BBC
بچپن سے مثال سنتے آ رہے ہیں ’من حرامی تے حجتاں ڈھیر‘ یعنیدل بے ایمان ہوتو کچھ نہ کرنے کے سو بہانے۔آئین کو سو سلام مگر جب دل چاہے گا تب عمل ہو گا، کبھی کلی تو کبھی جزوی عمل ہوگا۔ نہیں دل چاہے گا تو آئین کی کمر پے ایک سو ایک تاویلات لاد دی جائیں گی۔
مثلاً اسی ملک میں جب 23 مارچ انیس سو چھپن کے آئین کے نفاز کے بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات کے لیے فضا بننا شروع ہوئی اور سرد جنگ کے منڈب پر امریکی تھاپ پر تا تا تھئیاکرتی حکمران اشرافیہ (کاسہ لیس سیاستداں جمعنوکر شاہی جمع فوجی قیادت ) کو لگا کہاکثریتی صوبے (مشرقی پاکستان) میں بائیں بازو کا قوم پرست اتحاد زیادہ نشستیں جیت کر ون یونٹ کے ترازو کا توازن تلپٹ کر سکتا ہے تو امریکیوں کو سرخ بھوت دکھا کے رضامندی لی گئی اور لولی لنگڑی جمہوریت لپیٹ کر مارشل لا لگا دیا گیا۔
جب نئے فوجی سیٹ اپ کے لیے ممکنہ خطرہ بننے والے ’شر پسند و کرپٹ‘ سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر الیکشن کی گیم سے باہر کر دیا گیا اور مرضی کا میدانسج گیا تو انیس سو چونسٹھ میں رن آف کچھ اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان انڈیا کشیدگی میں مسلسل اضافے کے باوجود نہ صرف بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت اسی ہزارکونسلرز منتخب کیے گئے بلکہ ان کونسلرز کی مدد سے صدارتی انتخابات کا ڈرامہرچا کے خود کو جائز کر لیا گیا۔
انیس سو ستر میں اگرچہ دیوار پر موٹا موٹا لکھاتھا کہ عوامی لیگ سب کا صفایا کر دے گی ۔مگر مشرقی پاکستان میں تباہ کن سمندری طوفان میں ایک لاکھ سے زائد جانوں کے اتلاف کے باوجودانٹیلیجینس ایجنسیوں کی ان رپورٹوں کے بھروسے پر پہلے عام انتخابات کروا لیے گئے کہ کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملے گی۔ جو بھی سویلین حکومت تشکیل پائے گی اسے اقتدار میں رہنے کے لیے عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مرہونِ منت رہنا پڑے گا۔ یوںتوازنِ طاقت صدر یحیی خان کے ہاتھ میں رہے گا اور پھر عسکریات نے انتخابات کرواکے اپنے منہ سے بڑا نوالہ اٹھا لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اگلے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملنے کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے اپوزیشن کو سرپرائز دینے کے لیےحکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے ایک سال پہلے ہی جنوری انیس سو ستتر میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ مگر بکھری ہوئی اپوزیشن نے پاکستان قومی اتحاد کی شکل میں بھٹو کو اس سے بھی بڑا سرپرائز دے دیا۔
Getty Images
جوہری ری پروسیسنگ پلانٹ اور تیسری دنیا کی یکجائی کے سلسلے میں بھٹو صاحب کی بے جا پھرتیوں سے امریکہ ویسے ہیتنگ تھا۔جبکہ اندرون ملک اپوزیشن کو گذشتہ چار برس میں ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر)کے ڈنڈے سے سختی سے دبا کے رکھا گیا۔
چنانچہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان ہوتے ہی تمام اندرونی و بیرونی بھٹو مخالف اس نکتے پر یکجا ہو گئے کہ بھلے کالا چور آ جائے بھٹو واپس نہ آئے۔
بھٹو نے اپنی بے پناہ مقبولیت ثابت کرنے کے لیے جان محمد عباسی کو اغوا کروا کے خود کو بلامقابلہ منتخب کروا لیا۔ان کی دیکھا دیکھی متعدد وفاداروں نے بھی یہی راہ منتخب کی۔ گویا کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج ساہنوں مرن دا شوق وی سی۔ اور پھر ایک دن بلا سارا دودھ پی گیا۔
وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے
’گریٹ لکی پاکستانی سرکس‘
جانِ من کہاں جا رہی ہو مجھے ڈسے بغیر؟
’بائیس کروڑ میں سے صرف بائیس پاکستانی چاہیں‘
انیس سو اسی کی دہائی کے عسکری سیٹ اپ نے بھی ملک کے ساتھ وہی کیا جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کےبرائلر جمہوری تجربے نے کیا تھا۔ بس اب کی بار اتنا کرم ہوا کہ آئین منسوخ نہیں معطل ہوا اور اسی معطلی کے دوران آئین کو مارشل لائی میز پر لٹا کے مذہبی انیستھیسیادے کے حسبِ خواہش پلاسٹک سرجریکر دی گئی۔
ساتھ ہی ساتھ سیاسی کلوننگ کے ذریعے ایک پوری ہم خیال کلاس پیداکی گئی جو آج تلک بازوِ شمیشر زن کا بازوِ شمشیر زن ہے ۔کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی ہر آئینی و نیم آئینی و غیر آئینی شکل آزمائی گئی تاکہ انتخابات والے دن جمہوریت کی جھلکی دکھلاکے عوام کی تسلی ہوتے ہیپورے اقتداری عمل کو حرممیں تالا بند رکھا جا سکے۔
ستر اور ستتر کے تلخ انتخابی تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے انیس سو پچاسی سے اب تکجو بھی پولنگ ہوئی اس میں انتخاب بس اتنا کرنا تھا کہ آپ ہز میجسٹی کی وفادار سرکار کو دوبارہ منتخب کرنا چاہتے ہیں یاہز میجسٹی کی وفادار حزبِ اختلاف کو موقع دینا چاہتے ہیں۔
Getty Images
چونکہ اس وقت کچھ طے نہیں کہ ستر کی طرح انتخابی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا چنانچہ ٹالنے کے لیے ایسے ایسے توجہ ہٹاؤ عذر تراشے جا رہے ہیں گویا مشرقی پاکستان کے سمندری طوفان، بھٹو کی پھانسی یا بے نظیر کی شہادت سے بڑئ آفت آ گئی ہو اور اس فضا میں انتخابات قومی خود کشی کے برابر ہوں۔
جب تک حسبِ خواہش مثبت فضا نہیں بنتی تب تک ترازو کے مالک تقسیم کار انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔ جس کو جلد بازی لاحق ہے وہ آئین کے بانس پر چڑھ بیٹھا ہے۔ جسے ہرگز عجلت درپیش نہیں وہ آئینی بانسزور زور سے ہلا رہا ہے۔
یہ ام الدلیلبھی پاک سرزمین میں ہی دینا ممکن ہے کہ اگر چودہ مئی کو صرف دو صوبوں میں انتخابات ہوئے تو انڈیا اندرونی کشیدگی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، دہشت گردی کی لہر آ سکتی ہے، سیاسی قوتوں کے درمیان برتشدد تصادم ہو سکتا ہے، ملکی معیشتاکیس ارب روپے کا کمرتوڑ اضافی بوجھ نہیں سہار پائے گی۔
لیکن یہی انتخابات اگر ساڑھے پانچ ماہ بعد آٹھ اکتوبر کو ہوتے ہیں تو مودی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ را کو پاکستان میں گڑبڑ سے روکنے کے لیے دو چپت مارے گا۔ طالباننے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا ہے کہ انتخابی جلسوں کو اپنے زیرِ اثر علاقوں میں فول پروف سیکورٹی فراہم کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے سے سڑکوں پر گلے ملیں گے اور ملکی معیشتاگلے پانچ ماہ میں اتنی صحت مند ہو جائے گی کہ بیک وقت پورے پاکستان میںانتخابات کے لیے اسی ارب روپے کاباآسانی انتظام ہو جائے گا۔
موجودہ لڑائی سے میرا اور آپ کا کوئی لینا دینا نہیں۔یہ دراصل دودھ کی پرات پر بلیوں کی لڑائی ہے ۔ایک موٹی بلی بس اتنا چاہتی ہے کہ دوسرا موٹا بلا سارا دودھ نہ پی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ خوخیاہٹ و پنجہ بازی اس قدر نہ بڑھ جائے کہ گرم گرم پرات ہی منہ پر الٹ جائے۔