زوماٹو: اب آپ دلی میں حیدرآبادی بریانی، لکھنوی ٹنڈے کباب اور کولکتہ کے رس گلے کا مزا لے سکتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 18, 2023

Getty Imagesزوماٹو کی فہرست میں حیدرآباد کی بریانی بھی شامل ہے

'بریانی کے لیے کسی آدمی کی شدید چاہت کی کوئی حد نہیں۔'

اور شاید اسی لیے انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے رہائشی انیرودھ سوریسن سینکڑوں میل دور حیدرآباد سے ڈش آرڈر کرنے پر مجبور ہوئے۔ خیال رہے کہ انڈیا کا جنوبی شہر حیدرآباد اپنی مخصوص بریانی کے لیے مشہور ہے جہاں چاول اور گوشت والی دم بریانی بنتی ہے۔

اور اس کے علاوہ انھوں نے لکھنؤ کے معروف ٹنڈے کباب اور کولکتہ (سابقہ کلکتہ) سے بنگالی مٹھائیاں بھی آرڈر کیں۔

بہر حال ان کا تجربہ بہت اچھا نہیں رہا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'بریانی انتہائی بری تھیں، وہ بریانی کو بریانی بنانے والی ہر چیز سے عاری تھی۔ کسی طرح بھی گرم کرنے پر ٹنڈے کباب میں وہ ذائقہ پیدا نہیں ہوا اور دہلی میں کوئی بھی مقامی مٹھائی کی دکان کولکتہ کی مٹھائیوں کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔'

مسٹر سوریسن ان ہزاروں ہندوستانیوں میں شامل ہیں جو فوڈ ڈیلیوری ایپ زوماٹو کی انٹرسٹی کہانیوں پر بھروسہ کر رہے ہیں اور بریانی، رس گلے اور کچوریوں کی اپنی چاہت کے لیے وہ حد سے آگے بھی جا رہے ہیں۔ زوماٹو کمپنی نے 10 شہروں کے تقریباً 120 مشہور ریستوراں کے ساتھ شراکت داری کی ہے جو پرواز کے ذریعے 24 گھنٹوں کے اندر ہندوستان کے مشہور ترین پکوان فراہم کرتے ہیں۔

کمپنی میں ان خدمات کی سربراہی کرنے والی کاماینی سدھوانی کہتی ہیں کہ 'اس خیال کے تحت انڈیا طول عرض کے مخصوص ذائقے کو ایک تھال میں سجانا تھا۔'

Getty Imagesکجوریاں اور سموسے انڈیا کے مقبول پکوانوں میں شامل ہیں

زوماٹو نے پہلی بار اگست میں ایک تجربے کے طور پر یہ سروس شروع کی اور وہ یہ خدمات جنوبی دہلی اور دارالحکومت کے ایک اعلیٰ مضافاتی علاقے گروگرام (گڑگاؤں) کے کچھ حصوں کے رہائشیوں کے لیے تھی۔ اس کے بعد سے اس نے ممبئی اور بنگلورو سمیت چھ سے زیادہ شہروں تک اپنا کام بڑھا دیا۔ کمپنی اب اس سروس کو ملک بھر میں دستیاب کروانے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

مز سدھوانی کہتی ہیں کہ یہ پیشکش 'پرانی یادوں' اور 'مزید جاننے' کی خواہش پر مرکوز ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 'ہمارا مقصد اپنے صارفین کی ضروریات کو دو طریقوں سے پورا کرنا ہے۔ ایک ان کے آبائی شہر کے کھانوں کے ذائقے کے ذریعے ان کی جڑوں سے دوبارہ جڑنے میں مدد کرکے اور دوسرے انھیں ہمارے ملک میں موجود وسیع دوسری لذتوں سے روشناس کرانے کا موقع فراہم کر کے۔'

بی بی سی نے کم از کم نو دیگر صارفین سے بات کی جنھوں نے مسٹر سوریسن کی طرح اس اسکیم کو 'بہت اچھا' نہیں پایا۔

لیکن مز سدھوانی نے کہا کہ گاہک کا ردعمل 'ہمارے خواب و خیال سے بھی زیادہ رہا ہے۔ تاہم انھوں نے اپنی خدمات کی وسعت کا تخمینہ پیش کرنے سے گریز کیا۔

زوماٹو گلوبل گروتھ کے نائب صدر سدھارتھ جھاور نے گذشتہ سال بزنس سٹینڈرڈ کو بتایا تھا کہ 'جب ہم نے اسے شروع کیا تو ہم نے سوچا کہ یہ مہنگا اور ایک پرتعیش پیشکش ہو گی۔ تاہم، وقت کے ساتھ ہماری لاگت کے تخمینوں نے ہمیں یقین دلایا کہ یہ کوئی پرتعیش چیز نہیں ہے۔'

ڈیلیوری کی قیمتوں میں کمی اور فراہمی کے اوقات میں کمی سے لے کر رعایتوں اور منٹوں میں گروسری ڈیلیوری کے وعدے تک زوماٹو تجربات کرنے میں پیچھے نہیں ہے۔ سنہ 2008 میں اپنے آغاز کے بعد سے، کمپنی نے انڈیا کی پرہجوم فوڈ مارکیٹ میں منافع حاصل کرنے کے لیے لاجسٹک کی حدود کو مسلسل آگے بڑھایا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے ماڈل کو کرونا کے وبائی مرض سے بھی فائدہ ہوا جب ریستوراں کو آن لائن جانے پر مجبور کیا گیا ، اور آؤٹ سورس کی ترسیل کے لیے زوماٹو جیسی ایپس پر بہت زیادہ انحصار کیا جانے لگا۔

ممبئی میں مقیم ڈیجیٹل ایڈیٹر اور کھانے کی کتابوں کی مصنف سونل وید کہتی ہیں کہ 'لاک ڈاؤن کے مہینوں کے دوران کھانے کی ترسیل سب سے زیادہ موزوں ہو گئی کیونکہ اچھے ریستوراں جو کھانے کی ترسیل میں شامل نہیں تھے، انھوں نے اپنے کھانے کو پیک کرنے اور اسے باہر بھیجنے کا طریقہ سیکھا۔'

وہ مزید کہتی ہیں 'انٹر سٹی (ایک شہر سے دوسرے شہر ) شاید اس کی توسیع ہے۔'

Getty Imagesکولکتہ کے بلرام ملک اور رادھارمن ملک کی مٹھائی کی دکان پر مختلف اقسام کے سندیش ملتے ہیں

لیکن بریانی کو سیکڑوں میل دور پہنچانا کوئی مذاق نہیں ہے اور زوماٹو کا دعویٰ ہے کہ وہ سفر کے دوران کھانے کو محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی احتیاط برتتی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ کھانے کو منجمد کرنے یا کسی بھی قسم کے پرزرویٹیو کو شامل کیے بغیر اسے محفوظ رکھنے کے لیے چھیڑ چھاڑ نہ کیے جانے والے باکسز اور 'جدید موبائل ریفریجریشن' کا استعمال کرتی ہے۔

اس کے علاوہ پلیٹ فارم پر بہت سارے ریستوراں پہلے ہی کورئیر کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے انٹرسٹی ڈیلیوری کا انتظام رکھتے ہیں، جس نے اس سکیم کو کامیاب بنانے میں مدد کی ہے۔

کولکتہ کی مشہور مٹھائی کی دکان بلرام ملک اور رادھارمن ملک سویٹس کے ڈائریکٹر سدیپ ملک کہتے ہیں کہ 'زوماٹو انٹرسٹی نے ایک شور پیدا کیا اور ہماری مصنوعات کو مشہور کیا، یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان سے آرڈرز آرہے ہیں۔'

یہ بھی پڑھیے

کیا یہ دبئی کا سب سے مستند پکوان ہے؟

’بہت سے پکوان جنھیں انڈین سمجھا جاتا ہے وہ اصل میں انڈین نہیں‘

’کوٹھے کی مٹھائی‘: ترکیہ کا مشہور پکوان جسے ’قدرتی ویاگرا‘ مانا جاتا ہے

اس پلیٹ فارم پر مسٹر ملک بنیادی طور پر اپنی خاص چیزیں بیکڈ رسگلے اور (مخصوص مٹھائی) سندیش فراہم کرتے ہیں جنھیں خصوصی ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح سفر کر سکیں۔'

مسٹر ملک کا کہنا ہے کہ سردیوں کے دوران، جو کہ ہندوستان میں تہواروں کا موسم ہے، آرڈرز میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 'ایک موقع پر تو ہم مانگ کو پورا کرنے سے قاصر تھے یہاں تک کہ ہمیں انٹرسٹی ڈیلیوری کے لیے اپنے کاؤنٹرز پر ڈیلیوری روکنی پڑی تھی۔'

دوسرے ریستورانوں کا بھی کہنا ہے کہ انھیں اپنے صارفین کی جانب سے مثبت رائے مل رہی ہے۔

حیدرآباد میں پستہ ہاؤس کے مینیجنگ ڈائریکٹر شعیب محمد کہتے ہیں: 'یہ بہت اچھا رہا۔' پستہ ہاؤس اپنی بریانی اور حلیم کے لیے مشہور ہے۔'

اب وہ ہفتے کے آخری دنوں میں روزانہ اوسطاً 100 سے زیادہ ڈیلیوری کرتے ہیں اور زیادہ تر آرڈر دہلی اور ممبئی سے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'حال ہی میں، ہم نے ایک دن میں 800 بکس ڈلیور کیے تھے۔'

Getty Imagesسموسہ انڈیا بھر میں بہت مقبول ناشتہ ہے

پستہ ہاؤس ستمبر میں اس وقت سرخیوں میں آیا جب گروگرام میں ایک مایوس گاہک نے ٹویٹ کیا کہ اسے بریانی کے آرڈر کی جگہ صرف ایک چھوٹا سا سالن کا ڈبہ ملا ہے۔ مسٹر محمد نے کہا کہ زوماٹو نے گمشدہ آرڈر کا سراغ لگا کر اور ایک اور مفت بریانی کا پیکٹ دے کر شکایت کو حل کر دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'یہ پلیٹ فارم اور ریستوراں دونوں کے لیے ایک اچھا اشتہار بن گیا۔'

لیکن ماہرین اس سکیم کی طویل المدتی افادیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور وہ ملک بھر میں سروس کو معیاری بنانے اور اس پر عمل درآمد میں دشواری کا حوالہ دیتے ہیں۔

صحافی سوہنی متتر کہتی ہیں: 'ہندوستانیوں کی پرانی یادوں سے محبت کے پیش نظر کاغذ پر یہ خیال بہت اچھا ہے، لیکن طویل سفر اور ہمارا پہلے سے زیادہ بوجھ والا کولڈ چین انفراسٹرکچر اسے زماٹو کے لیے ایک انتہائی مہنگا کام بناتا ہے۔'

سب سے بڑھ کر گاہک سوچتے ہیں کہ کیا پر شور بازاروں اور بھول بھولیوں جیسی گلیوں کے اندر چھپے ہوئے مشہور مقامات پر کھانے کا تجربہ واقعی گھر میں بنایا جا سکتا ہے؟

مز متتر کہتی ہیں کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ کولڈ چین پلاسٹک کے برتنوں کے اندر اس جادو کو جگایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کھانا کھانے کے قابل رہتا ہے لیکن اس سے جڑے تمام تجربات کھڑکی سے غائب ہوتے ہیں۔'

مسٹر سوریسن اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'حیدرآباد میں ہوٹل شاداب جیسی جگہ پر ٹہلنے میں ایک خاص دلکشی ہے، جہاں مصالحوں اور گوشت کی خوشبو آپ کو سو قدم دور سے ہی کھینچتی ہے۔

'آپ بھیڑ میں بیٹھے ہیں اور آپ کے لیے ایک پلیٹ میں گرما گرم بریانی لائی جاتی ہے، اور ہر لقمہ ذائقے سے بھرا ہوتا ہے، اور آپ کو جتنا بھی سالن یا رائتہ چاہیے اسے دینے کے لیے ایک ویٹر وہاں کھڑا ہوتا ہے۔'

مز وید کہتی ہیں کہ ذاتی طور پر وہ بھی ایک مشہور مقام پر بریانی کھانے کو ترجیح دیں گی 'لیکن اگر اے آئی اور لاجسٹکس ان لوگوں کے لیے حل پیش کرنے کے قابل ہیں جو اپنے گھر میں کھانا پسند کرتے ہیں، تو یہ کاروبار کے لیے اچھا ہے۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More