکن کم اجرت کے باعث بہت سی لڑکیاں یہ کام چھوڑ کر دلی اور ممبئی جیسے بڑے بڑے شہروں کا رخ کر رہی ہیں جہاں یہ نوعمر لڑکیاں اکثر ٹریفکنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

شکلا دیبناتھبرسوں سے اپنے گاؤں کی لڑکیوں اور خواتین کو ٹریفکنگ کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بیوٹیشین کا کورس کروا رہی ہیں تاکہ انھیں ٹریفکنگ سے بچایا جا سکے۔

BBCشکلا دیب ناتھ ایک تعلیم یافتہ پروفیشنل بیوٹیشین ہیں

علی پوار دوار کے ایک گاؤں میں درجنوں نو عمر لڑکیوں اور خواتین ایک کمرے میں جمع ہیں۔ یہ سبھی خواتین کلچینی ٹی گارڈن (چائے کا باغ) میں کام کرتی ہیں اور یہاں میک اپ اور بیوٹیشین کا کورس سیکھنے کے لیے آئی ہیں۔ انھیں بیوٹیشین کا کورس شکلا دیب ناتھ سکھا رہی ہیں۔

شکلا دیب ناتھ ایک تعلیم یافتہ پروفیشنل بیوٹیشین ہیں۔ انھوں نے لڑکیوں کی ٹریننگ کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ وہ انھیں یہ ہنر سکھا کر ناصرف اضافی آمدن کمانے کا ایک ذریعہ مہیا کر رہی ہیں بلکہ اس عمل کے دوران وہ انھیں وومن ٹریفکنگ اور جنسی استحصال سے بچنے کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کر رہی ہیں۔

کلچینی ٹی گارڈن شکلا کے گھر سے کافی دوری پر ہے اور وہ اپنے اخراجات سے ساری تربیت کا انتظام خود کرتی ہیں۔

شکلا ہر اتوار کو تعطیل کے روز ضلع کے کسی ٹی گارڈن میں لڑکیوں کو بیوٹیشن کا ہنر سکھانے جاتی ہیں۔ وہ برسوں سے یہ کام کر رہی ہیں۔

BBC

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شکلا نے بتایا ’اس علاقے میں چائے کے باغات ہی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔ یہاں بیشتر لوگ انھی چائے کے باغات میں کام کرتے ہیں۔ یہاں غربت کے سبب وومن ٹریفکنگ کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے۔‘

’جب میں 15 برس کی تھی تبھی سے میں اس کے بارے میں سنتی آئی ہوں۔ میں نے پڑھائی کے ساتھ بیوٹیشین کا کورس کیا تھا اور میں پروفیشنل بیوٹیشن ہوں۔‘

وہ کہتی ہی کہ ’میں نے ٹی گارڈن کی لڑکیوں کو مفت بیوٹیشین کا ہنر سکھانا شروع کیا۔ میں نے سوچا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو کراضافی آمدن کما سکتی ہیں۔ ساتھ ہی میں نے انھیں جنسی استحصال اور وومن ٹریفکنگ کے بارے میں بیدار کرنا شروع کیا۔ یہ میری ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ’لڑکیوں کو اغوا کر کے قحبہ خانوں کو دیا جاتا ہے‘

غربت سے تنگ آ کر بچے فروخت کرنے والی ماؤں پر کیا گزرتی ہے؟

شمالی کوریا سے سمگل ہونے والی خاتون خود کیسے انسانی سمگلر بنیں؟

BBCسشما منگر

شکلا کی تربیت یافتہ سشما منگر نے بی بی سی کو بتایا ’یہاں دیدی کے ایک دن کے کورس میں شامل ہو کر مجھے بہت اچھا لگا۔ یہ کورس میں نے مفت کیا اور اب میرےآس پڑوس میں شادی بوتی ہے تو میں دلہن کا میک اپ کرنے جاتی ہوں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ انھیں اب سات، آٹھ ہزار روپے کی اضافی آمدن ہو جاتی ہے۔

یہاں ٹی گارڈنز میں کام کرنے والوں کی روزی پوری طرح ٹی گارڈن پر منحصر ہے۔ یہ ٹی گارڈن سال میں کئی بار بند رہتے ہیں اور اس مدت میں ان مزدوروں کو پیسے نہیں ملتے۔

بیشتر کا تعلق مختلف قبائل سے ہے اور وہ چائے کی پتیاں توڑنے کا کام نسل در نسل کرتے چلے آئے ہیں۔

BBCجسمینکا

ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے اس دور میںان ورکرز کی نئی نسل بہتر آمدن اور بہتر مستقبل کی تلاش میں دلی، بنگلور، گڑگاؤں، ممبئی اور پنے جیسے بڑے بڑے شہروں کا رُخ کر رہی ہے۔

بڑے بڑے شہروں کےبھرتی ایجنٹ ان علاقوں میں نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کوان شہروں میں لے جا کر کام پر لگاتے ہیں۔ ان میں سے کئی انسانی سمگلنک اور خواتین کی ٹریفکنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔

جسمینکا نام کی ایک لڑکی نے بتایا کہ ’اکثر یہاں ایجنٹ آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باہر بہت پیسہ ملے گا، گھر اچھی طرح چلے گا، تمہارا گھر بن جائے گا وغیرہ۔۔۔ ہم لوگ بھی جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ہم شکر گزار ہیں شکلا دیدی کے جنھوں نے ہمیں بتایا کہ کہ ہم زیادہ پیسوں کی لالچ میں نہ آئیں اور صرف جان پہچان کے لوگوں کے ساتھ ہی باہر جائیں۔‘

جسمینکا کا کہنا تھا ’بیوٹیشین کا کورس کرنے سے ہم کچھ پیسہ الگ سے بھی کما لیتے ہیں۔‘

BBC

شکلا دیبناتھ کہتی ہیں ’کئی بار دلی اور ممبئی سے ایجنٹ آ کر یہاں سے لڑکیوں کو لے جاتے ہیں اور ان کو کوٹھے پر ڈال دیتے ہیں۔ آج اگر کوئی ایجنٹ دلی یا ممبئی سے آئے اور یہ کہے کہ وہ وہاں وہ بڑی بڑیتنخواہوں پر انھیں کام دیں گے تو وہ پہلے پولیس کو فون کر کے انھیں گرفتار کروا دیں گی۔ یہ تبدیلی آئی ہے۔‘

شکلا دیب تن تنہا برسوں سے ان لڑکیوں کو تربیت دینے کا کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسے انسانیت کی خدمت سمجھتی ہوں۔ میں نے یہ تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ہے۔‘

وہ ایک کے بعد ایک سبھی ٹی گارڈن ورکرز کو اپنا ہنر اور پیغام پہنچانا چاہتی ہیں ’یہاں 80 ٹی گارڈنز ہیں۔ میں نے 20 ٹی گارڈنز میں کام کیا ہے اور ہزاروں لڑکیوں کو تربیت دی اور انھیں سیکس ٹریفکنگ کے بارے میں آگا ہ کیا اور آج انھیں کوئی نہیں ورغلا سکتا۔‘

شکلا دیبناتھ ہفتے کے باقی دنوں میں پروفیشنل میک اپ آرٹسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس سے جو آمدن ہوتی ہے اس کا ایک حصہ وہ ٹی گارڈن کی لڑکیوں کی مفت تربیت پر خرچ کرتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More