پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں قائم نگراں حکومتوں کی معیاد بھی ختم ہو چکی ہے تاہم پاکستان کے آئین میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اگر کوئی نگراں حکومت مقررہ مدت میں انتحابات کا انعقاد کروانے میں ناکام رہے تو ایسی نگران حکومت کی میعاد میں اضافے کا کیا قانونی جواز ہو گا اور اس دوران نگراں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی کیا آئینی حثیت ہو گی۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں ملک میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے بھی ریمارکس دیے تھے کہ نگران حکومت نوے دن سے زیادہ برقرار رہنے پر آئینی سوال اٹھتا ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف نگران حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد اُن کے فیصلوں کو ’غیر آئینی‘ قرار دے چکی ہے اور جمعرات کو فواد چوہدری نے کہا تھا کہ نگران حکومتوں کو گھر چلے جانا چاہیے۔
تاہم پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب نگران حکومتیں بوجوہ 90 دنوں میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ بنا سکیں اور آئینی میعادکے چند دن گزر جانے کے بعد ملک بھر میں الیکشن ہوا۔
سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں اور سنہ 2008 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے باعث ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں چند دنوں کی تاخیر تو ہوئی تھی لیکن انتخابات انھی نگراں حکومت کے دور میں ہی ہوئے جو اس وقت موجود تھیں۔
پاکستان کے آئین میں یہ درج ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل ہونے کے دن سے نوے دنوں کے اندر اندر عام انتحابات کا انعقاد ہو گا جبکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے سات روز کے اندر نگراں حکومت قائم ہو جائے گی۔
لیکن موجودہ حالات ماضی کے مقابلے میں کچھ محتلف نظر آتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی پی ڈی ایم کی حکومت مرحلہ وار انداز میں ملک میں الیکشن کروانے پر تیار نظر نہیں آتی۔
ایسی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے لیے بھی ایک نیا چیلنج سامنے آیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے نگران حکومتوں کی مدت کے معاملے پر ریمارکس سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ان حکومتوں کی قانونی حثیت کے بارے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی اور سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود حان کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نگراں حکومتوں کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد نگراں وزرائے اعلی کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔
اس درخواست میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ دونوں نگراں وزرائے اعلیٰ کو اختیارات کے استعمال سے بھی فوری طور پر روکا جائے۔ اس درخواست میں سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنی نگرانی میں ان دونوں صوبوں میں روز مرہ کے امور چلانے کا طریقہ کار وضح کرے۔
Getty Images
پاکستان میں انتخابات کے امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ آئین میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ اگر نگراں حکومت مقررہ وقت میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ بنا سکے تو کیا نگراں حکومت کا وجودبرقرار رہ سکتا ہے یا پارلیمان فقط قرارداد منظور کر کے ان کی مدت میں توسیع کر سکتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی ایسی کوئی نظیر موجود نہیں ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے ماضی میں کسی کیس کی سماعت کے دوران اس نوعیت کے معاملے پر کوئی ڈائریکشن (حکم) جاری کیا ہو۔
انھوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں سپریم کورٹ کے کردار کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، دوسری جانب موجودہ حکومت بھی ایسے موڈ میں نظر آ رہی جو اداروں میں تناؤ میں لگاتار اضافے کو فروغ دے رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں جبکہ سپریم کورٹ کے کچھ جج صاحبان پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی کو آئینی حثیت دینے کو تیار نہیں، تو اہم معاملات جیسا کہ نگراں حکومت کی اپنی مدت کے بعد کام جاری رکھنے کے معاملے پر ابہام ہی نظر آ رہا ہے۔
Getty Images
پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں اگر انتخابات کچھ دنوں کی تاخیر کا شکار ہوئے تو اس وقت پورے ملک میں نگراں سیٹ اپ موجود تھا اس لیے کسی نے اس نکتے کو نہیں اٹھایا اور نہ ہی نگراں سیٹ اپ پر کوئی سوال کیا گیا لیکن موجودہ حالات ماضی کے مقابلے میں مختلف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ ان دو صوبوں میں قائم نگراں سیٹ اپ کے بارے میں آئندہ ہفتے ہونے والی سماعتوں کے دوران کوئی ڈائریکشن دے دے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج اور ماہر قانون شاہ خاور کا کہنا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے نگراں حکومتوں کے قیام سے لے کر انتظامات کرنے کا اخیتار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ نگراں حکومتوں کو حکومتی امور چلانے کے بارے میں ہدایت دے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں ’الیکشن کا سوال‘: کیا سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہی اس بحران کا حل ہے؟
سپریم کورٹ میں ’تقسیم‘: وہ کیس جس نے پاکستان میں نئے بحران کو جنم دیا
آرمی چیف کا قومی اسمبلی میں خطاب: ’ہمارے پاکستان‘ کے بیان کا مطلب کیا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کی طرف سے ان دونوں صوبوں میں قائم نگراں حکومتوں کو انتخابات کے انعقاد تک اپنا کام جاری رکھنے سے متعلق کوئی قرارداد منظور کر لی جائے تو پھر ان نگراں حکومتوں کو کسی حد تک قانونی جواز مل سکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ اس لیگل کور کو کیسے دیکھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر نگراں حکومت مقررہ وقت کے اندر اندر اپنے صوبے میں انتخابات کا انعقاد کروا دیتی ہے اور اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد بھی کوئی مالیاتی فیصلے کرتی ہے تو ان فیصلوں پر عمل درآمد ایک ماہ تک کارآمد ہو سکتا ہے۔
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ جب سابق فوجی صدر ضیا الحق کی ہلاکت ہوئی تھی تو اس کے بعد عبوری سیٹ اپ پر اسی نوعیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا اور عدالت عظمیٰ نے اس عبوری سیٹ اپ کے مالیاتی فیصلوں کو قانونی قرار دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ اس نوعیت کے معاملات ہیں جن پر نہ تو آئین میں کچھ خاص وضاحت ہے اور نہ ہی کسی عدالتی فیصلے کی نظیر اس لیے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس فل کورٹ بلائیں اور تمام معاملات کا حل نکالیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ آنے والے دنوں میں ملک میں آئینی اور سیاسی بحران میں مذید اضافہ ہو گا جس میں ناصرف جمہوریت بلکہ عدلیہ کی بھی نیک نامی نہیں ہو گی۔