بہکی بہکی نشۂ حسن میں کھوئی کھوئی
جیسے خیام کی رنگین رباعی کوئی
دل کے شیشے میں پری بن کے اتر آئی ہے
آج گلشن میں نہیں گھر میں بہار آئی ہے (فلم بے نظیر)
یا
میر کی غزل کہوں تجھے میں، یا کہوں خیام کی رباعی (فلم عبداللہ)
یا
’اگر عمر خیام کی رباعی کو سنہرے ورق کے بجائے پتھریلی زمین پر لکھا دیا جائے تو کیا اس کے معنی بدل جائيں گے۔‘ (فلم مغل اعظم)
یہ خیام کی شہرت کی چند مثالیں ہیں۔ جہاں سنہ 1960 میں آنے والی فلم ’مغل اعظم‘ میں دلیپ کمار اپنے ذوق جمالیات کی سند کے طور پر عمرخیام کی رباعی کا ذکر کرتے ہیں، وہیں سنہ 1964 میں آنے والی فلم ’بے نظیر‘ کے ایک گیت میں ششی کپور اپنی محبوبہ کی خوبصورتی کی مثال خیام کی رباعی سے دیتے ہیں جبکہ سنہ 1980 میں آنے والی فلم ’عبداللہ‘ میں سنجے خان اپنی محبوبہ زینت امان کے لیے بھی خیام کی رباعی کا ذکر کرتے ہیں۔
ان سے عمر خیام کی رباعی کے ظاہری حسن اور معانی و مفاہیم کی گہرائی اور گیرائی دونوں کا پتا چلتا ہے۔ اگرچہ 11ویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والے عمر خیام ریاضی دان، فلسفی، نجومی، حکیم، عالم فاضل تھے اور شاعری ان کے فارغ وقت کا ایک مشغلہ محض تھا لیکن ان کی رباعی ایک ہزار سال بعد آج بھی مقبول خاص و عام ہیں اور آج بھی ان کے کمالات کا چرچا ہے۔
نہ صرف بالی وڈ میں بلکہ ہالی وڈ میں بھی ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
سنہ 1957 میں انھی کے نام پر فلم ’عمر خیام‘ بنی لیکن ناقدین کے مطابق یہ فلم ان کی متنوع شخصیت کو اس کے شایان شان پیش کرنے سے قاصر رہی جبکہ سنہ 2005 میں ’دی کیپر: دی لیجنڈ آف عمر خیام‘ سامنے آئی۔
اس کے علاوہ ان کی رباعیات کا ذکر درجنوں فارسی اور انگریزی فلموں میں ہو چکا ہے جن میں ’کوئن آف ڈیزرٹ‘ (2015)، تردید (2009)، ’ڈوئل ان دی سن‘ اور ’ویلنٹینو‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ اگر عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے اپنی تصانیف کے نام رکھے تو وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو عمر خیام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنا قلمی نام ہی ’ساقی‘ رکھ لیا۔
بالی وڈ سپرسٹار امیتابھ بچن کے والد اور ہندی کے معروف شاعر ہری ونش رائے بچن کی کتاب ’مدھوشالہ‘ (میکدہ) اس ضمن میں اپنی مثال آپ ہے جس نے نہ صرف انھیں صف اول کاہندی شاعر بنایا بلکہ اس میں بہت سی چیزیں خیام کا محض ترجمہ ہیں۔
بہرحال خیام کی پزیرائی صرف ادب، فلم یا آرٹ تک محدود نہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں ان کے الجبرا پر مباحثے ہوتے رہے ہیں۔ ماہر فلکیات کے طور پر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سنہ 1970 میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام کے نام پر رکھا گیا۔ یہ گڑھا بعض اوقات زمین سے بھی نظر آتا ہے جبکہ سنہ 1980 میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔
عمر خیام کے بارے میں جتنا کچھ لکھا گیا فارسی کے کم ہی شاعروں کے بارے میں اتنا لکھا گیا۔ چنانچہ معروف ایرانی سکالر مجتبی مینوی نے ان کے متعلق لکھا کہ ’بلاشبہ شعرائے ایران کے درمیان ایسا کوئی نظر نہیں آتا، جسے خیام کے مانند عالمی شہرت ملی ہو۔‘
کلکتہ یونیورسٹی میں فارسی کے استاد ڈاکٹر محمد شکیل کا کہنا ہے کہ ان سب کے باوجود خیام کی حيات اور ان کی پیدائش کے بارے میں کم معلومات ہیں اور جو معلومات ہیں ان میں بہت سی باتوں پر تاریخ، ادب کے ماہرین میں اختلاف رائے ہے۔
یہی بات سید سلیمان ندوی نے اپنی تصنیف ’خیام‘ میں کہی ہے کہ ’جس شخصیت یا موضوع پر جتنا زیادہ لکھا جاتا ہے اس میں اتنا ہی تنوع اور تضاد ملتا ہے۔‘
اسی سلسلے میں مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی حیدرآباد میں فارسی کے استاد ڈاکٹر قیصر احمد کا کہنا ہے کہ خیام کی شہرت کے باوجود ان کا علم عام نہیں۔
دلیل کے طور پر وہ معروف سائنسدان سر آئزک نیوٹن کے اس بیان کو پیش کرتے ہیں جس میں انھوں نے خود کو علم کے سمندر کے ساحل پر کنکریاں چنتے ہوئے بچے کی مانند کہا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ نیوٹن نے جو بات کہی وہی ان سے سینکڑوں سال قبل خیام نے کہی تھی لیکن طلبا کو اس کا علم نہیں۔ خیام کی مندرجہ رباعی اس کا ثبوت ہے:
تا بود دلم ز عشق محروم نشد
کم بود ز اسرار کہ مفہوم نشد
اکنوں کہ ہمی بنگرم از روئے خرد
معلومم شد کہ ہیچ معلوم نشد
(جن دنوں میرا دل عشق سے محروم نہیں تھا، ایسے کم ہی اسرار تھے جو مجھ پر ظاہر نہ تھے لیکن جب اپنی عقل و خرد سے دیکھا تو پتا چلا کہ مجھے تو کچھ بھی معلوم نہیں)
ایسے ہی ایک قول کا ذکر افلاطون نے سقراط سے منسوب کیا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘
19ویں صدی میں انگریزی کے شاعر ایڈورڈ فٹزجرالڈ نے خیام کی رباعیوں کا اس اثرانگیزی کے ساتھ ترجمہ کیا کہ انھیں بھی اسی حوالے سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔
سید صباح الدین نے خیام پر اپنے مضمون میں لکھا کہ فٹزجیرالڈ کے 101 رباعیات کے ’انگریزی ترجمے ایسے مقبول ہوئے کہ انجیل کی عبارت کے بعد انگریزی بولنے والوں کی زبان پر یہی اشعار ہوتے تھے‘ جبکہ فریڈرک روزی نے لکھا کہ ’مشرق کے کسی شاعر کو اتنی مقبولیت نہ ملی جتنی کہ خیام خیمہ دوز کو ہوئی۔‘
ابتدائی زمانہ
عام روایت سے پتا چلتا ہے کہ ان کی پیدائش نیشا پور میں سنہ 1024 اور 1029 کے درمیان ہوئی جبکہ ان کے ہم عصر ابو ظہیرالدین بیہقی نے ان کی پیدائش سنہ 1048 بتائی ہے۔
ان کی طالب علمی کا ایک مشہور قصہ فٹزجیرالڈ سمیت بہت سے لوگوں نے نقل کیا۔ قصہ یوں ہے کہ اپنے زمانے کے معروف عالم اور دانشور نظام الملک طوسی، حسن صباح اور عمر خیام ہم جماعت تھے۔
سید سلیمان ندوی نے نقل کیا کہ وہ سب ایک ہی استاد کے شاگرد تھے، جن کے شاگرد بڑے عہدوں پر فائز ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ ان تینوں نے کسی وقت یہ عہد کیا کہ ان میں سے جو کوئی پہلے بڑے عہدے پر فائز ہو گا وہ باقی دوستوں کی مدد کرے گا۔
چنانچہ نظام الملک طوسی طاقتور سلجوقی بادشاہ الپ ارسلاں کے وزیراعظم مقرر ہوئے تو بقیہ دونوں دوست ان سے ملنے گئے۔
نظام الملک نے خیام کو انعام اکرام سے سرفراز کیا اور انھیں وظیفہ بھی دیا جس سے انھوں نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی جبکہ حسن صباح نے امداد کو ٹھکرا دیا۔ یہ حسن صباح وہی ہیں جنھیں فرقہ باطنیہ کا بانی کہا جاتا ہے اور قلعہ الموت میں انھوں نے ایک جنت ارضی قائم کی تھی جس کا ذکر بہت سی تاریخی کتابوں اور فسانوں میں ملتا ہے۔
ایک جگہ پر يہ بھی آیا ہے کہ خیام اور حسن صباح دونوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ بہرحال سید سلیمان ندوی کے مطابق اس میں زیادہ سچائی نہیں اور یہ کہانی بعد میں گھڑ لی گئی کیونکہ ان کی عمروں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
خیام کی رباعیات کے نسخےBBCسفید و سیاہ تصویروں پر مبنی رباعیاتِ عمر خیام کی کلیات کا بچ جانے والا نسخہ جسے سنہ 2001 میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے رنگین بنایا گیا
خیام کی رباعیات کو جس قدر آبِ زر اور سنہرے اوراق پر لکھا گیا، وہ بے نظیر ہے۔ ان کی رباعیات کا ایک نادر مجموعہ بیسویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ میں تیار کیا گیا تھا جو ٹائٹینک جہاز کے بحر اوقیانوس میں غرقاب ہونے کے سبب سمندر کی تہہ میں کہیں گم گیا۔
اس بے مثال نسخے کو سنہ 1911 میں اپنے زمانے کے معروف جلدساز فرانسِس سنگورسکی نے دو سال کی محنت کے بعد مکمل کیا۔ یہ ایک ایسا نادر کام تھا جسے دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ جاتا تھا۔
16 انچ لمبی اور 13 انچ چوڑی اس کتاب کو 1050 جواہرات سے مزین کیا گیا تھا جس میں خاص طور پر کٹے ہوئے یاقوت اور زمرد شامل تھے۔ اس کی تخلیق میں تقریباً 100 مربع فٹ سونے کے اوراق اور چمڑے کے تقریباً 5,000 ٹکڑے استعمال کیے گئے تھے۔
لندن کے ایک اخبار ’ڈیلی مرر‘ نے اس کتاب کی تصاویر سے مزین جلد کو ’اب تک کا سب سے ’قابل ذکر نمونہ‘ کہا تھا جبکہ دوسروں نے اسے انتہائی ’حیرت انگیز کتاب‘ قرار دیا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے سنہ 1914 کی اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ ’خیام کی رباعی کا امریکی ایڈیشن شائع کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پچھلے تمام نسخوں سے بہتر مرقعات کا اہتمام کیا۔ اب تک اس قدر روپیہ اور دماغ خیام کی تصویروں پر کسی نے صرف نہیں کیا۔ یورپ کے مشہور مصوروں کی خدمات کئی سال پیشتر سے حاصل کر لی گئیں تھیں اور فارسی شاعری کی ادبی تاریخ اور اس عہد کے عجمی حکما و شعرا کے لباس و اشکال کا تاریخی مواد اس غرض سے بہم پہنچایا تھا کہ مصوروں کو بہتر سے بہتر اور اقرب سے اقرب تصور قائم کرنے میں مدد مل سکے۔‘
اس نسخے کا کیا ہوا اس کا علم نہیں لیکن اس کے بعد سنگورسکی کے نمونے پر ایک جلد اسی قسم کی سنہ 1930 میں تیار ہوئی جو جرمنی کے فضائی حملے کی زد میں آیا اور اسے نقصان پہنچا لیکن اب یہ نسخہ برٹش لائبریری میں موجود ہے لیکن اس تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
نجومی، ریاضی دان یا شاعر، عمر خیام کی وجہ شہرت کیا تھی؟
رباعیاتِ عمر خیام کے لندن میں بنے دو مرصع نسخے کیسے برباد ہوئے؟
کیلنڈر جلالی یا تقویم جلالیGetty Imagesعمر خیام کی ایک اور خیالی تصویر
عمر خیام کو جلالی کیلنڈر بنانے والے ماہر فلکیات اور ماہر علم ریاضی کے سربراہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام میں رائج کلینڈر قمری ہے اورسال اور مہینے کا حساب قمری یعنی چاند کی بنیاد پر ہے۔ اسلام میں یہ آج بھی رائج ہے اور اسی کے مطابق تمام مذہبی تہوار منائے جاتے ہیں لیکن ایک ایسے خطے میں جہاں زراعت مستحکم تھی اور لوگ متمدن تھے وہاں قمری سال ضرورت پورا نہیں کر پا رہا تھا اس لیے ایک ایسے کلینڈر کی ضرورت محسوس ہوئی جس سے کاشت کا حساب رکھا جا سکے۔
اسی نقطۂ نظر پر ایک نیا کلینڈر جلالی کیلنڈر ترتیب دیا گیا جو ایک شمسی کیلنڈر ہے اور جسے نظام الملک کے حکم سے سلجوقی بادشاہ جلال الدین ملک شاہ اول کے دور میں مرتب کیا گیا تھا اور اس کے مشاہدے کی جگہ اصفہان (سلجوقیوں کا دار الحکومت)، نیشاپور اور دوسرے بڑے شہر تھے۔
ایران اور افغانستان میں جلالی کیلنڈر کی مختلف قسمیں آج بھی رائج ہیں۔ ایران میں مہینوں کے فارسی نام استعمال ہوتے ہیں جبکہ افغانستان میں عربی نام استعمال ہوتے ہیں۔
جلالی کیلنڈر کو آج تک کا سب سے درست کلینڈر بھی مانا جاتا ہے جس میں 128 سال کے بعد ایک دن کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ دنیا بھر میں رائج کیلنڈر میں ہر چوتھے سال فروری کے مہینے میں ایک دن کا اضافہ ہوتا ہے اور یہ 28 کے بجائے 29 دن کا ہوتا ہے اور اس سال کو ’لیپ ایئر‘ کہتے ہیں۔
جلالی کیلنڈر کے تحت ایرانی سال مارچ یعنی نوروز سے شروع ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خیام نے ’نوروز نامہ‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا۔
نوروز نامہ
لیکن زیادہ تر نقاد کا کہنا ہے کہ ’نوروز نامہ‘ خیام کی تصنیف نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں اسلام سے قبل ایران کی ثقافت کا ذکر ہے اور اس کی مدح سرائی کی گئی ہے۔
پروفیسر محمد اقبال نے اپنے مضمون ’نوروز نامہ خیام‘ میں لکھا کہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب خیام میں اس کا ذکر کیا حالانکہ اس وقت تک یعنی سنہ 1933 تک یہ رسالہ شائع نہیں ہوا تھا۔ اس سے کچھ سال قبل یہ برلن کی لائبریری میں ملا تھا۔
محمد اقبال لکھتے ہیں کہ ’محض ابواب کی فہرست اور ان کے عنوانوں کو دیکھ کر انھیں (سید سلیمان ندوی) شک پیدا ہوا تھا کہ ایسی کتاب خیام کی تصنیف نہیں ہو سکتی۔‘
یہ بھی پڑھیے
رباعیاتِ عمر خیام کے لندن میں بنے دو مرصع نسخے کیسے برباد ہوئے؟
ہندوستانی خواتین کے حُسن کے معترف امیر خسرو
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ایسا شک ہر اس شخص کے دل میں پیدا ہونا چاہیے، جو خیام سے واقف ہو اور چھٹی صدی کی فارسی تصانیف کی نوعیت کو پہچانتا ہو۔ ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود ناشر نے بھی اس رسالے کے شبے کی نظر سے دیکھا لیکن خیام کے حوالے سے جو عقیدت اب نوجوان ایرانیوں کے دلوں میں موجزن ہو رہی ہے اس نے اس کو اجازت نہیں دی کہ کہ تصانیف خیام کی فہرست میں ایک اور کتاب کا اضافہ نہ ہونے دیا جائے لیکن اب خیام کو بھی زرتشتی شاعروں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔‘
Getty Imagesخیام کی رباعیات
بہرحال خیام کی وجہ شہرت آج ان کی رباعیات ہیں جن کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے لیکن ان کی رباعیات میں کیا ہے جو آج تک لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔
خیام کی رباعیات کے بارے میں مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ’خیام کی رباعیاں اگرچہ سینکڑوں ہزاروں ہیں لیکن سب کا قدر مشترک صرف چند مضامین ہیں: دنیا کی بے ثباتی، خوش دلی کی ترغیب، شراب کی تعریف، مسئلہ جبر، توبہ استغفار وغیرہ ہے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ہر ایک مضمون کو وہ سو سو بار اس طرح بدل کر ادا کرتے کہ معلوم ہوتا کہ وہ کوئی نئی چیز ہے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’توبہ استغفار ایک فرسودہ مضمون ہے لیکن جس طرح خیام اس کو ادا کرتا ہے، سننے والے کی آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں، مغفرت کی دعا اس جدت اسلوب سے مانگتا ہے کہ دعا کا اثر بڑھ جاتا ہے۔‘
خیام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی شوخ اور ظریف طبع تھے، اس لیے اکثر مضامین کو شوخی اور ظرافت کے پیرائے میں بیان کیا، جس میں اس کے خمریات بھی ہیں، وہ فلسفی و حکیم تھے لیکن صوفی نہ تھے ورنہ حافظ کی یہی شراب معرفت کی شراب بن جاتی۔
ان کی شاعری میں جو فلسفہ ہے وہ لاعلمی کا فسلفہ ہے یعنی تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کیا کرتے ہو، کہاں جاؤ گے؟ خیام ان سوالوں کی تحقیق کی تلقین کرتے ہیں۔
خیام کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اپیکوریس کی آواز کی بازگشت ہے یعنی ’کھاؤ، پیو اور خوش رہو‘ لیکن خیام سے ایسے خطرناک خیالات کی توقع نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی بہت سی رباعیوں میں معاد، جزا اور سزا کا اقرار کیا اور نیکوکاری کی ہدایت کی جبکہ برائیوں سے بچنے کی بات کہی۔ ان کی اخلاقی تعلیم میں ریاکاری سب سے بڑا جرم ہے۔
خیام کی وفاتGetty Imagesسنہ 2016 میں روس میں عمر خیام کے اس مجسمے کی نقاب کشائی ہوئی اور لوگ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آئے
خیام کی وفات کے بارے میں دو روایتیں ملتی ہیں۔ ایک میں یہ ہے کہ ایک رات شراب کی محفل جمی ہوئی تھی کہ یکایک تیز ہوا چلی اور اتنی تیز کہ چراغ گل ہو گئے اور خیام کے ہاتھ سے صراحی چھوٹ کر ٹوٹ گئی۔ شراب کی مستی اور صراحی ٹوٹنے کے غصے میں انھوں نے ایک رباعی کہی جس میں شوخ و گستاخ الفاظ تھے۔
جب ہوا رُکی تو سب نے دیکھا کہ خیام کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ لوگ متنفر ہو کر رخصت ہونے لگے یہاں تک کہ خیام نے آئینہ منگوایا اور اپنے چہرے کو دیکھا تو ہنس پڑے اور پھر رو رو کر ایک رباعی پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے بُرا کیا اور آپ نے اس کا بدلہ برائی سے دیا تو پھر مجھ میں اور آپ میں کیا فرق ہے۔
پھر کیا تھا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو گيا اور اسی وقت سجدے میں گرے اور جان جان آفرین کے حوالے کر دی۔
دوسری روایت امام بغدادی کے حوالے سے نقل کی گئی، جس میں وہ کہتے ہیں کہ خیام تصوف کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے اور جب وحدت و کثرت کے بیان پر پہنچے تو کتاب بند کر دی۔
’انھوں نے مجھ سے کہا کہ میرے دوستوں کو بلاؤ۔ میں نے فردا فردا سب کو بلایا۔ جب سب جمع ہو گئے تو انھوں نے کسی کی جانب التفات نہ کیا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ظہر عصر سے فارغ ہوئے تو سجدے میں رو رو کر کہنے لگے ’اے خدا تو نے مجھ جس قدر علم بخشا، میں نے تیرے پہچاننے میں کمی نہ کی۔ اب تو مجھے بخش دے کیونکہ ترا علم تیرے نزدیک میرا شفیع ہے۔‘
اس کے بعد ان کی روح پرواز ہو گئی۔
Getty Imagesخیام کا مزار نیشا پور میں ہے
خیام نے اپنی قبر کی نسبت اپنی زندگی میں ایک عجیب پیشگوئی کی تھی جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
خیام کے شاگرد نظامی عروضی اپنی معروف تصنیف ’چہار مقالہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 506 ہجری میں شہر بلخ میں بردہ فروشوں کی گلی میں امام عمر خیام اور خواجہ مظفر اسفزاری ٹھہرے تھے۔ میں ان سے ملنے گیا تو خیام نے باتوں باتوں میں کہا کہ میری قبر ایسی جگہ ہو گی جہاں ہر موسم بہار میں باد شمال اس پر پھول برسائے گی۔‘
سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب خیام میں اس واقعے کو نقل کیا اور چہار مقالے کا حوالہ بھی دیا۔
عروضی کہتے ہیں کہ ’مجھے ان کی یہ پیشگوئی محال معلوم ہوئی لیکن میں جانتا تھا کہ خیام لغو نہیں بکتے۔ 530 میں جب نیشاپور پہنچا تو خیام کی موت کو چند سال گزر چکے تھے۔ مجھ پر ان کی استادی کا حق تھا، جمعے کے دن ان کی زیارت کو گیا، ایک شخص کو اپنے ساتھ لے گیا کہ اس کی قبر کا پتا مجھے بتائے، وہ مجھے گورستان حیرہ میں لے گیا۔ بائیں ہاتھ مڑا تو باغ کی دیوار کے نیچے قبر پائی، دیکھا کہ امرود اور زرد آلو کے درخت لگے ہیں اور پھولوں کی اتنی پتیاں گری ہیں کہ قبر بالکل ڈھک گئی۔ اس وقت مجھ کو بلخ کا واقعہ یاد آیا اور میں رو پڑا۔‘