وہ کاروباری شخص جو طویل عمر کا نسخہ ڈھونڈ رہا ہے

بی بی سی اردو  |  Apr 22, 2023

BBCبرائن جانسن اپنی حیاتیاتی عمر کو کم کرنے کی کوشش میں دسویوں لاکھ خرچ کر رہے ہیں

موت تو حقیقت ہے، یہ ٹل نہیں سکتی لیکن کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ زندگی کے آخری ماہ و سال میں بہتری لائی جا سکتی ہے جس وہ ’ہیلتھ سپین‘ یا صحت کے دورانیہ کا نام دیتے ہیں۔

گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں انسان کی زندگی کا دورانیہ تقریباً دوگنا ہو چکا ہے لیکن ہم سب نے اپنے پیاروں کے آخری سال دیکھے ہیں جب بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ان کی زندگی کے معیار میں تنزلی ہوتی ہے۔

بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ معیار زندگی کو بہتر رکھنے کے لیے ایک پوری صنعت وجود میں آ چکی ہے جو جدید طریقوں کو بروئے کار لا کر صحتمندانہ لمبی زندگی کا وعدہ کرتی ہے۔

یہ کاروبار اپنے عروج پر ہے جسے ہمارے سیلولر زوال سے لڑنے کی صلاحیت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور ہمارے جسم میں سوزش اور بیماری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ہر طرح کے گرم و سرد علاج سامنے لائے جا رہے ہیں۔

لہذا جب میں بھی ایک ایسے مرکز کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئی تو مجھے یہ واضح نہیں تھا کہ میں دولت کمانے کے ایک نئے مرکز میں پہنچ رہی تھی یاطب کے اگلے محاذ پر۔

ٹیکنالوجی کے کاروبار سے وابستہ 45 سالہ برائن جانسن اپنی حیاتیاتی عمر کو کم کرنے کی کوشش میں دسیوں لاکھ خرچ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی معقول وجہ ہے۔

ہماری بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کینسر، ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کے عارضے یا ڈیمنشیا جیسی بیماریوں کے حملے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لہذا اگر بڑھاپے کی آمد کو کسی طرح مؤخر کیا جا سکتا ہے تو ان بیماریوں کے حملے کو بھی مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

تاہم جانسن کے لیے یہ ایک کھیل ہے۔ وینس کے ساحل پر ایک پرتعیش گھر کے ایک بیڈروم کو کلینک میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں وہ روزانہ گھنٹوں گذارتے ہیں۔

وہ صبح پانچ بجے جاگتے ہیں اور ایک گھنٹے بعد اپنا پہلا کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا دوسرا اور آخری کھانا دن کے گیارہ بجے ہوتا ہے جس میں مختلف سپلیمنٹس پر مشتمل 54 گولیوں کے علاوہ بغیر لیبل والی ادویات کے مرکب بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں مختلف ٹیسٹوں کے بعد چنا جاتا ہے۔

جانسن کا دن سخت ورزش، مسلسل نگرانی اور متعدد ٹریٹمنٹ کے گرد گھومتا ہے۔

BBCلارا نے کیلیفورنیا میں طویل عمر پر توجہ مرکوز کرنے والی لیبارٹریوں اور کمپنیوں کا دورہ کیا

انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ پورے جسم پر لیزر ٹریٹمنٹ کروا رہے ہیں جس سے ان کی جلد کی عمر اصلی عمر سے 22 سال کم ہے جو ان کے جسم کے کسی حصے کی عمر میں سب سے بڑی کمی ہے۔

اگرچہ جمالیات اس سب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے، کیونکہ وہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ ’ہماری جلد ہمارا سب سے بڑا عضو ہے۔‘

جانسن بہت خوش مزاجاور نرم گو انسان ہیں اور جب میں ان کے گھر سے نکلی تو میں نے بھی تہیہ کیا کہ میں بھی کسی حد تک ان جیسا بننے کی کوشش کروں گی۔

شاید میں پہلے سے کچھ ان جیسی ہوں۔ میں روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑتیہوں، میٹھی چیزیں کھانے سے پرہیز کرتی ہوں ہوں اور تفریحی کےلیے ٹریکنگ آلات کا استعمال کرتی ہوں۔

میرے ساتھیوں نے جانسن کی زندگی کو بے لذت سمجھا، لہذا ہر کوئی ان جیسی زندگی نہیں گذار سکتا۔

اگرچہ ان کے روز مرہ کے معمولات انتہائی سخت ہیں لیکن میری ان سے جتنی بھی بات چیت ہوئی ہر بات لائف سٹائل پر آ کر ختم ہوئی۔

دی بک انسٹیوٹ فار ایجنگ ریسرچ کے چیف ایگزیکٹو ایرک ورڈن کہتے ہیں کہ ’طویل العمری کا 93 فیصد انحصار لائف سٹائل پر منحصر ہے اور جینز کا حصہ سات فیصد ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اعداد و شمار کی بنیاد پر (اگر ہم صحت مند رہتے ہیں)، میں پیشگوئی کروں گا کہ زیادہ تر لوگ 95 برس تکاچھی صحت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ورزش کو ہی لے لیں،کیا ہمارے لیے روزانہ کی چہل قدمی ہی مفید ہے یا س سخت ورزش ضروری ہے۔

لہذا ہم سب کے پاس 15 سے 17 برس اضافی سال کا آپشن موجود ہے جو اپنےلائف سٹائل کو بہتر کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

BBCطویل العمری کا93 فیصد انحصار لائف سٹائل پر ہے اور جینز کا حصہ 7 فیصد ہے: ایرک ورڈن

یہ ہی اصول صحت مند خوراک کے ساتھ بھی ہے۔ کیا روزہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا شوگر سے پرہیز؟ رات کی اچھی نیند کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اچھی نیند کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جا سکتا۔ میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملی ہوں جو صبح اٹھنے کے لیے تو نہیں لیکن پورے آٹھ گھنٹے سونے کے لیے آلارم لگاتے ہیں۔ ہم سب مختلف سطحوں پر حدیں مقرر کرتے ہیں۔

ورڈن،جو کہتے ہیں اس پرعمل بھی کرتے ہیں۔ ان کے روزانہ کے معمولات میں ورزش، روزہ ، اچھی نیند اور اچھے سماجی رابطے شامل ہیں۔ ان کے معمولات میں شراب کی مقدار بہت کم ہے۔ وہ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ دن کے 24 گھنٹوں میں کم از کم 14 گھنٹے بغیر کچھ کھائے گذاریں اس سے آپ کے نظام ہضم پر بہت فرق پڑے گا۔

البتہ اس بارے میں تحقیق ہو رہی ہے کہ خوراک کے بارے میں یہ معمول کچھ عورتوں کے لیے کتنا مفید ہے۔

بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اپنے جسم پر دھیان دینے سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ ممکنہ بیماریوں کی پہلے سے نشاندہی ممکن ہے اور کسی بھی نئی دوا کو صحیح وقت پر لیا جا سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کہ لمبی عمر کی سائنس کے شعبے میںکام کرنے والے تقریباً تمام افراد خود ایک سے زیادہ ٹریکر پہنتے ہیں خواہ وہ سمارٹ واچ ہو یا سمارٹ انگوٹھی ۔ اور یہ لوگ اچھی نیند کے حصول میں جنون کی حد تک مبتلا ہیں۔

جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے ٹریکنگ آلات بہت پسند ہیں۔ میں ذیابیطس کی مریض نہیں ہوں لیکن جب میں نے کچھ عرصے کے لیے گلوکوز مانیٹر پہنا تو اپنے جسم میں گلوکوز کی مقدار کو جاننا بہت اچھا لگتا تھا۔

یہ فرض کر لیا گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی زندگی کے دورانیے میں اضافہ ہو گا لیکن اس کی شکل شاید وہ نہ ہو جس کی ہمیں توقع ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید کوئی ایسی دوا ایجاد ہو جائے جو زندگی میں ایک دو سال کا فرق ڈال دے، اور پھر اسی دوا کی بہتر قسم یہ فرق کئی سالوں تک بڑھا دے اور پھر یہ اسی طرح بڑھتی رہے۔

لیکن ایسی صورتحال اپنے ساتھ عملی اور اخلاقی الجھنیں بھی سامنے لائے گی۔

ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا طویل العمری کو ایک بیماری کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ریگولیٹرز کے ذریعہ ادویات کی منظوری آسان ہوسکتی ہے لیکن ایک حد سے زیادہ سے عمر کے لوگوں کو ’بیمار‘ قرار دینے کا خطرہ ہے۔

اس طرح کے علاج کی لاگت ایک مسئلہ ہوسکتا ہے، ایک صحت مند لائف سٹائل کے ذریعے زندگی کے کچھ اضافی سال ملنے کا امکان موجود ہے لیکن پھر ہمیں طویل عرصے تک کام کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے.

یہ بھی پڑھیے

طویل عمر پانی ہے تو یہ آزما کر دیکھیں! مگر 100 سال کی عمر پانے کا نسخہ آخر ہے کیا؟

طویل عمر کا راز کیا ہے، خوراک، عبادت یا اعتدال؟

طویل العمری کے بارے میں نو حقائق

Getty Images

طویل العمری کو سمجھنے کے میرے مشن نے میری توقعات پر پانی پھیر دیا۔ میں نے ایسی سنسنی خیز ہیڈلائنز پڑھ رکھی تھی کہ ٹیکنالوجی کے کاروبار سے منسلک ارب پتی اپنی پرتعیش کشتیوں پر گھومتے ہوئے اس بات پرغور و فکر کررہے ہیں کہ آیا وہ دنیا کو بچانا چاہتے ہیں، خلا میں جانا چاہتے ہیں، یا عمر رسیدہ افراد کا ’علاج‘ کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے اپنے اس مشن کے دوران جو دیکھا وہ یہ نہیں تھا۔امیر لوگ برسوں سے طبی تحقیق کے لیے پیسے دے رہے ہیں۔ یہ صرف دولت کی ایک نئی قسم ہے، اور طب کی ایک اور ممکنہ مہارت۔

لیکن یہ بہت دلچسپ ہے اور ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔

لیکن ابھی تک اپنی زندگی کا دورانیہ بڑھانے کا راستہ کٹھن ہے۔ سلیکون ویلی کے ایک صحافی ڈینی فورٹسن اسے کچھ یوں بیان کرتے ہیں ’ورزش کرنا اذیت ہے، جادوائی گولیاں کھانا آسان ہے، اسی لیے ہر کوئی گولیوں کے بارے میں متجسس ہے۔ ‘

لہذا میں اس عزم کے ساتھ گھر واپس آئی ہوں کہ میں صحتمندانہ لائف سٹائل اپناؤں گی جس میں اچھی نیند، ورزشاور اچھی خوراک شامل ہو گی اور میں اپنے سماجی رابطوں کی قدر کروں گی۔

جی ہاں سماجی رابطے طویل العمری کے نسخے میں شامل ہے۔ تھوڑی بہت قسمت کے ساتھ مجھے زندگی میں کچھ اضافی وقت مل جائے گا جب کوئی بڑی سائنسی کامیابیحاصل ہو جائے گی اور میں لمبی عمر پا سکوں گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More