Getty Images
’جشن رہا کب ہے؟ کوئی بھی طبقہ پاکستان میں عید نہیں منا رہا سب بس گزارا ہی کر رہے ہیں۔‘
میری دادی جان اگر حیات ہوتیں تو یقیناً ٹیچر عظمیٰ زاہد کی اس بات پر اعتراض کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عید پر سب کا ایک چھت کے نیچے جمع ہوجانا ہی عید کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے اور گویا جشن منانے کے لیے صرف لوگوں کا مل بیٹھنا ہی کافی ہوتا ہے۔
لوگوں کے ساتھ رکھ رکھاؤ،ان کی خوشی غمی میں شامل ہونا، غالباً دادی جان کو ملنسار ہونا گُھٹی میں ملا تھا۔ ان کی وفات کو اب 17 برس بیت چکے ہیں۔ ان کے دور میں عید مبارک کے فارورڈ میسجز کی بھرمار نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی عید سیلفی لے کر درجنوں دوستوں کو ٹیگ کرنا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
شاید میں نے بھی اوپر بومر انکلز (60 کی دہائی میں پیدا ہونے والے افراد) والی بات کی جو اپنے زمانے کی تعریفیں کیے تھکتے نہیں۔
لیکن اس بار فون ایپ کے کے ذریعے عیدی ٹرانسفر کرتے ہوئے میں یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوا کہ کیا واقعی آج کل کی عید کی وہ بات نہیں رہی؟
’عید منانے کا اب وہ جذبہ نہیں رہا‘
رمضان کے آخری عشرے میں لوگ جہاں عبادت میں مصروف ہوتے ہیں وہیں ساتھ ہی ساتھ عید کی تیاریاں بھی زور و شور سے شروع ہو جاتی ہیں۔
دادی جان تو باقاعدگی سے ہر رمضان اعتکاف میں بیٹھتی تھیں جبکہ میرے کزنز اور میری ساری توجہ عید کی تیاریوں پر مرکوز ہوتی تھیں۔
کون کتنی عیدی دے گا؟ ہم سب کا اُن دنوں پسندیدہ موضوع یہی ہوتا تھا۔
عید کے پہلے دن گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا تھا اور ہم سے کہا جاتا تھا کہ ’بیٹا گھر میں بزرگ ہیں اس لیے یہ سب لوگ ہماری طرف آتے ہیں‘
گھر میں بنی لذیز سویّاں اس مقدار میں پکائی جاتی تھیں کہ رات 11 بجے ڈیفینس سے آنے والے بڑے ماموں کو بھی فراغ دلی سے بڑے پیالے میں پیش کی جاتی تھیں۔
لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ پچھلے کئی برسوں سے کافی کم ہوگیا ہے بلکہ اب توعید کی نماز پڑھنے کے بعد آ کر کچھ دیر سستانے کو ہی میں صحیح معنوں میں عید کی خوشی تصور کرتا ہوں۔
ایسا نہیں کہ صرف ہمارے ہاں ہی ملنا جُلنا کم ہوگیا۔ میری اس بارے میں بات ہوئی غزالہ زبیر اوران کے شوہر سید زبیر احمد ہاشمی سے جو کراچی کے رہائشی ہیں۔
ان دونوں کے مطابق 80 کی دہائی میں جب موبائل فون نہیں تھے تب دوستوں، رشتے داروں اور محلے داروں سے ملنا جُلنا بہت تھا۔
’کھانے گھر میں پکائے جاتے تھے لیکن اب لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے‘۔
غزالہ زبیر کہتی ہیں کہ ’اب ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ بزرگوں کے گھر چلے جائیں اور بہت سے دوست تو ملک سے باہر چلے گئے ہیں تو ان سے بھی رابطہ اب فیس بک تک ہی محدود رہ گیا ہے۔‘
سید زبیر ہاشمی کا ماننا ہے کہ ’سوشل میڈیا کی وجہ سے اب وہ قدریں نہیں رہیں اور شاید اسی لیے عید کا وہ جذبہ بھی اب دیکھنے کو نہیں ملتا۔‘
80 کی دہائی اور عید کارڈ
فارورڈ میسیجز والی نسل سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے یہ سننا کہ عید کے لیے کسی زمانے میں لوگ مخصوص عید کارڈ خریدنے جاتے تھے اور اسے بھرنے کے لیے بھی خوب محنت کیا کرتے تھے بہت انوکھی بات لگی تو میں نے وقت ضائع کیے بغیر زبیر ہاشمی سے تفصیل سے اس بارے میں معلومات لیں۔
تو بات کچھ یوں ہے کہ 80 کی دہائی میں زبیر ہاشمی اور ان کے بہن بھائی نہ صرف جوش و جزبے کے ساتھ عید کارڈ خریدنے جایا کرتے تھے بلکہ اس کے بعد اس میں لکھے جانے والے مضمون یا اشعار کے بارے میں سوچتے تھے۔ انھیں پھر بیرون ملک اور دوسرے شہروں میں مقیم اپنے عزیز و اقارب کو بھیجا کرتے تھے۔
زبیر ہاشمی کے مطابق ’ان کارڈز کا اہتمام اس نیت سے کیا جاتا تھا کہ وہ عید سے ایک دن پہلے یا عید والے دن ان لوگوں تک پہنچ جائیں اور وہ بھی عید کی خوشی میں شامل ہوجائیں۔‘
’مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ بس ہم خودکُشی کر لیں‘
شاید اس عید پر نئے جوتے پہننا اور نئے کپڑے بنوانا بہت سے پاکستانیوں کے لیے ایک خواب ہی رہ گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ ہوش اڑانے والی مہنگائی ہے جس نے متوسط اور اس سے نچلے طبقے کے لیے جینا شدید مشکل بنا دیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر پہلے تو اِکّا دُکّا ’گولڈن مین‘ کھڑے نظر آتے تھے لیکن اب ان سٹریٹ پرفارمرز کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔
شکیل احمد بھی گذشتہ چھ ماہ سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا کام کر رہے ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ اپنے گھر تک عید کی خوشیاں پہنچانے سے محروم ہیں۔
شکیل احمد کہ مطابق ’میرے پاس پرانی چپل پڑی ہے وہی پہن لیں گے۔ اتنی مہنگائی ہوگئی ہے کہ ہم راشن نہیں لے سکے، نئے جوتے اور کپڑے تو دور کی بات ہے۔ غریبوں کی کہاں عید ہوتی ہے‘۔
اس بار اپنے گھر میں کھانے کی ڈشز کی تعداد میں کمی دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تفریح کے لیے پہلے ہی محدود آپشنز ہیں اس مہنگائی نے یقیناً لوگوں سے یہ ذریعہ بھی چھین لیا ہے۔
عظمی زاہد ایک استانی ہیں اور ان کے مطابق متوسط طبقے کے لیے اس بار عید منانا بہت مشکل ہو گیا ہے ’ہم بمشکل اب بچوں کے عید کے کپڑے بنا پاتے ہیں۔‘
عظمی زاہد کہتی ہیں کہ انھوں نے پھربھی بہت اچھا وقت گزارا ہے لیکن اُن کے بچوں نے تو تنگ دستی کی زندگی دیکھی ہے۔
’ہم اگر بچوں کو باہر بھی لے کر جانا چاہیں کسی پارک میں تو پیٹرول کی قیمتوں کا سوچ کر وہ پلان بھی ترک کردیتے ہیں تو سیلیبریشن اب رہی ہی نہیں۔‘
عید ایسا موقع ہوتا ہے جب عوام امید کرتی ہے کہ انھیں ریلیف مہیا کیا جائے گا مگر اس دوران ہر چیز کی قیمت میں اتنا اضافہ ہوجاتا ہے کہ تفریح بھی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے۔
’ہم نے چیزوں کو خود بہت مشکل بنا دیا ہے‘
عیدی کتنی ملی اس بار؟ مجھے یاد ہے سکول میں اکثر و بیشتر بچے ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ لیتے تھے اور ایک مقابلہ سا شروع ہوجاتا تھا۔ اس مقابلے میں اوّل آنے کے لیے نہ صرف عیدی کی رقم سب سے زیادہ ہونی چاہیے بلکہ رقم میں اگر چند ڈالر بھی شامل ہیں تو آپ نے سمجھو میدان مار لیا۔
سعدیہ کاشف تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس قسم کا مقابلہ صرف سکولوں میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے جہاں لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنی روز مرّہ کی زندگی میں رکھے گئے معیار کا تعین کرنے لگتے ہیں اور اپنی زندگی بہت مشکل بنا لیتے ہیں۔
’میں دیکھوں گی کہ اس بندی نے فلاں برانڈ کا جوڑا پہنا ہوا ہے تو مجھے بھی اب وہی چاہیے ہو گا۔ اب میرے تین دن کے تین نئے جوڑے ہونے چاہیں۔‘
سعدیہ کاشف کے مطابق ہم سب نے ضروریات کے بجائے آسائشوں کو ترجیح دینا شروع کردیا ہے جو ہماری پریشانی میں صرف اضافہ کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ پرانے وقتوں میں ایک تھان سے کپڑا آتا تھا اور اس سے چار بہنوں کے کپڑے بن جاتے تھے۔ کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا کہ کس نے سیا؟ تب برانڈز کا تصور نہیں تھا۔ زندگی سادہ تھی اس لیے آسان تھی۔ اگر وہ کھاڈی کا جوڑا پہن رہی ہے تو میں بھی پہنوں گی اور اگر میں نہ خرید پاؤں تب بھی ڈیپریشن کا شکار تو ہوں گی ہی۔‘
عید کا اصل مقصد؟
جیسا کہ داری جان کہتی تھیں کہ عید کا اصل مقصد دوسروں میں خوشیاں بانٹنا ہے اور حقیقی خوشی وہی ہوتی ہے جس میں آپ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ جب ہم نے ان تمام لوگوں سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں عید کیسے منائی جانی چاہیے۔ تو انھوں نے کچھ ایسے مشورے دیے۔
کوشش کریں کہ ان افراد کو نیا جوڑا یا جوتے دلوائیں جن کو سارا سال نئے کپڑے پہننے کا موقع نہیں ملتا۔
فیملی میں دعوت پر کسی ایک ممبر پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ہر کسی کو ایک ڈش لانے کا کہہ دیں۔
کوشش کریں کہ عید کی ملاقاتوں میں فون اپنی جیب میں ڈال لیں یا بند کردیں! لوگوں سے براہ راست بات کریں نہ کہ فون کے ذریعے یہ جاننے پر اکتفا نہ کریں کہ دوسروں نے کیسے عید منائی۔ اپنی خوشی کو ترجیح دیں۔
یہ موقع سال میں ایک بار ہی آتا ہے تو کوشش کریں کہ دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ سال بھر کی جانے والی دعوتوں جیسا ماحول نہ دہرائیں بلکہ کہیں سیر و تفریح یا کوئی گیم کھیلنے کا منصوبہ بنا لیں۔