بی بی سی اردو کے سابق براڈکاسٹر آصف جیلانی کی وفات

بی بی سی اردو  |  Apr 04, 2023

بی بی سی اردو میں ہمارے سینئر ساتھی اور جامعہ ملیہ دلی کے استاد شیخ عبدالواحد سندھی کے فرزند آصف جیلانی کا ننہالی تعلق اتر پردیش کے معروف تعلیمی مرکز علی گڑھ سے تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کے نام کا دوسرا لفظ ’جیلانی‘ اِسی ننہالی رشتے کا اشارہ ہے۔ خاندانی پہچان کی ان دونوں جہتوں کو سامنے رکھیں تو اس معتدل مزاج شخصیت اور جید صحافی کی طبیعت کا خوشگوار توازن خود بخود سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ اُن کی تعلیم علی گڑھ، دلی اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں ہوئی۔

اپنی بات کروں تو ذاتی تعارف کا موقع اب سے چالیس سال پہلے لندن میں بی بی سی اردو سے وابستہ ہونے کے مرحلے پر ملا جہاں آصف جیلانی ہماری آمد سے پہلے ہی حالاتِ حاضرہ کے ’ہیوی ویٹ‘ پروڈیوسر کے طور پر اپنی صحافیانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔

ان کے پیشہ ورانہ تجربے کی وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ اِس سے لگائیں کہ بطور اخبار نویس کراچی میں موصوف کی روزنامہ امروز سے کیرئر کی ابتدا، اُن کے پسِ زندان چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض کی ’دستِ صبا‘ کی اشاعت اور اب سے ستر برس پہلے خود میری پیدائش کا سال ایک ہی ہے۔ چنانچہ ذاتی تعارف سے کئی برس پیشتر ہائی سکول کے اِس طالب علم نے روزنامہ جنگ میں اُن کا مکتوبِ دلی اور پھر مکتوبِ لندن بھی ایک تسلسل کے ساتھ پڑھا۔

اِسے خوش قسمتی سمجھنا چاہیے کہ بی بی سی سے میری وابستگی اور پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق علی الصبح نشر ہونے والے ’جہاں نما‘ میں جیلانی صاحب سے ہم نشینی کی ابتدا ایک ساتھ ہی ہوئی۔ ہماری شبینہ ملاقات کا آغاز پروگرام کی تیاری سے ذرا پہلے کافی کے کپ اور ہلکی پھلکی ذاتی بات چیت سے ہوا کرتا۔ جیلانی صاحب کے نجی اور پیشہ ورانہ تجربات سے واقفیت کا ذریعہ ہماری یہی ملاقاتیں تھیں۔ جیسے یہ انکشاف کہ وہ انعام عزیز مرحوم کی زیرِ ادارت جنگ لندن کے اجرا کے وقت اِس کے پہلے نیوز ایڈیٹر تھے۔ اِس سے پہلے 1965ء کی پاک بھارت لڑائی کے دوران دلی میں، جہاں وہ روزنامہ جنگ کے نامہ نگار کی حیثیت سے مقیم تھے، اُنھیں دشمن مُلک کے شہری کے طور پر گرفتار کر لیا گیا اور تہاڑ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

بطور سینئر جرنلسٹ نوجوان ساتھیوں سے آصف جیلانی کا رویہ ہمیشہ دوستانہ حوصلہ افزائی کا رہا جس میں مصنوعی سرپرستی کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ دو باتوں پر اُن کا زور ترجیحی نوعیت کا ہوتا۔ اول یہ کہ تازہ ترین خبر کو پروگرام میں جگہ ملے۔ دوئم یہ مستقل کوشش کہ زبان ایسی آسان فہم ہو کہ پان والے کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ بارہا یہ ہوا کہ علی الصبح ٹرانسمیشن کے لیے ہم پوری تیاری سے ایک ساتھ سٹوڈیو پہنچے اور پروگرام کا آغاز ہو گیا۔ لیکن میری ساڑھے نو منٹ کی خبروں کے دوران آصف صاحب ملحقہ کیوبیکل میں جا کر دو تین تازہ ترین خبریں ضرور نکال لاتے جو فوری طور پر ترجمہ کر کے بلیٹن ختم ہوتے ہی ’جہاں نما‘ میں بریک کی جاتیں۔

1990 کی دہائی کی ابتدا میں، جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھر رہا تھا، ایک رات تاجکستان کے عوامی اجتماع میں ترنم سے پڑھی گئی علامہ اقبال کی فارسی نظم ٹیلی فون لائن پر ہم تک پہنچ گئی۔ ہم نے باہمی مشاورت سے طے کیا کہ آج ’جہاں نما‘ کا آغاز سگنیچر ٹیون سے نہیں، اسی صوتی ریکارڈنگ سے ہوجائے۔ اور پھر یہی ہوا۔ پہلے ایک انفرادی صدا: ’از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خواب گراں خیز‘ اور پھر ہزاروں کے مجمع کی آواز ’از خوابِ گراں خیز، از خوابِ گراں خیز۔‘ تب سے آصف جیلانی میرے لیے اِسی فکری بیداری کی لہر کا استعارہ بنے ہوئے ہیں اور اپنے جانے کے بعد بھی رہیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More