ایران میں احتجاج: گولیوں سے آنکھیں زخمی ہونے کے باوجود متاثرین کے حوصلے بلند ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 05, 2023

ایک جوان عورت اسپتال کے بستر پر لیٹی ہوئی ہے، اس کی دائیں آنکھ پر پٹی بندھی ہوئئ ہے۔ اس کی بائیں آنکھ بند ہے، اور وہ درد سے کراہ رہی ہے۔

الہیٰ توکلولین کو ایرانی سکیورٹی فورسز نے مشہد کے قریب ایک شمال مشرقی شہر میں احتجاج کے دوران گولی مار دی تھی۔

پی ایچ ڈی کی یہ طالبہ اپنی دائیں آنکھ کی بینائی کھو بیٹھیں۔

انتباہ: اس مضمون کی بعض تفصیلات کچھ قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔

لیکن صرف تین ماہ بعد ہی انھوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسٹاگرام پر اپنی تکلیف کی ویڈیو شیئر کی۔

اپنی پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’آپ نے میری آنکھوں کو نشانہ بنایا لیکن میرا دل اب بھی دھڑک رہا ہے۔ میری آنکھ سے وہ منظر دور کرنے کے لیے آپ کا شکریہ جس نے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔

’میرے دل کے اندر کی روشنی اور آنے والے اچھے دنوں کی امید مجھے مسکراہٹ بخشتی رہے گی۔ لیکن آپ کا دل اور آپ کے کمانڈر کا دل ہر روز تاریک ہوتا جا رہا ہے۔

’مجھے جلد ہی گلاس کی آنکھ ملے گی اور آپ کو تمغہ ملے گا۔‘

الہٰی حال ہی میں ایران چھوڑ کر اٹلی جہاں ان کے سر میں لگنے والی گولی نکلانے کے لیے بڑی سرجری کی گئی تھی۔ انھوں نے اسپتال کے بستر سے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ کہتی ہیں: ’میں یہ بتانے کے لیے زندہ رہوں گی۔‘

آپریشن کے بعد انھوں نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ وہ مستقبل میں ’بین الاقوامی عدالت کے سامنے اس گولی کو پیش کرنا چاہتی ہیں۔‘

تنہا نہیں

ستمبر میں پولیس کی تحویل میں ایک نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد نے ایران کی مذہبی اسٹیبلشمنٹکے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ ماہسا کو مبینہ طور پر حجاب نہ پہننے پر پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

BBCفارسی سوشل میڈیا پر بہت سے نو جوانوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ان کی آنکھوں کو نشانہ بنایا

انسانی حقوق کے کارکنوں کی خبر رساں ایجنسی (ایچ آر اے این اے) کے مطابق پولیس نے کریک ڈاؤن کے بعد تقریباً 20،000 افراد کو گرفتار کیا اور 500 افراد مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے۔

نابینا ہونے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انھیں تاک کر نشانہ بنایا گیا۔

لیکن ایران کی بلوہ پولیس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل حسن کرامی نے حال ہی میں ایرانی میڈیا میں اس طرح کے الزامات کی تردید کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی فورسز پر ’جان بوجھ کر‘ مظاہرین کے چہرے پر گولی چلانے کا الزام ’پروپیگنڈا‘ ہے۔

قانون کی طالبہ غزل رنجکیش بھی انھی میں سے ایک تھیں۔ انھیں نومبر میں جنوبی شہر بندر عباس میں گولی مار ی گئی تھی۔

اکیس سالہ غزل وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے اپنے زخم کے بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔

انھوں نے اسپتال کے بستر سے جو ویڈیو شیئر کی تھی اس میں ان کی دائیں آنکھ سے خون بہہ رہا ہے لیکن وہ پھر بھی انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہی تھیں۔

یہ ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اندرون و بیرون ملک ایرانیوں کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح حکام کی جانب سے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

غزل نے اپنی ویڈیو کے ساتھ لکھا: ’جب تم نے مجھے گولی ماری تو تم کیوں مسکرا رہے تھے؟‘

بعد میں انھوں نے طبی عملے کی حفاظت کی خاطر اسے حذف کر دیا جن کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں۔

لیکن غزل نے کچھ انوکھا شروع کر دیا تھا۔

اسی طرح کیے زخموں والے نوجوان مردوں اور عورتوں کو احساس ہوا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور ان کے صدمے میں ان کی مدد کرنے کے لئے ایک آن لائن کمیونٹی موجود ہے۔

انسٹاگرام پر فارسی زبان میں غزل کے ذاتی بیان میں لکھا ہے کہ ’آنکھوں کی آواز کسی بھی چیخ سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔‘

انھوں نے حال ہی میں اپنی نئی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ اگر آپ انھیں غور سے نہ دیکھیں تو آپ کو ان پر کسی فیشن شوٹ کا گمان ہو سکتا ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ ’درد نا قابل برداشت ہے لیکن میں اس کی عادی ہو جاؤں گی۔ میں اپنی زندگی بسر کروں گی کیونکہ میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں ابھی فتح نہیں ملی ہے، مگر قریب ضرور ہے۔‘

غزل کو مصنوعی آنکھ لگائی گئی ہے۔ انھوں نے اسے قبول کرنے کی اپنی جدوجہد کے بارے میں لکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے چہرے پر لگے زخم کی عادی ہو چکی ہیں اور انھیں اس پر فخر بھی محسوس ہوتا ہے اور یہ کہ پلاسٹک سرجری سے گزرنا تکلیف دہ تھا۔

لیکن وہ ایک جنگجو کا جذبہ رکھتی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’میں ایک آنکھ سے آزادی کا مشاہدہ کروں گی۔‘

’زندہ ثبوت‘

کوئی نہیں جانتا کہ ایران بھر میں کتنے لوگ اس طرح زخمی ہوئے ہیں۔

اسپتال میں گرفتار کیے جانے کا خوف اس قدر تھا کہ کچھ مظاہرین طبی امداد حاصل کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ سال ستمبر اور نومبر کے درمیان اسی طرح کے زخموں سے متاثرہ 500 افراد نے تہران کے تین اسپتالوں میں علاج کرایا تھا۔

تہران سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ محمد فرزی کو ستمبر میں گولی ماری گئی تھی۔ برڈ شاٹ، شاٹ گن پیلٹ کی ایک قسم، جس کی گولی ان کی آنکھ میں لگی تھی۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھے اس پر افسوس نہیں ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے لوگوں کی آزادی کے لیے اپنی آنکھ قربان کر دی۔‘

وہ خطرات کے باوجود اسپتال گئے اور ان کی آنکھ کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے اور وہ اپنے تیسرے آپریشن سے پہلے علاج بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔

محمد کا کہنا تھا: ’بنیادی مسئلہ مالی، نفسیاتی اور طبی طور پر مدد ہے۔‘

ایک اندازے کے مطابق انھوں نے اسپتال کی فیس کی مد میں 2500 ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔

ڈاکٹر محمد جعفر غفار ان 400 ماہرین چشم یا آنکھوں کے ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ایک سرکاری خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ زخمیوں کو مزید مدد فراہم کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ نابینا مظاہرین معاشرے میں ہمیشہ کے لیے الگ تھلگ نظر آئیں گے۔

انھوں نے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں کہا، ’اپنی زندگی کے آخر تک یہ نوجوان ایران کے کریک ڈاؤن کا زندہ ثبوت رہیں گے۔‘

محمد چاہتے تھے کہ انھیں ملنے والی آن لائن حمایت حقیقی دوستی میں بدل جائے۔

وہ ایک زخمی خاتون کوثر افتخاری کے ساتھ ایک بڑے آپریشن سے پہلے الہٰی سے ملنے 560 میںل دور واقع اسپتال گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ واحد چیز ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔ ہمیں درد اور تکلیف کا احساس ہے اس لیے ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔‘

انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی جس میں تمام زخمی فتح کا نشان بنا رہے ہیں۔

درد کے باوجود الہٰی نے اپنی سرجری کے بعد انسٹاگرام پر پوسٹ کیا۔ انھوں نے اپنے والد، محمد اور کوثر کا شکریہ ادا کیاکہ وہ ان کے ساتھ موجود ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’میرے زخم سے امید کِھلتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More