گائے ذبیحہ کے کیس میں گائے کے گوبر کے علاوہ بطور ثبوت کچھ اور پیش نہ کیے جانے پر ملزم کی ضمانت

بی بی سی اردو  |  Apr 04, 2023

AFPریاست اس معاملے میں منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے: عدالت (فائل فوٹو)

حالیہ برسوں میں انڈیا میں گائے ذبح کرنے کے الزامات اکثرخونی موڑ لے چکے ہیں اور متعدد افراد کو شک کی بنیادپر ہجوم نے مار دیا یا انہیں مہینوں تک قید میں گزارنے پڑے ہیں۔

لیکن حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ نے گائے کو ذبح کرنے کے الزام میں گرفتار ایک شخص کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ پینل قانون کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال ہے اور ریاست نے اس معاملے میں منصفانہ تفتیش نہیں کی ہے۔

عدالت نے مزید نوٹ کیا کہ ثبوت کے طور پر گائے کے گوبر کےعلاوہ کچھ اور پیش نہیں کیا گیا ہے۔

انڈیا میں گائے کو ذبح کرنے کے شبہ کی بنیاد پر لنچنگ، تشدد اور گرفتاری کے واقعات میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں لیکن حالیہ برسوں میں کئی ریاستوں نے اسے مزید سخت بنایا ہے۔

عدالت نے اتر پردیش کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہدایت دی کہ وہ ضروری کارروائی کریں کہ تفتیشی افسران گائے کے ذبیحہ سے متعلق معاملات میں منصفانہ تفتیش کو یقینی بنائیں۔

یہ مقدمہ گاؤں کے چوکیدار نے اتر پردیش کے ضلع سیتا پور میں چار لوگوں کے خلاف درج کرایا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 16 اگست 2022 کی شام انہیں اطلاع ملی تھی کہ ’جمیل نامی شخص کے گنے کے کھیت میں ممنوعہ جانور کو ذبح کیا گیا ہے‘۔

ایف آئی آر میں یہ درج کیا گیا تھا کہ گاؤں کے کچھ لوگوں نے نامزد ملزمان کو جمیل کے گنے کے کھیت کی طرف بچھڑا لے جاتے دیکھا تھا۔

لیکن عدالت نے ملزمان پر لگائے گئے ان الزامات سے اتفاق نہیں کیا۔

عدالت نے کہا کہ وکلاء کی طرف سے دی گئی دلیل اور دستیاب ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو کوئی ممنوعہ جانور اور نہ ہی اس کا گوشت برآمد ہوا ہے اور ایف آئی آر اور چارج شیٹ محض شک کی بنیاد پر درج کی گئی ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ ’تفتیشی افسر نے جائے وقوعہ سے گائے کے گوبر کی باقیات اکٹھی کیں اور اسے تجزیہ کے لیے فرانزک لیب کو بھیج دیا جسے فرانزک لیب نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ فرانزک لیب کا کام گائے کے گوبر کا تجزیہ کرنا نہیں ہے‘۔

عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار یعنی جمیل کے خلاف جرم کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔

اسے پینل قانون کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کسی ملزم کے قبضے سے یا جائے وقوعہ سے نہ تو ممنوعہ جانور اور نہ ہی اس کا گوشت برآمد ہوا ہے اور تفتیشی افسر کی طرف سے صرف ایک رسی اور کچھ مقدار میں گائے کا گوبر اکٹھا کیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم بچھڑا لے کر اپنے کھیت کی طرف جا رہا تھا لیکن یہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ریاست اس معاملے میں منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ’اس آرڈر کی ایک کاپی ڈی جی پی کو دی جائے۔ تاکہ تمام مجرمانہ معاملات میں اور خاص طور پر گائے کے ذبیحہ سے متعلق معاملات میں منصفانہ تفتیش کو یقینی بنانے کے لیے تفتیشی افسران کو ان کی ذمہ داری کی یاد دلائی جا سکے‘۔

عدالت کی جانب سے گائے کی ذبیحہ سے متعلق تفتیش پر اس سے پہلے بھی سوالیہ نشان لگایا جا چکا ہے۔ گائے کے مبینہ ذبیحہ کے اسی طرح کے ایک اور معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 2020 میں کہا تھا کہ ریاست اتر پردیش کے گائے ذبیحہ قانون کا بے قصور لوگوں کے خلاف غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

عدالت نے کہا تھا کہ ’جب بھی کوئی گوشت برآمد ہوتا ہے تو اسے عام طور پر فرانزک لیبارٹری میں جانچ کیے بغیر گائے کا گوشت قرار دے دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں گوشت کو لیب میں تجزیے کے لیے بھیجا بھی نہیں جاتا ہے‘۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ ایسے افراد جیل میں بند ہیں جنہوں نے اس طرح کا کوئی جرمکیا ہی نہیں ہے۔

جج نے کہا کہ جب بھی گائے کی بازیابی دکھائی جاتی ہے تو کوئی مناسب ریکوری میمو تیار نہیں کیا جاتا ہے اور کسی کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ گائے بازیابی کے بعد کہاں چلی گئی۔

’فرانزک لیب کا کام گائے کے گوبر کا تجزیہ کرنا نہیں‘Getty Images

عدالت نے کہا کہ وکلاء کی طرف سے دی گئی دلیل اور دستیاب ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو کوئی ممنوعہ جانور اور نہ ہی اس کا گوشت برآمد ہوا ہے اور ایف آئی آر اور چارج شیٹ محض شک کی بنیاد پر درج کی گئی ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ ’تفتیشی افسر نے جائے وقوعہ سے گائے کے گوبر کی باقیات اکٹھی کیں اور اسے تجزیہ کے لیے فرانزک لیب کو بھیج دیا جسے فرانزک لیب نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ فرانزک لیب کا کام گائے کے گوبر کا تجزیہ کرنا نہیں ہے‘۔

عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار یعنی جمیل کے خلاف جرم کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔

اسے پینل قانون کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کسی ملزم کے قبضے سے یا جائے وقوعہ سے نہ تو ممنوعہ جانور اور نہ ہی اس کا گوشت برآمد ہوا ہے اور تفتیشی افسر کی طرف سے صرف ایک رسی اور کچھ مقدار میں گائے کا گوبر اکٹھا کیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم بچھڑا لے کر اپنے کھیت کی طرف جا رہا تھا لیکن یہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کافی نہیں ہے اور نشاندہی کی کہ گائے اور بچھڑے کو پالتو جانوروں کے طور پر رکھنا گاؤں میں ذات پات، نسل اور مذہب سے قطع نظر ایک عام رواج ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ریاست اس معاملے میں منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ’اس آرڈر کی ایک کاپی ڈی جی پی کو دی جائے۔ تاکہ تمام مجرمانہ معاملات میں اور خاص طور پر گائے کے ذبیحہ سے متعلق معاملات میں منصفانہ تفتیش کو یقینی بنانے کے لیے تفتیشی افسران کو ان کی ذمہ داری کی یاد دلائی جا سکے‘۔

عدالت کے ذریعے گائے کی ذبیحہ سے متعلق تفتیش پر اس سے پہلے بھی سوالیہ نشان لگایا جا چکا ہے۔ گائے کے مبینہ ذبیحہ کے اسی طرح کے ایک اور معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 2020 میں کہا تھا کہ ریاست اتر پردیش کے گائے ذبیحہ قانون کا بے قصور لوگوں کے خلاف غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

جج نے کہا کہ جب بھی گائے کی بازیابی دکھائی جاتی ہے تو کوئی مناسب ریکوری میمو تیار نہیں کیا جاتا ہے اور کسی کو نہیں معلوم نہیں ہوتا ہے کہ گائیں بازیابی کے بعد کہاں چلی گئیں۔

اسے پینل قانون کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کسی ملزم کے قبضے سے یا جائے وقوعہ سے نہ تو ممنوعہ جانور اور نہ ہی اس کا گوشت برآمد ہوا ہے اور تفتیشی افسر کی طرف سے صرف ایک رسی اور کچھ مقدار میں گائے کا گوبر اکٹھا کیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم بچھڑا لے کر اپنے کھیت کی طرف جا رہا تھا لیکن یہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کافی نہیں ہے اور نشاندہی کی کہ گائے اور بچھڑے کو پالتو جانوروں کے طور پر رکھنا گاؤں میں ذات پات، نسل اور مذہب سے قطع نظر ایک عام رواج ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ریاست اس معاملے میں منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ’اس آرڈر کی ایک کاپی ڈی جی پی کو دی جائے۔ تاکہ تمام مجرمانہ معاملات میں اور خاص طور پر گائے کے ذبیحہ سے متعلق معاملات میں منصفانہ تفتیش کو یقینی بنانے کے لیے تفتیشی افسران کو ان کی ذمہ داری کی یاد دلائی جا سکے‘۔

عدالت کے ذریعے گائے کی ذبیحہ سے متعلق تفتیش پر اس سے پہلے بھی سوالیہ نشان لگایا جا چکا ہے۔ گائے کے مبینہ ذبیحہ کے اسی طرح کے ایک اور معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 2020 میں کہا تھا کہ ریاست اتر پردیش کے گائے ذبیحہ قانون کا بے قصور لوگوں کے خلاف غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

عدالت نے کہا، ’جب بھی کوئی گوشت برآمد ہوتا ہے تو اسے عام طور پر فارنسک لیبارٹری میں جانچ کیے بغیر اسے گائے کے گوشت قرار دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں گوشت کو لیب میں تجزیہ کے لیے بھیجا بھی نہیں جاتا ہے‘۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ ایسے افراد جیل میں بند ہیں جنہوں نے اس طرح کا کوئی جرمکیا ہی نہیں ہے۔

عدالت کے حالیہ فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے انڈین امریکن مسلم کونسل نے کہا کہ گائے سے متعلق قوانین کو پورے ملک میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کرناٹک میں ادریس پاشا نامی ایک مویشیوں کے تاجر کو مبینہ طور پر ’گاؤ رکھشکوں‘ کے حملے کے بعد مشتبہ حالات میں مردہ پایا گیا تھا۔

https://twitter.com/IAMCouncil/status/1642974665348993024?s=20

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More