درگا بھابھی، جو انگریزوں کو چکمہ دینے کے لیے بھگت سنگھ کی اہلیہ بنیں

بی بی سی اردو  |  Apr 23, 2023

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے دوران جب 'پنجاب کیسری' کہلانے والے لالہ لاجپت رائے سائمن کمیشن کی مخالفت کے دوران لاٹھی چارج میں ہلاک ہوئے تو 10 دسمبر 1928 کو لاہور میں انقلابیوں کا اجلاس بلایا گیا جس کی صدارت درگا دیوی نے کی۔

وہ انقلابی بھگوتی چرن ووہرا کی اہلیہ تھیں جنھوں نے 'ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن' کا منشور لکھا تھا۔ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔

معروف صحافی کلدیپ نیر اپنی کتاب ’وداؤٹ فیئر، دی لائف اینڈ ٹرائل آف بھگت سنگھ‘ میں لکھتے ہیں: ’درگا دیوی نے سب سے پوچھا کہ تم میں سے کون سکاٹ کا قتل کر سکتا ہے؟

بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اور چندر شیکھر آزاد نے ہاتھ اٹھائے۔ پہلے سکھ دیو یہ کردار اکیلے ادا کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی مدد کے لیے چار دیگر کامریڈ بھگت سنگھ، راج گرو، چندر شیکھر آزاد اور جئے گوپال کا انتخاب کیا گیا۔‘

17 دسمبر 1928 کو بھگت سنگھ اور راج گرو نے شام 4 بجے انگریز افسر سینڈرز کو قتل کرکے لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لیا۔ تین دن بعد سکھ دیو بھگوتی چرن ووہرا کے گھر گیا، جو اس وقت روپوش تھے۔

سکھ دیو نے ووہرا کی بیوی درگا دیوی سے پوچھا: ’کیا آپ کے پاس کچھ پیسے ہوں گے؟‘ درگا نے انھیں 500 روپے دیے جو ان کے شوہر نے دیے تھے۔

سکھ دیو نے ان سے کہا، کچھ لوگوں کو لاہور سے باہر لے جانا ہے۔ کیا آپ ان کے ساتھ لاہور سے باہر جا سکتی ہیں؟

ان دنوں درگا بھابھی لاہور کے ویمن کالج میں ہندی کی ٹیچر تھیں۔ کرسمس کی چھٹیاں تین چار دن میں ہونے والی تھیں۔ سکھ دیو نے کہا کہ وہ کرسمس سے پہلے انھیں چھٹیاں دلوا دیں گے۔

مالویندر جیت سنگھ وڑائچ اپنی کتاب 'بھگت سنگھ، دی ایٹرنل ریبل' میں لکھتے ہیں: 'درگا بھابھی نے مجھے بتایا کہ اگلے دن سکھ دیو، بھگت سنگھ اور راج گرو میرے گھر آئیں گے۔ تب تک میں نے بھگت سنگھ کو بالوں کے ساتھ دیکھا تھا۔‘

’سکھ دیو نے مجھ سے پوچھا، کیا آپ لوگ ہمیں پہچانتے ہیں؟ میں اس سے پہلے کبھی راج گرو سے نہیں ملا تھا، اس لیے میں نے انکار کر دیا۔‘

’تب سکھ دیو نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بھگت سنگھ کی طرف اشارہ کیا اور کہا 'یہ وہی 'جٹو' ہے، جو سنترے کا شوقین ہے۔ ان کے قہقہے سے میں نے پہچان لیا کہ یہ تو بھگت سنگھ ہے۔ بھگت سنگھ نے ہنستے ہوئے کہا: 'بھابی، جب آپ مجھے نہیں پہچان سکیں تو انگریز بھی مجھے پہچان نہیں سکیں گے۔'

درگا بھابھی اور بھگت سنگھ میاں بیوی بنے

اگلی صبح یعنی 20 دسمبر کو بھگت سنگھ ایک افسر کی طرح ملبوس تانگے پر سوار ہوئے۔ انھوں نے اوور کوٹ پہن رکھا تھا اورکوٹ کا کالر اونچا رکھا تاکہ ان کا چہرہ نظر نہ آئے۔

ان کے ساتھ مہنگی ساڑھیوں اور اونچی ہیل والی سینڈل میں ملبوس درگا بھابھی بھی تھیں، جو ان کی بیوی کے طور پر سفر کر رہی تھیں۔ درگا بھابھی کا تین سالہ بیٹا شچی بھگت سنگھ کی گود میں تھا۔ راج گرو ان کے اردلی کے بھیس میں تھا۔ بھگت سنگھ اور راج گرو دونوں کے پاس بھری ہوئی ریوالور تھی۔

لاہور ریلوے سٹیشن پر اتنی پولیس تھی کہ قلعہ لگنے لگا تھا۔ اس سفر کے لیے بھگت سنگھ کا نام رنجیت اور درگا بھابھی کا نام سجاتا رکھا گیا۔ کلدیپ نیر اپنی کتاب 'وداؤٹ فیئر، دی لائف اینڈ ٹرائل آف بھگت سنگھ' میں لکھتے ہیں: 'ان دنوں ہر فرسٹ کلاس مسافر کو ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے اپنا نام بتانا پڑتا تھا۔ بھگت سنگھ نے ٹی سی کو اپنا نام بتانے کے بجائے اپنا ٹکٹ لہرایا۔'

جب یہ لوگ اپنے ڈبے میں پہنچے تو وہاں موجود ایک پولیس والے نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی کہ 'یہ صاحب لوگ ہیں۔ سینیئر افسران ہیں جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ راج گرو ان کے نوکر کے طور پر تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھے۔

دہرادون ایکسپریس کچھ دیر میں لاہور سٹیشن سے روانہ ہوئی۔ وہ ان انگریز افسروں کے ناکوں کے درمیان سے نکل آئے جو پلیٹ فارم سے ٹرین میں سوار اپنی بیویوں اور بچوں کو رومال لہرا رہے تھے۔' اس وقت بھگت سنگھ کی تلاش میں سٹیشن پر 500 سکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔

درگا بھابھی نے کلکتہ ٹیلیگرام بھیجا ’کمنگ ود برادر‘

سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے درگا بھابھی نے مالویندر جیت سنگھ وڑائچ کو بتایا: 'ہم فرسٹ کلاس کے کیبن میں اکیلے تھے، ایک بوڑھے جوڑے نے ہمارے ساتھ کچھ دور تک سفر کیا اور پھر ٹرین سے اتر گیا۔

ایک مسافر کافی دیر تک ہمارے ساتھ تھا، لیکن وہ سارے راستے سوتا رہا۔ مجموعی طور پر ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

ٹرین کانپور پہنچی تو تینوں نے کلکتے کے لیے ٹرین پکڑی۔ اسی دوران بھگت سنگھ نے جاسوسوں کو چکمہ دینے کے لیے پورا ڈرامہ رچایا۔

آئی ڈی گور اپنی کتاب 'مرٹیئرز ایز برائڈگروم' میں لکھتے ہیں: ’پورے سفر کو قدرتی بنانے کے لیے، صاحب لکھنؤ کے چارباغ سٹیشن پر چائے پینے کے لیے اترے، نوکر بچے کا دودھ لینے چلا گیا۔ دودھ دینے کے بعد راج گرو اندر چلے گئے۔‘

’یہاں سے درگا بھابھی نے کلکتہ میں اپنی ساتھی سشیلا دیدی کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں لکھا تھا 'کمنگ ود برادر - درگاوتی'۔ ان دنوں درگا بھابھی کے شوہر بھگوتی چرن ورما سشیلا دیدی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، دونوں کو یہ ٹیلی گرام مل کر حیرت ہوئی کہ یہ درگاوتی کون ہے جو اپنے بھائی کے ساتھ کلکتہ آرہی ہے۔‘

بہرحال 22 دسمبر 1928 کی صبح سشیلا دیدی اور بھگوتی چرن ووہرا درگا بھابھی کو لینے کلکتے کے ہاوڑہ سٹیشن پہنچے۔

ستیانارائن شرما اپنی کتاب 'کرانتی کاری درگا بھابھی' میں لکھتے ہیں: 'ان دنوں بھگوتی چرن ورما مفرور تھے، اس لیے وہ ریلوے قلی کے لباس میں تھے، گھٹنوں تک لمبی دھوتی پہنے، داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ اپنی بیوی درگا، بیٹے شچی اور بھگت سنگھ کو دیکھ کر خوشی سے بھر گئے۔ اچانک اس کے منہ سے نکلا، 'درگا آج تمہیں پہچان گیا۔'

BBC

درگا بھابھی 7 اکتوبر سنہ 1907 کو شہزاد پور، الہ آباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد بانکے بہاری لال بھٹ الہ آباد میں ڈسٹرکٹ جج تھے۔

1918 میں ان کی شادی مشہور آزادی پسند رہنما بھگوتی چرن ووہرا سے ہوئی۔ 3 دسمبر 1925 کو ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اپنے شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے انھوں نے انقلابیوں کا ساتھ دینا شروع کیا۔

ستیانارائن شرما لکھتے ہیں: 'درگا بھابی جیل میں بھیجے جانے کپڑوں کی ترپئی کھول کر اپنے ساتھی انقلابیوں کے لیےکوڈ ورڈز میں پیغامات بھیجتی تھیں۔ میسجز کاغذ پر دودھ اور پیاز کے رس کے ساتھ بھیجے جاتے تھے۔ دودھ یا رس خشک ہونے کے بعد وہ کاغذ سادہ نظر آتے تھے۔ جیل میں ان کے ساتھی آنچ دکھا کر انھیں آسانی سے پڑھ لیتے تھے۔'

بم دھماکے میں اپنے شوہر کی شہادت کے بعد وہ اپنے ایک جاننے والے کیول کرشنا کے گھر 15 دن تک ایک مسلمان خاتون کے طور پر مقیم رہیں۔

پڑوسیوں کو بتایا گیا کہ وہ پردہ دار خاتون ہیں۔ ان کا شوہر کرشنا کا دوست ہے جو اس وقت حج پر گیا ہوا ہے۔ وہ اس کے آنے تک ہمارے ساتھ رہے گی۔

درگا بھابھی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے ارکان کے لیے جے پور سے دو بار پستول اور ریوالور لے کر آئی تھیں اور برطانوی پولیس کو ان پر ذرا بھی شک نہیں ہوا تھا۔

بھگت سنگھ کو کلکتہ چھوڑنے کے بعد، درگا بھابھی لاہور واپس آگئیں اور اپنے تدریسی کام میں مصروف ہوگئیں۔

BBCسارجنٹ ٹیلر کا قتل

سنہ 1930 میں چندر شیکھر آزاد سوچ رہے تھے کہ پورے ہندوستان میں انقلابی سرگرمیاں تیز رفتاری سے نہیں ہو رہی ہیں، اس لیے انھوں نے درگا بھابھی، وشواناتھ ویشمپیان اور سکھ دیو کو بمبئی بھیج دیا۔ وہاں یہ طے پایا کہ وہ لوگ پولیس کمشنر لارڈ ہیلی کو قتل کر دیں۔

ان کی موٹر کار لیمنگٹن روڈ پر تھانے کے قریب کھڑی تھی۔ اسی دوران انھیں مالابار ہل سے ایک کار آتی نظر آئی۔ انھوں نے دیکھا کہ گاڑی پر گورنر کا پرچم لگا ہے۔ ایک انگریز افسر گاڑی سے باہر نکلا۔

ستیہ نارائن شرما لکھتے ہیں کہ پرتھوی سنگھ آزاد نے حکم دیا، 'شوٹ'۔ درگا بھابھی نے فوراً گولی چلا دی۔ سکھدیو نے بھی فائرنگ کی۔ فائرنگ کے تبادلے میں سارجنٹ ٹیلر اور ان کی اہلیہ مارے گئے۔

درگا بھابھی کے ڈرائیور جناردن باپٹ نے فوراً گاڑی کو بھگا لیا۔ واقعے کے فوراً بعد درگا دیوی اور سکھ دیو راج کانپور کے لیے روانہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیے

بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی برسی، کیا آج بھی ان کے خیالات اتنے ہی اہم ہیں؟

وہ برطانوی جاسوسہ جنھیں سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا

شرما لکھتے ہیں: ’بعد میں درگا بھابھی نے مجھے اس واقعے کی تفصیلات بتائیں کہ جب ہم بمبئی سے نکلے تو بہت خوفزدہ تھے۔ ہمیں دیکھ کر چندر شیکھر آزاد غصے سے لال ہو گئے۔ اگر منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو آزاد شاید ان غلطیوں پر دھیان نہیں دیتے۔‘

’لیکن ہیلی کے بجائے پولیس سارجنٹ اور اس کی بیوی کے قتل میں فضول کا خطرہ لیا جو ان کے لیے بالکل بھی قابل قبول نہیں تھا۔ لیکن کچھ دیر غصے میں رہنے کے بعد آزاد پرسکون ہو گئے۔‘

بھگت سنگھ سے ملنے لاہور سے دہلی آئيں

جس دن بھگت سنگھ نے سینٹرل اسمبلی میں بم پھینکا، درگا بھابی خاص طور پر ان سے ملنے کے لیے دہلی آئیں۔

بعد میں ملویندر جیت سنگھ وڑائچ کو ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا: ’جب میں سیالکوٹ میں تھی، مجھے اپنے شوہر کی طرف سے ایک میسنجر کے ذریعے خط موصول ہوا جس میں مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں فوری طور پر سوشیلا دیدی کے ساتھ دہلی پہنچ جاؤں اور چند دنوں بعد ہم نے لاہور جانے کے لیے ایک بس پکڑی۔‘

’وہاں سے رات بھر کی ٹرین لی اور 8 اپریل کی صبح دہلی پہنچے۔ ہم قدسیہ گارڈن گئے جہاں سکھ دیو، بھگت سنگھ کو ہم سے ملانے کے لیے لائے تھے۔ ہم لاہور سے اپنے ساتھ کھانا لائے تھے جو ہم سب نے مل کر کھایا۔‘

درگا نے بھابھی وڑائچ کو بتایا: ’سشیلا دیدی نے اپنی انگلی کاٹ کر بھگت سنگھ کو خون سے تلک لگایا۔ ہمیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ بھگت سنگھ کس مشن پر جا رہے ہیں۔ ہمیں صرف یہ احساس تھا کہ وہ کسی 'ایکشن' کے لیے جا رہے ہیں‘

’جب ہم اسمبلی کے قریب پہنچے تو چاروں طرف پولیس تھی، پھر ہم نے دیکھا کہ بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کو پولیس کی گاڑی میں لے جایا جا رہا ہے، جیسے ہی میری گود میں بیٹھے میرے بیٹے شچی نے بھگت سنگھ کو دیکھا وہ زور سے چلایا لمبو چاچا۔‘

’میں نے فوراً اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر دیا۔ بھگت سنگھ نے بھی شچی کی آواز سنی اور ہماری طرف دیکھنے لگا لیکن ایک ہی لمحے میں وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔‘

درگا بھابی مہاتما گاندھی سے ملیں

جب سے بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو موت کی سزا سنائی گئی، چندر شیکھر آزاد نے اس سزائے موت کو روکنے کی کوشش شروع کردی۔ اس نے مہاتما گاندھی سے ملنے کے لیے درگا بھابھی کو دہلی بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

حالانکہ بھگت سنگھ اپنی سزائے موت کو روکنے کے خلاف تھے۔

26 فروری 1931 کو غازی آباد کے ممتاز کانگریسی رہنما رگھونندن شرن درگا، بھابھی اور سشیلا دیوی کے ساتھ رات گیارہ بجے دریا گنج میں ڈاکٹر ایم اے انصاری کی کوٹھی پر پہنچے۔ گاندھی جی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔

ستیانارائن شرما درگا بھابھی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ’جواہر لال نہرو کوٹھی کے باہر ٹہل رہے تھے۔ وہ دونوں خواتین کو کوٹھی کے اندر لے گئے۔ درگا بھابھی نے گاندھی جی کو بتایا کہ وہ چندر شیکھر آزاد کی تجویز پر ان سے ملنے آئی ہیں اور چاہتی ہیں کہ وہ بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی پھانسی روکنے کی کوشش کریں۔‘

انھوں نے انھیں آزاد کا پیغام بھی دیا کہ اگر مہاتما ان تینوں کی سزائے موت کو بدل سکتے ہیں تو انقلابی ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔

لیکن گاندھی جی نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر بھگت سنگھ کو پسند کرتے ہیں لیکن ان کے طریقوں سے متفق نہیں ہیں۔

درگا بھابھی کو گاندھی جی کا جواب پسند نہیں آیا اور وہ انھیں سلام کرکے واپس چلی آئیں۔

درگا بھابھی کی گرفتاری

بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو 23 مارچ 1931 کو پھانسی دی گئی۔ اس سے کچھ دن پہلے 27 فروری سنہ 1931 کو چندر شیکھر آزاد نے بھی پولیس مقابلے میں اپنی جان دے دی تھی۔

اس وقت درگا بھابھی نے فیصلہ کیا کہ وہ ہتھیار ڈال کر خود کو گرفتار کر وا لیں اور دوسرے ذرائع سے ملک کی خدمت کریں۔ 12 ستمبر سنہ 1931 کو اس بارے میں درگا بھابھی کا بیان لاہور کے اخبارات میں شائع ہوا۔

پولیس نے انھیں دوپہر 12 بجے ان کی رہائش سے گرفتار کر لیا۔ بعد میں درگا بھابھی نے ایک انٹرویو میں کہا: ’پولیس مجھے گرفتار کرنے کے لیے تین لاریوں میں آئی، مجھے لاہور قلعہ لے جایا گیا۔‘

’وہاں ایس ایس پی جینکنس نے مجھے دھمکاتے ہوئے کہا ’تمہارے ساتھیوں سے ہمیں تمہارے بارے میں پہلے ہی پتا چل چکا ہے۔ آپ کا تمام ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔‘ میں نے جلدی سے جواب دیا: ’اگر آپ کے پاس میرے خلاف ثبوت ہیں تو مجھ پر مقدمہ چلائیں، ورنہ مجھے چھوڑ دیں۔‘

لیکن جینکنس نے ان کی بات نہیں مانی۔ پہلی رات انھیں خوفناک خواتین مجرموں کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔ جب پولیس ان کے خلاف کوئی ثبوت اکٹھا نہ کر سکی تو دسمبر 1932 میں انھیں جیل سے رہا کر دیا گیا لیکن اگلے تین سال تک ان کے لاہور سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

1936 میں درگا بھابھی لاہور سے غازی آباد چلی آئیں اور وہاں پیاری لال گرلز ہائی سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔

1940 میں انھوں نے لکھنؤ مونٹیسوری سکول قائم کیا۔ بعد میں وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس کی عمارت کا افتتاح کیا۔ ا

پریل 1983 میں بیماری کے باعث انھوں نے سکول سے چھٹی لے لی اور پھر 15 اکتوبر 1999 کو درگا بھابھی اس دنیا سے چلی بسیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More