Getty Images
’مائیں اپنی دس، گیارہ سال کی بچیوں کو ہمارے پاس لاتی ہیں کہ بیٹی کا رنگ سانولا ہے، ابھی سے اس پر کام شروع کر دیں گے تو 19، 18 سال کی عمر تک یہ گوری ہو جائے گی۔‘
’بعض مائیں اپنی کم عمر بچیوں کے لیے ڈاکٹرز کو سکن وائٹننگ انجیکشنز کے کورسز کا کہتی ہیں اور اگر ڈاکٹرز ایسا نہ کریں تو آج ملک کے ہر بڑے شہر کے بیشتر چھوٹے بڑے پارلرز بغیر کسی ضابطہ کار اور نگرانی کے یہ ٹیکے مہیا کر رہے ہیں۔‘
اسلام آباد کی ڈاکٹر ارمیلا ایک ڈرماٹولجسٹ یعنی ماہر امراض جلد ہیں اور ان کے مطابق اُن کے کلینک پر آنے والی خواتین اور مردوں کی ایک بڑی تعداد اپنی قدرتی رنگت سے خائف نظر آتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے پاس آنے والے کئی مریض واقعتاً چند جلدی مسائل کا شکار ہیں مگر انہی میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جنھیں صرف اپنی رنگت گوری کرنی ہے۔
جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں بہت سے لوگ گوری رنگت کو خوبصورتی اور کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس تصور کی جڑیں خاصی مضبوط ہیں۔
بازار میں موجود رنگ گورا کرنے والی سستی کریموں سے بات کافی آگے نکل چکی ہے۔ اب رنگت کی تبدیلی کے لیے انجیکشنز، لائٹننگ لیزرز، پی آر پی اور اس جیسے کئی علاج اور طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ان میں خاص طور پر انجیکٹیبل کیمیکلز یعنی ٹیکے کے ذریعے استعمال کیے جانے والی مصنوعات کی افادیت پر امریکہ سمیت مختلف ممالک میں سوال بھی اٹھائے گئے ہیں اور لوگوں کو ان کے ’ان چیکڈ‘ استعمال کے خلاف متنبہ کیا گیا ہے۔
’ہمیں کہا جاتا ہے پیلا رنگ نہیں پہننا، یہ تو بالکل کالی ہے‘BBCفاریحہ یوسف جلد کی رنگت کی بنیاد پر تفریق سے واقف ہیں مگر انھوں نے کم عمری میں ہی اسے احساس کمتری میں بدلنے سے روک دیا
فاریحہ یوسف اسلام آباد میں نجی سکولز کی ایک چین کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ جلد کی رنگت کی بنیاد پر تفریق سے واقف ہیں مگر انھوں نے کم عمری میں ہی اسے احساس کمتری میں بدلنے سے روک دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے مطابق ان کے والد ہیں جنھوں نے انھیں معاشرے میں موجود اس تفریق کے سامنے کھڑا ہونا سکھایا۔
’بچپن میں کھیلتے ہوئے اکثر ایسا ہوتا کہ جو سفید رنگت والے یا خوبصورت سے بچے ہوتے انھیں فوقیت دی جاتی اور مجھے نوکرانی کا کردار دیا جاتا تو میں بہت خفا ہوتی کہ ایسا کیوں ہے۔ میں ہیروین کیوں نہیں بن سکتی، جس کی شادی ہونے والی ہے یا اس کی گڑیا کی شادی ہونے والی ہے۔ میں نوکرانی ہی کیوں بنوں۔ مجھے بُرا لگتا اور میں یہ کہہ کر آ جاتی کہ بس میرا دل نہیں چاہ رہا کھیلنے کو۔‘
’میں گھر آتی اور بابا کو بتاتی تو وہ مجھے واپس بھیجتے کہ نہیں تم جاؤ، کھیلو اور وہ کردار لو جو تم کرنا چاہتی ہو۔ اس وقت تو میں بہت روتی تھی، مگر وہ مجھے زبردستی بھیجتے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں رنگت کی بنیاد پر یہ مقابلے بازی بچپن میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔
’ہمارے معاشرے میں یہ سوچ بہت گہری اور مضبوط ہے۔ کم عمر بچیوں میں اس مقابلے بازی کا رحجان ہوتا ہے کہ کون زیادہ پیارا ہے اور کون زیادہ گورا ہے۔ ہر خاندان میں ایسے رشتہ دار بھی ضرور موجود ہوتے ہیں کہ سانولی رنگت کی بچیاں جب بھی کہیں جائیں، یہ رشتہ دار خواتین یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ ارے اس کے چہرے پر ابٹن نہیں لگا رہیں؟ بازار میں فلاں نئی کریم آئی ہے وہ لگاؤ۔ میں نے بہت سی خواتین کو اس احساس کمتری کے باعث زندگی بھر تکلیف میں دیکھا ہے۔‘
فاریحہ کے مطابق بچپن میں سانولی یا گہری رنگت کی بچیوں کے لیے کچھ رنگ پہننا بھی معیوب بن جاتے ہیں۔
’ہمیں کہا جاتا ہے کہ پیلا رنگ نہیں پہننا، یہ تو بالکل کالی ہے یہ پیلا رنگ کیسے پہنے گی، یا ہرا رنگ نہیں پہننا یہ تو بالکل اچھا نہیں لگے گا۔ سرخ رنگ اچھا نہیں لگے گا۔ اس کو ہلکے رنگ پہنائیں بس۔ تو ایسی بچیوں کے لیے کپڑوں کے رنگوں تک پر پابندی ہوتی ہے۔‘
’سکول، کالج میں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ کہیں کسی ایونٹ یا کھیل کے لیے جب ٹیچر بچیوں کا انتخاب کرتیں تو جو اونچے قد کی یا گورے رنگ کی طالبات ہوتیں انھیں منتخب کر لیا جاتا۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ فرق تو صرف رنگت کا تھا، اور تو کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن جب میں خود ٹیچر بنی تو میں نے یہ یقینی بنایا کہ کسی بچے یا بچی کو ان کی جلد کی رنگت کی بنیاد پر تفریق کا سامنا نہیں کرنے دوں گی۔‘
’کوئی مجھے کالا کہتا، تو کوئی بھنگی‘ BBC
رنگت کی اس تکلیف دہ دوڑ اور تفریق میں صرف خواتین ہی نہیں، مرد بھی شامل ہیں۔
کراچی کے رہائشی شاہ رخ خان نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کی۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اور ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہ نفرت سہتے گزرا ہے جو کسی مہذب معاشرے میں کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
’کوئی مجھے کالا کہتا ہے، کوئی مجھے بھنگی کہتا ہے۔ اور ’کالا دجال‘ تو بہت سنتا ہوں۔ مجھ سے پوچھا جاتا کہ کیا آپ افریقہ کے ہیں۔ آتے جاتے یہ سب سنتا ہوں اور لوگ رنگت کی بنیاد پر واضح تفریق کرتے ہیں، طعنے کسے جاتے ہیں، جملے بازی کی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قابلیت کوئی معانی نہیں رکھتی، دن بھر کی محنت کے بعد ہمیں ہماری ظاہری شخصیت، رنگت اور خوبصورتی کے روایتی پیمانے پر ہی پرکھا جاتا ہے۔ کوئی اچھا دکھتا یا جاذب نظر ہے تو اس کی وجہ اس کا گورا رنگ ہے، ہمارے جیسے لوگ کماچھے دکھتے ہیں۔‘
لیکن فاریحہ کے برعکس شاہ رخ خان کے لیے ایسے جملوں کو نظر انداز کرنا قدرے مشکل تھا۔
’میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسائل کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ اسے نظرانداز کریں۔ کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ آپ بحث تو نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ باتیں سن سن کر آپ کے دماغ پر بھی سوار ہو جاتی ہیں کہ میں بھی تھوڑا سا گورا ہو جاؤں۔‘
’میں نے بھی بہت سی کمپنیوں کی رات کو لگائی جانے والی فیئرنیس کریمیں استعمال کر کے دیکھی ہیں مگر مجھے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ انجیکشنز لگوانے کا بھی لوگ کہتے ہیں کہ رنگ گورا کرنے کے لیے گلوٹوٹھائیان انجیکشن لگوا لو مگر میں نے اس کے مضر اثرات کی وجہ سے آج تک استعمال نہیں کیے ہیں۔‘
طب کے شعبے سے منسلک ماہرین کا دعویٰ ہے کہ جلد کی رنگت ہلکی کرنے کے لیے اس وقت مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر گلوٹوتھائیون انجیکشن کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کو وٹامن سی کے ساتھ ملا کر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انجیکشن اور ڈرپس کے علاوہ یہ کیپسول کی شکل میں بھی دستیاب ہے اور بغیر کسی قانونی چیک اینڈ بیلنس کے یہ چھوٹے بیوٹی پارلرز تک میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
امریکہ اور بعض دیگر ممالک کے متعلقہ ادارے اس کے استعمال کے خلاف تنبیہ بھی جاری کر چکے ہیں جن کے مطابق اس کے استعمال اور اثرات سے متعلق اس وقت مکمل تحقیق موجود نہیں ہے۔ جبکہ ’جگر کی بیماری کے لیے استعمال ہونے والے اس کیمیکل کا زیادہ استعمال گردوں، جگر اور تھائیرائیڈ کی بیماریوں سمیت کینسر تک کا باعث بن سکتا ہے۔‘ تاہم اس کے فوائد یا نقصانات سے متعلق جامع تحقیق کا فقدان ہے۔
ڈاکٹرز اور ڈرماٹولوجسٹس اس گلوٹوتھائیون جلد پر داغ دھبے دور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاہم اس کی مقدار اور انجیکشنز کے کورس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
تاہم ڈاکٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ جلد کی رنگت ہلکی کرنے کے لیے یہ طریقہ مقبول تو ضرور ہے مگر یہ مستقل بنیادوں پر جلد کی رنگت نہیں بدلتا۔
جلد کی رنگت سے متعلق مختلف اشتہاری مہمات چلتی رہتی ہیں۔ فیئر اینڈ لولی، اور اس جیسی دیگر کئی سوشل میڈیا اشتہاری مہم نے عام لوگوں کے رویوں میں کچھ خاص تبدیلی پیدا نہیں کی ہے یا کم از کم یہ بہت سست روی کا شکار ہے۔
BBCڈاکٹر ارمیلا کہتی ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ رنگ گورا ہو گا تو خوبصورت ہوں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار رنگت ہرگز نہیں، خوبصورتی کا معیار ایک اچھی یعنی صحت مند جلد ہے‘پاکستان میں گوری رنگت کا کتنا جنون ہے؟
ہم نے ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر ارمیلا جاوید سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا واقعی لوگوں کے رویے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے اور ’گوری رنگت کا جنون‘ صرف برقرار ہی نہیں بلکہ کافی بڑھ چکا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ رنگ گورا ہو گا تو خوبصورت ہوں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار رنگت ہرگز نہیں، خوبصورتی کا معیار ایک اچھی یعنی صحت مند جلد ہے۔ اس پر ایکنی یا داغ دھبے نہ ہو، چہرے یا جلد کے مسام نظر نہ آئیں، ہائیڈریٹڈ جلد ہو، بلیک ہیڈز یا فالتو بال نہ ہوں وغیرہ وغیرہ، لیکن رنگت کیا ہے، یہ کبھی بھی خوبصورتی کا پیمانہ نہیں رہا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں خودساختہ پیمانے ہیں۔‘
وہ اپنے پاس آنے والے افراد سے متعلق بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’گوری رنگت کا جنون‘ تکلیف دہ ہے۔
’دکھ کی بات یہ ہے کہ بچیاں تو کچھ نہیں کہتیں، ان کی مائیں آتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ میری بیٹی کا رنگ خراب ہے، کم سفید ہے، آپ اس کا کچھ کریں، کچھ مائیں کہتی ہیں بیٹی کا رشتہ آ رہا ہے تو بس جلدی سے اس کا رنگ گورا کر دیں۔ اگر والدین ہی اپنے بچوں پر اعتماد نہیں کر رہے تو زندگی بھر کے لیے اس بچے میں کیسا احساس کمتری پیدا ہو رہا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’ایسی خواتین بھی آتی ہیں جو کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کی گندمی رنگت سے خوش نہیں ہیں۔ صرف خواتین ہی نہیں، لڑکے بھی آتے ہیں۔ خاص طور پر وہ مرد حضرات جو ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جہاں پبلک ڈیلنگ زیادہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی معاشرے کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
’رنگت کے حوالے سے معاشرے میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے‘BBCفاطمہ لودھی کے مطابق گوری رنگت کے ساتھ ہمارے معاشرے کے جنون کا گہرا تعلق اس وقت شروع ہوا جب یہ خطہ برطانوی راج کا حصہ بنا
فاطمہ لودھی کا شمار پاکستان میں پہلی بار رنگت کی بنیاد پر تفریق ختم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کمپین کا سہارا لینے والوں میں ہوتا ہے۔ 2013 سے ’ڈارک از ڈیوائن‘ کے ہیش ٹیگ سے آگاہی مہم چلانے والی فاطمہ لودھی سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔
’میں نے اب لوگوں کے رویے میں تبدیلی دیکھی ہے۔ پہلے تو اداکار اور اداکارائیں بھی اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتیں تھیں۔ انڈسٹری ایک مافیا ہے، جب انھیں ادائیگی کی جاتی ہے تو وہ کام کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کا لوگوں پر کیا اثر ہے۔ لیکن یہ جو مہم چلتی رہی ہیں تو اس سے کچھ تو تبدیلی آئی ہے۔ اب بہت سے اداکار ہیں جو رنگت گوری کرنے والے متنازع اشتہارات کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تبدیلی آئے گی، وقت لگے گا مگر یہ سوچ بھی تبدیل ہو گی۔‘
فاطمہ لودھی کے مطابق گوری رنگت کے ساتھ ہمارے معاشرے کے جنون کا گہرا تعلق اس وقت شروع ہوا جب یہ خطہ برطانوی راج کا حصہ بنا۔
’تب سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گوری رنگت کے لوگوں کو سیاہ یا بھوری رنگت پر برتری حاصل ہے، اس رنگت کی خواہش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان خیالات کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ پہلے بات فیئرنیس کریموں تک تھی مگر اب طرح طرح کے پروسیجرز آ گئے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ گوری رنگت کو خوبصورت کہا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسری رنگت کو بدصورت کہا جاتا ہے جو غلط ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
گوری رنگت، مگر کس قیمت پر؟
فیئرنیس کریم کے اشتہار کے حوالے سے شاہ رخ اور دیپیکا پر تنقید
'میرے بچے کو گورا بنا دو'، انڈیا میں گورے پن کا جنون
تھائی لینڈ میں پرائیویٹ پارٹس کو گورا کرنے کا رجحان
لیکن شاہ رخ خان رویوں میں تبدیلی کے لیے بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔’اب یہ معاشرہ ہمیں سٹگما بناتا رہے گا اور ہم یہی سوچتے رہیں گے کہ کاش ہم بھی گورے ہوتے۔‘
مگر فاریحہ یوسف سمجھتی ہیں کہ یہ ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ بچوں کو رنگت کی اس تفریق اور تکلیف سے باہر نکالیں۔
’مجھے اعتماد دینے والے میرے والد تھے۔ وہ کہتے اگر یہ لوگ تمہیں قبول نہیں کر رہے، تم جاؤ اور ان کے ساتھ اس وقت تک رہو کہ وہ خود آ کر کہیں کہ ہم نے فاریحہ سے دوستی کرنی ہے۔ اور میں نے بہت اچھے دوست بنائے اور جب دوست بنے تو پھر یہ رنگت وغیرہ کی باتیں بے معانی ہو گئیں۔‘
میرے خیال میں ہمیں اپنی بیٹیوں کو بہت مضبوط بنانا چاہیے اور اس معاملے میں سب سے اہم کردار خود مائیں ادا کر سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں مائیں اپنے بچوں کو دھوپ میں کھیلنے نہیں دیتیں، کوہ پیمائی کی اجازت نہیں کہ دھوپ میں نکلیں گی تو کالی ہو جائیں گی۔ یہ سب بدلنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم اب تک انہی دقیانوسی سوچ میں پھنسے ہیں۔‘
’کوئی بھی ڈاکٹر بنا جانچ کے رنگت گورا کرنے والے ٹیکے نہیں دے گا‘
جدید طریقوں سے متعلق بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کسی بھی چیز کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔ یعنی اگر کوئی مریض جلد کے بالوں کے خاتمے کے لیے لیزر کا استعمال زیادہ کرے تو جلد جل سکتی ہے، زیادہ حساس ہو سکتی ہے، مستقل بنیادوں پر نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جلد کے اچھے ڈاکٹر کے پاس جائیں، یہ یقینی بنائیں کہ ان کے پاس موجود لیزر مشینیں جدید اور اچھے معیار کی ہیں۔
ان کے مطابق کوئی بھی ڈاکٹر آپ کے بلڈ ٹیسٹ اور دیگر ٹیسٹس سے پہلے آپ کو سکن لائیٹننگ انجیکشن نہیں دے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ جاننا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کی رنگت یا جلد میں تبدیلی آئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا کوئی بیماری ہے، کیا کوئی ہارمونل مسئلہ ہے۔ اس لیے پہلے اس مسئلے کو حل کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے سیلونز اور کلینکس کی بھرمار سے متعلق وہ کہتی ہیں کہ کبھی بھی سوشل میڈیا پر چلنے والے اشتہارات کی بنیاد پر ڈاکٹر کو منتخب نہیں کرنا چاہیے۔
’جلد بہت قیمتی ہے اور اس کے علاج بہت مہنگے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ جلد کے مسائل کے لیے ان ڈاکٹرز کے پاس جائیں جن سے آپ کے دوست احباب یا رشتہ داروں میں کوئی پہلے گیا ہے۔ ایک اچھا ڈاکٹر آپ کو کبھی کسی دوا کی زیادہ خوراک نہیں دے گا۔ جلد کے مسائل کے حل کے لیے انجیکشنز کا استعمال بھی ایک پلان کے تحت کیا جاتا ہے، لیزر کے استعمال کی بھی ٹائم لائن تیار کی جاتی ہے اور ایک اچھا ڈاکٹر اس کو فالو کرتا ہے۔ اگر آپ کا ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ لیزر سیشن کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ڈاکٹر تبدیل کر لیں۔‘