Getty Images
طالبان کے ایک حکم نامے کے تحت افغان خواتین کو اقوام متحدہ میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے انہیں زبانی طور پر آگاہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس اقدام کے بارے میں تحریری رابطہ نہیں ہوا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنے افغان عملے مردوں اور خواتین سے کہا ہے کہ وہ 48 گھنٹے تک کام پر نہ آئیں جب تک کہ طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں اس معاملے پر وضاحت نہ ہو جائے۔
2021 میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے خواتین کی آزادی پر قدغنوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک پریشان کن رجحان ہے جس سے امدادی تنظیموں کی ضرورت مند افراد تک پہنچنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے'۔
اقوام متحدہ نے طالبان کے اس حکم نامے کو 'ناقابل قبول اور ناقابل فہم' قرار دیا ہے۔
خواتین کارکن زمینی امدادی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، خاص طور پر ضرورت مند دیگر خواتین کی نشاندہی میں۔ اقوام متحدہ افغانستان میں 23 ملین افراد تک انسانی امداد پہنچانے کے لیے کام کر رہا ہے، جو شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے۔
غیر ملکی خواتین کارکنوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ لیکن اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی کارروائیوں کے مستقبل اور تنظیم اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کا سب سے اہم امتحان ہوگا۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مشرقی صوبہ ننگرہار میں مقامی طالبان حکام نے منگل کے روز افغان خواتین کو اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے سے روک دیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ میں افغان خواتین ساتھیوں کو افغانستان کے صوبے ننگرہار میں کام کرنے سے روکنے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ اگر اس اقدام کو واپس نہیں لیا گیا تو یہ لامحالہ ان لوگوں کو زندگی بچانے والی امداد فراہم کرنے کی ہماری صلاحیت کو کمزور کردے گا جنہیں اس کی ضرورت ہے۔
جب تک اسے واپس نہیں لیا جاتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ دسمبر میں نافذ تمام این جی اوز کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی سے مستثنیٰ نہیں رہے گا۔ توقع کی جارہی ہے کہ صحت کے شعبے میں خواتین کارکنوں کو اب بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے گی ، لیکن صرف اس صورت میں جب وہ دفاتر میں نہیں بلکہ براہ راست صحت کی سہولیات میں رپورٹ کریں گی۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے لباس پہنیں جو صرف ان کی آنکھوں کو ظاہر کرے، اور اگر وہ 72 کلومیٹر (48 میل) سے زیادہ سفر کر رہی ہیں تو ان کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار ہونا ضروری ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں خواتین کے پارکوں، جم اور سوئمنگ پولز میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
طالبان نے خواتین کی تعلیم کے حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا ہے۔ گزشتہ ماہ خواتین کی تعلیم کے لیے سرگرم معروف افغان کارکن مطیع اللہ ویسا کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔
فروری میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے سخت ناقد پروفیسر اسماعیل مشعل کو بھی کابل میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ مفت کتابیں تقسیم کر رہے تھے۔